جس وقت حکومت کی ترجیحات میں اسپتالوں کے نظام کو بہتر بنانا اور لاک ڈاؤن کے درمیان عوام کے لیےراشن پانی کا خیال رکھنا تھا، اس وقت مشین گن خریدنے اور دارالحکومت کے ماسٹر پلان پر خرچ کرنے کا کام نیرو جیسا حکمراں ہی کر سکتا ہے۔ پورے ہندوستان میں 1.3بلین آبادی کے لیے صرف 40ہزار وینٹی لیٹرز ہیں۔ اسرائیلی مشین گن کی قیمت تقریباً پانچ لاکھ روپے ہے۔ ایک وینٹی لیٹر کی قیمت بھی اتنی ہی ہوتی ہے۔ کچھ نہیں تو اس رقم سے 17ہزار وینٹی لیٹرز ہی خریدے جاسکتے تھے۔
کہتے ہیں کہ شہنشاہ نیرو کے زمانے میں سلطنت روم میں سخت قحط آن پڑا۔ نیرو کا 13سالہ دور حکومت)54سے 68عیسوی(اس کی اپنی والدہ و اہلیہ کے قتل، بے جا اصراف، شہر روم کی آگ زنی کے لیے تاریخ میں خاصا بدنام ہے۔ قحط کا مقابلہ کرنے کے لیے عمائدین نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ بحری جہازوں کو مصر اور دیگر ممالک میں بھیج کر گندم منگوائی جائے، تاکہ فاقہ زدہ عوام کو راحت مل سکے۔
جہاز روم سے روانہ تو ہوئے، مگر واپسی پر ان پر گندم کے بجائے، مصر کے ریگستانوں کی باریک ریت لدی ہوئی تھی او راسی کے ساتھ شہنشاہ نے روم میں عظیم الشان میلہ کے انعقاد کا اعلان کر کے عوام میں جوش بھر دیا۔
نیرو نے عمائدین کو بتایا کہ گندم کے چند ایک بحری جہاز کہاں تک لاکھوں فاقہ زدہ عوام کی بھوک مٹا سکتے تھے، وہ جلد ہی بغاوت پر اتر آتے۔ مصری ریت بچھا کر شہر کی عالیشان بیضوی تماشاہ گاہوں یعنی کلوسیم کو میلہ کے لیے تیار کیا گیا۔
ان کلوسیم کے کھنڈرات ابھی بھی فلسطین، ترکی، اور یورپ میں معتدد جگہوں پر موجود ہیں۔ بھوک سے بے حال لڑکھڑاتی پبلک میلہ اور خونی کھیل تماشے دیکھنے کےلیے کلوسیم پہنچنے میں سبقت لینے کے لیے ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے۔ کھیل کیا تھے، غلاموں کو آپس میں یا بھوکے درندوں سے لڑوایا جاتا۔
جب و ہ ان کو چیر پھارڑ کررہے ہوتے تو عوام کا جوش دیدنی ہوتا تھا۔ غلام عورتوں کو ایک بڑے سے لوہے کے توے کے اوپر برہنہ رکھا جاتا اور اس کے نیچے ہلکی آنچ پر آگ جلائی جاتی۔ جوں جوں تپش ان عورتوں کے تلوو ں کو چھوتی، وہ غیر اختیاری طور پر اچھل کود کرتی۔
بریکنگ ڈانس کا یہ نظارہ تب تک تماشائیوں کو محفوظ کرتا تھا، جب تک آگ ان غلام عورتوں کے گوشت اور ہڈیوں کو چاٹ نہیں جاتی۔ نیرو آج بھی زندہ ہیں۔ جہاں اس وقت پوری دنیا کو کورونا وائرس نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور معاشی بحران عوام کو بے حال کرنے کے لیے دستک دے رہا ہے، بس اسی دوران نریندی مودی حکومت نے اسرائیل کے ساتھ 870کروڑ روپے کے عوض16489لائٹ مشین گنیں خریدنے کا ایک دفاعی سودا کیا۔
جس دن پورے ملک میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا، اسی روز لگ بھگ 20 ہزار کروڑ یعنی دوسو بلین روپے کی لاگت سے دارالحکومت نئی دہلی کے لیے ایک نئے ماسٹر پلان کا اعلان کیا گیا۔ جس کے تحت پارلیامنٹ ہاؤس وزیر اعظم کی رہائش گاہ اور سینٹرل سیکریٹریٹ کے لیے نئی عمارتیں تعمیر ہوں گی۔ کیونکہ بتایا گیا کہ برطانوی دور اقتدار کے دوران بنائی گئی یہ مشہور عمارتیں نارتھ بلاک، ساؤتھ بلاک و پارلیامنٹ ہاؤس اب سو سال پرانی ہو چکی ہیں۔
