تعمیراتی کاموں میں لگے مزدور، ریہڑی-پٹری اور خوانچہ والے اور رکشہ چلانےوالے مزدوروں کا ایک بڑا طبقہ ہے جو روز کماتا ہے اور روز فیملی کا پیٹ بھرتا ہے،لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے ہوئے لاک ڈاؤن کے بعد ایسے لاکھوں یومیہ مزدوروں کےسامنے روزی روٹی کا بحران کھڑا ہو گیا ہے۔
نئی دہلی: کورونا وائرس پھیلنے کے خطرے کو دیکھتے ہوئے 21 دن کے ملک گیرلاک ڈاؤن کے درمیان گجرات میں کام کرنے والے راجستھان کے ہزاروں مزدور نقل وحمل خدمات دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے پیدل ہی اپنے گھر کو لوٹ رہے ہیں۔احمد آباد کے ایک کانگریس رہنما نے راجستھان حکومت سے اپیل کی ہے کہ گجرات-راجستھان سرحد کے پاس واقع ارولی ضلع کے شامل جی نواحی شہر میں ایسے مزدوروں کے پہنچنے پر ان کے لئے نقل وحمل کا انتظام کیا جائے۔
راجستھان کے ڈونگرپور ضلع کے باشندہ اور احمد آباد میں کام کرنے والے رادھےشیام پٹیل نے کہا کہ بنا کسی کمائی کے یہاں رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔انہوں نے کہا، ‘ ہم لوگ یہاں چائے کی دکانوں یا کھان پان کی ریہڑی پر کام کرتے ہیں۔ چونکہ سب کچھ بند ہے اس لئے ہمارے مالکوں نے ہم سے کہہ دیا ہے کہ حالات ٹھیک ہو جائیں تب آنا، کیونکہ ان کے پاس ہمیں دینے کے لئے پیسے نہیں ہیں۔ بس اوردیگر ذرائع دستیاب نہیں ہیں اس لئے ہم نے پیدل ہی گھر جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ‘
پٹیل اس 50 رکنی گروپ کا حصہ ہیں، جس نے منگل کی رات پیدل سفر شروع کیا تھا۔
Delhi: Daily wage workers walk near Delhi-Ghazipur border for their homes in different districts of Uttar Pradesh. A woman says, "We have no money left as we don't get any work here. What shall we eat? If we would not leave the city, we would die of hunger". #CoronavirusLockdown pic.twitter.com/WcZHY4jt9X
— ANI (@ANI) March 26, 2020
راجستھان کے ادےپور ضلع کے رہنے والے مانگی لال نے کہا، ‘ مجھے وائرس کےخطرہ کے بارے میں پتہ ہے لیکن ہم بے بس ہیں۔ بنا کمائی کے ہم تین ہفتے تک کیسےزندہ رہیںگے؟ ہمارے پاس مکان مالک کو دینے کے لئے پیسے نہیں ہیں۔ اس سے اچھا ہےکہ ہم اپنے گھر چلے جائیں۔’
گاندھی نگر رینج کے پولیس انسپکٹر جنرل مینک سنگھ چاوڑا نے کہا کہ پولیس مزدوروں کو انسانیت کے ناطے کھانے کے پیکیٹ اور پانی دستیاب کروا رہی ہے۔انہوں نے کہا، ‘ ہم ان مزدوروں کو راجستھان واپس جانے سے روکنے کی ہرممکن کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے جانے سے لاک ڈاؤن کا مقصد کامیاب نہیں ہوگا۔ ‘گجرات مہاجر مزدور کانگریس کے صدر اشوک پنجابی نے دعویٰ کیا کہ صرف احمدآباد سے پچاس ہزار سے زیادہ مزدور پیدل ہی راجستھان واقع اپنے گھر کی طرف روانہ ہوچکے ہیں۔
ملک کی دیگر ریاستوں سے بھی ایسی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ این ڈی ٹی وی کی ایک خبر کے مطابق دہلی میں یومیہ مزدوری کرنے والے بنٹی اپنے چھوٹے بھائی، بیوی اور چار بچوں سمیت دہلی چھوڑکر اپنے گاؤں علی گڑھ پیدل جا رہے ہیں۔ ان کے ساتھایک 10 مہینے کا بچہ اور تین چھوٹے بچے ہیں۔
اس کے علاوہ اتر پردیش کے مختلف اضلاع سے بھی ایسی خبریں آئی ہیں جہاں کےمزدور اپنے کام کرنے کی جگہ کو چھوڑکر مجبوری میں اپنے گاؤں کی طرف لوٹ رہے ہیں۔
بند کی وجہ سے یومیہ مزدوروں کے لئے سخت جدو جہد کے دن