جس وقت حکومت کی ترجیحات اسپتالوں کا نظام بہتر بنانا اور لاک ڈاؤن کے درمیان عوام کے لیےراشن پانی کا خیال رکھنا تھا، اس وقت خزانہ عامرہ کی رقوم مشین گن خریدنے اور دارالحکومت کے ماسٹر پلان پر خرچ کرنے کا کام نیرو جیسا حکمراں ہی کر سکتا ہے۔
پورے ہندوستان میں 1.3بلین آبادی کے لیے صرف 40ہزار وینٹی لیٹرز ہیں۔ اسرائیلی مشین گن کی قیمت تقریباً پانچ لاکھ روپے ہے۔ ایک وینٹی لیٹر کی قیمت بھی اتنی ہی ہوتی ہے۔ کچھ نہیں تو اس رقم سے 17ہزار وینٹی لیٹرز ہی خریدے جاسکتے تھے۔
ہندوستان میں ہیلتھ ورکرز چیخ چیخ کر پکار رہے ہیں کہ ان کو اس وقت 7لاکھ25ہزار حفاظتی سوٹ اور 6لاکھ N-95ماسکز کی ضرورت ہے۔ اس کے علاہ ایک کروڑ تھری پلائی ماسکز کی بھی اشد ضرورت ہے۔ یکم فروری سے تین مارچ تک وزات صحت اور وزارت ٹیکسٹائل یہ طے نہیں کر پار ہے تھے کہ ان ماسکز اور سوٹ کی کیا تصریحات ہونی چاہئے۔ 19مارچ تک تو وینٹی لیٹرز کی ایکسپورٹ بھی بغیر روک ٹوک جاری تھی۔
شاید یہی حال جنوبی ایشیاء کے د یگر ممالک کا بھی ہوگا۔ وزیر اعظم مود ی نے اپنی عادت کے مطابق جس طرح اچانک لاک ڈاؤن کا اعلان کیا اس نے ڈیمانڈ-سپلائی چین کو بری طرح بکھیر کر رکھ دیا ہے۔
ہزاروں، لاکھوں مزدو ر ، کاریگر اپنے کنبے ، چھوٹے بچوں اور خواتین سمیت،شہروں سے نکل کر اپنے اپنے گاؤں جانے کے لیے پیدل مارچ کر رہے ہیں۔ حکومت کی بے حسی، پولیس کی بربریت، ملک میں اشیائے خورد و نوش کی کمی نے ان مزدوروں کو شاید کورونا سے بھی بڑے انسانی المیے میں دھکیل دیا ہے۔
شہروں میں ان کے لئے ملازمت یا روزگار کے مواقع ختم ہوچکے ہیں۔ صرف چار گھنٹے کا نوٹس دےکر لاک ڈاؤن لاگو کرنے سے غریب افراد سب سے زیادہ متاثر ہوگئے ہیں۔ اس سے قبل جنوبی افریقہ نے بھی اسی طرح 21 دن کا لاک آؤٹ نافذ کیا، لیکن انہوں نے تین دن کا نوٹس دے دیا تاکہ عوام ضروریات زندگی سے محروم نہ ہوں اوروہ اپنے گھروں تک پہنچیں۔
جب حکومت بیرون ملک سے لوگوں کو لانے کے لئے ہوائی جہاز بھیج سکتی تھی، تو پھر ان غریب بے سہارا مزدوروں کے لیے بھی انتظامات ہوسکتے تھے۔اس سے بھی بڑا المیہ جو منتظر ہے وہ یہ ہے کہ شمالی ہندوستان کے کئی صوبوں میں گندم کی 328لاکھ ہیکٹر فصل کاشت کے لیے تیار ہے۔ جس میں صرف پنجاب میں 130لاکھ ہیکٹر فصل تیار کھڑی ہے۔
سپلائی چین اور ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی سے اس فصل کا منڈیوں تک پہنچانے کا کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا ہے۔ ہندوستان کی ہیلتھ منسٹری کے ہیڈکوارٹر نرمان بھون میں وبائی امراض کی پیشگی اطلاع دینے کے لیے سینٹرل بیورو آف ہیلتھ انٹلی جنس کا محکمہ کام کرتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس محکمہ نے جنوری میں ہی ہندوستان میں اس مرض کے پھوٹنے کی اطلاع دی تھی۔
ملک کے معروف وائرالوجسٹ ڈاکٹر ٹی جیکب جان کے مطابق لاک ڈاؤن کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں تاخیر تو کرسکتا ہے، مگر اس کا شرطیہ علاج نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن پر ہی تکیہ کرنا ایک دیوانے کے خواب کی طرح ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک نے قدرت کی طرف سے ان کو عطا کیا گیا وقت اور مہلت گنوادی۔ڈاکٹر جان کے مطابق اس وقت اس وائرس کو پھیلنے سے کوئی روک نہیں سکتا، ہاں اس کی شدت میں کمی آسکتی ہے۔
یاد رہے دنیا کے چند خطوں میں تباہی پھیلانے کے بعد دیگر وائرس یعنی H1NI اور سارس ابھی بھی موجود ہیں، مگر ان کی شدت میں کمی آگئی ہے۔ اگر ہندوستان میں آدھی فیصد آبادی بھی اس کی زد میں آتی ہے، تو اس سے تین ملین اموات کا خدشہ ہے۔ ہندوستان اور جنوبی ایشیا ء کے دیگر ممالک میں صحت عامہ کے تئیں وار روم حکمت عملی نہیں بنتی ہے۔
جس طرح دفاعی معاملات کے تئیں حساس ادارے آئے دن سیمولیشن اور مشقیں کرتے رہتے ہیں، اس طرح کی ایکسرزائز صحت و وبا کے تعلق سے نہیں کی جاتی ہیں۔ جبکہ اب دنیا ایک حیاتیاتی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے اس شعبہ کو نظر انداز کرنا اور اس کو نیشنل سکیورٹی اپیریٹس میں شامل نہ کرنا بس ایک حماقت ہی ہے۔
ڈاکٹرجان کا کہنا ہے گو کہ چین نے بڑی حد تک کورونا وائرس کے چیلنج کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے، مگر اس وقت دنیا کو جرمنی اور جنوبی کوریا کے اقدامات سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ کوریا نے تو جنوری کی ابتدا ہی میں بچاؤ تدبیریں اختیار کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ان دونوں ممالک میں سرکاری اور نجی اداروں کا اشتراک قابل رشک ہے۔
دونوں اداروں نے ٹیسٹنگ سینٹروں کا جال بچھایا ہوا ہے۔ جنوبی ایشیائی ممالک میں تو ابھی تک بس تھوڑی سی ہی آبادی کی ٹسٹنگ ہوئی ہے اور بیشتر ان افراد کی جو باہر سے آئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب سے میں نے پوچھا کہ کیا وائرس سے جلدی چھٹکارا پانے کی کوئی ترکیب ہے تو ان کا کہنا تھا کہ موسم گرما کی آمد کے ساتھ اس کے پھیلنے کی رفتار رک سکتی ہے، مگر خزاں اور پھر سردیوں میں یہ پھر سر اٹھا سکتا ہے۔
اس کے ویکسین پر کام جار ی ہے، مگر ٹیسٹنگ وغیرہ کے مراحل سے نکل کر مارکیٹ میں آنے میں ایک سال کا وقت لگ سکتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جنوبی ایشائی ممالک میں پرائمری ہیلتھ کی سہولیات ضلع سطح تک اب خاصی بہتر ہیں، مگر ثلاثی کیر، جو وبائی امراض کے وقت کارگر ہوتی ہے کا فقدان ہے۔
وائرس کا جنوم تسلسل چینی ڈاکٹروں نے حاصل کرکے اس کو میڈیکل دنیا کی آگاہی کے لیے ویب سائٹ پر جنوری میں ہی اپ لوڈ کیا تھا۔ مگر یہ چونکہ سنگل اسٹرینڈ کا وائرس ہے، مختلف علاقوں میں یہ افزائش کے دوران اپنے آپ کو تبدیل کردیتا ہے۔ ڈاکٹرصاحب کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ وائرس کے خلاف جنگ طوالت کھینچ سکتی ہے۔
چند سال قبل جب ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے ملک میں اسپتالوں کا جال بچھانے کا کام شروع کیا اور غیر ملکوں میں بھی اسپتالوں کو امداد دینے کا سلسلہ شروع کیا، تو ملک میں اپوزیشن نے ان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس وقت ترکی میں 50ہزار نفوس پر ایک اسپتال ہے اور پوری آبادی ہیلتھ انشورنس کے دائرہ میں آتی ہے۔
جنوبی ایشیائی ممالک کے سربراہان کے لیے بھی لازم ہے کہ ترکی کی اس سعی سے سبق حاصل کرکے صحت عامہ کو ترجیحات میں شامل کرکے اس کو بھی قومی سلامتی کا ایک حصہ بنالیں۔
Categories: فکر و نظر