تعمیراتی کاموں میں لگے مزدور، ریہڑی-پٹری اور خوانچہ والے اور رکشہ چلانےوالے مزدوروں کا ایک بڑا طبقہ ہے جو روز کماتا ہے اور روز فیملی کا پیٹ بھرتا ہے،لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے ہوئے لاک ڈاؤن کے بعد ایسے لاکھوں یومیہ مزدوروں کےسامنے روزی روٹی کا بحران کھڑا ہو گیا ہے۔
کووڈ-19 وبا کو اور پھیلنے سے روکنے کی کوشش میں ملک میں تین ہفتے کا بندجاری ہے اور پورے ملک کی رفتار تھم گئی ہے۔
لوگ گھروں میں ہی بند ہیں اور اعلیٰ اور متوسط طبقے کی فیملیوں کے سامنےروزی روٹی کو لےکر معاشی مورچے پر اتنا بڑا بحران بھی نہیں ہے لیکن ان آرگنائزڈ سیکٹر میں کام کرنے والا مزدور طبقہ اس بندی سے بری طرح متاثر ہو سکتا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، ملک میں ان آرگنائزڈ سیکٹر میں تقریباً 42 کروڑلوگ کام کرتے ہیں۔ ان میں کسان مزدور بھی شامل ہیں۔
فیملی کی روزی-روٹی جٹانے کے لئے ایک بڑا طبقہ گاؤں سے دور اپنا گھر بساتاہے لیکن ایسے کئی سارے لوگ اب سڑک اور ریل گاڑی بند ہونے کی وجہ سے جہاں تہاں پھنس گئے ہیں۔ ان کو اپنے ساتھ ہی گاؤں میں رہ رہے رشتہ داروں کی بھی فکر ستا رہی ہے۔
بحران کے ان دنوں کی گنتی کتنی ہوگی، کوئی نہیں جانتا۔ کسی کو حالات سےابرنے کا صحیح وقت نہیں پتہ۔ ایسے میں کئی کہانیاں ہیں جو آنکھیں نم کر دیتی ہیں۔
بہار کے بیگوسرائے ضلع کے رہنے والے 22 سال کے بھوپیش کمار دہلی جیسے بڑےشہر میں کمائی کی آس میں آئے تھے، لیکن اب وہ بےحال ہیں۔ نہ تو گاؤں میں فیملی کےپاس جانا ممکن اور نہ ہی کچھ کمانا ہی ممکن ہے۔بقول بھوپیش،’میں گریجویشن کر رہا تھا لیکن تقریباً پانچ مہینےپہلے دہلی آنا پڑا کیونکہ فیملی کی مالی حالت بہت خراب ہے۔ میں گھروں میں پلاسٹرلگانے کا کام کرنا سیکھ رہا تھا۔ اتنے دنوں میں مشکل سے ہی کچھ کما پایا ہوں۔ ‘
گھروں کی رنگائی-پوتائی کا کام کرانے والے ٹھیکے دار انجنی مشرا نے ان کےلئے کام کرنے والے پانچ لوگوں سے گھر واپس جانے کو کہا ہے۔کولکاتہ میں تعمیراتی شعبےکے مزدور منوج بریک کا کام-دھندا اسی ہفتے چلاگیا، جب ان کی کمپنی نے سارا کام ہی روک دیا۔ وہ 300 روپے کےیومیہ سے جیسےتیسےتین بچوں سمیت پانچ ممبروں کی اپنی فیملی کا خرچ چلا رہے تھے لیکن اب آگے کیا،سوجھ نہیں رہا۔
مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی نے گزشتہ منگل کی شام ان آرگنائزڈ سیکٹرکے مزدوروں کے لئے ایک ہزار روپے کی ایک مشت مدد کا اعلان کیا۔منوج بریک اور ان کے جیسے دیگر مزدوروں کے لئے یہ مدد کافی تو نہیں ہے لیکن وقت پر ان تک پہنچ گئی تو تھوڑی راحت ضرور دے سکتی ہے۔
اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت نے سب سے پہلے ریاست میں تقریباً35 لاکھ مزدوروں کے لئے ایک ایک ہزار روپے کی مدد کا اعلان کیا تھا۔ وہیں 1.65کروڑ تعمیراتی مزدوروں کو ایک مہینے تک مفت راشن دئے جانے کا بھی اعلان کیا گیا۔ہریانہ حکومت نے اسی ہفتہ غریبی ریکھا سے نیچے رہنے والے لوگوں کی مدد کےلئے 1200 کروڑ روپے فی مہینے کے پیکج کا اعلان کیا تھا۔
تمل ناڈو کے وزیراعلیٰ کےپلانی سوامی نے راشن کارڈ ہولڈر، ہاکروں اور آٹو-رکشہ ڈرائیوروں کے لئے 3000 کروڑ روپے کی راحت پیکج کا اعلان کیا ہے۔دیگر کئی ریاستیں بھی اس طرح کی پہل کر رہی ہیں۔ کچھ این جی او اورپرائیویٹ سیکٹر کے لوگ بھی بحران کے شکاریومیہ کام کر نے والے لوگوں کی مدد کے لئےآگے آئے ہیں۔
سوشل میڈیا پر لوگ ایک دوسرے سے اپنے آس پاس رہنے والے ایسے غریبوں،محروموں کا کھانا وغیرہ میں مدد کے لئے اپیل کر رہے ہیں۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں