جمعیۃ علماء ہند کے چیف مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ اگر نظام الدین مرکز نے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کی ہے تو اس کی غیر جانبدارانہ جانچ کی جانی چاہیے۔اس کے ساتھ ہی یہ بھی دیکھنا چاہیے کہاں کہاں ایسی مذہبی اورسماجی سرگرمیاں ہوئیں، جس میں لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی ہوئی ۔
نئی دہلی: جمعیۃ علماء ہند نےکہا ہے کہ تبلیغی جماعت معاملے کو لےکر کو رونا وائرس کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش نہیں ہونی چاہیے کیونکہ ایسا کرنے سے اس وبا کے خلاف لڑائی کمزور ہوگی۔ جمعیۃ علماء ہندکے چیف مولانا ارشد مدنی نے یہ بھی کہا کہ تبلیغی جماعت کے مرکز سے جڑےمعاملوں کی جانچ ہونی چاہیے اور ملک میں کہیں بھی کسی نے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کی ہے تو اس پر کارروائی ہونی چاہیے۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا، ‘اگر مرکز نے لاک ڈاؤن کے اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے تو اس کی غیر جانبدارانہ جانچ کی جانی چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی دیکھنا چاہیے لاک ڈاؤن کے دوران کہاں کہاں ایسی مذہبی ،سماجی اورنجی سرگرمیاں ہوئیں، جس میں لاک ڈاؤن کے اصولوں کی خلاف ورز ی ہوئی۔’
مدنی نے کہا کہ مرکز کو لےکر کو رونا وائرس جیسی وباکومذہبی رنگ دینا شرمناک ہے۔انہوں نے کہا، ‘جو بھی ایسی سوچ رکھتے ہیں وہ اپنےمذہبی ایجنڈے کی آڑ میں کو رونا وائرس کے خلاف عالمی لڑائی کو کمزور کر رہے ہیں۔’انہوں نے یہ بھی کہا کہ مرکز کے مسئلے پرانتظامیہ کی لاپرواہی بھی ہوئی جس کی جانچ ضروری ہے۔
مرکز کے لوگوں کے ساتھ ہمدردی کی ضرورت ہے : مولانا محمود مدنی
دریں اثنا جمعیۃ علماء ہند کے جنر ل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے مرکز نظام الدین کے تعلق سے منفی پروپیگنڈہ کا الزام لگاتے ہوئے کورونا وائرس جیسی ہلاکت خیز بیماری سے جڑے معاملے کو مذہبی رنگ دینے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔انھوں نے کہا کہ ، ہمیں زیادہ حساس اور ذمہ دار انسان کے طور پر خود کو پیش کرنا چاہیے اور متاثر شخص چاہے کسی بھی ذات اور قبیلہ سے تعلق رکھتاہو، اس کے ساتھ بلا تفریق کھڑا ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ، افسوس کی بات ہے کہ جب ایسے حالات کے شکار افراد مرکز نظام الدین سے وابستہ پائے گئے تو اسے چند میڈیا ہاؤس اور کچھ غیر ذمہ دارعناصر نے مذہبی شدت پسندی سے جوڑنے اور ایک مخصوص قوم کو مورد الزام اور مجرم ٹھہرانے کی کوشش شروع کردی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ،حالاں کہ وہاں سے جو کچھ باتیں آرہی ہیں، اس کی ذمہ داری کسی ایک پر عائد نہیں جاسکتی، بلکہ پولس انتظامیہ بھی یکساں طور سے جوابدہ ہے۔ اس سے زیادہ واضح بات یہ ہے کہ ملک میں لاک ڈاؤن اچانک کیا گیا، جس کی وجہ سے ایسے حالات ہوئے کہ جو جہاں تھا، اسے وہیں ٹھہر نا پڑا، نکلنے کی راہیں بند ہوگئیں، ایسے میں وہاں سے لوگوں کو نکالنے کی ذمہ داری دہلی سرکار اور پولس انتظامیہ پر تھی، کیوں کہ اس کے بغیر لوگوں کا نکلنا ممکن نہیں تھا۔
لیکن پولس انتظامیہ نے غفلت شعاری کا ثبوت دیتے ہوئے وہی کام جو اسے ایک ہفتہ پہلے کرنا چاہیے تھا، اس میں تاخیر کی جس کے نتائج یہاں تک پہنچے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ اگرایسے وقت میں فرقہ پرستی یا سیاسی و مذہبی منافرت کو ہوادی گئی تواس سے بڑاگناہ نہیں ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ نظام الدین کے واقعہ کے بعد ملک بھر میں اس سے وابستہ لوگوں کے ساتھ ہمدردی کی ضرورت ہے نہ کہ ان کو مجرم بنا کر پیش کرنے کی، کیوں کہ اس سے اس مصیبت کے خلاف ہماری قومی جد وجہد متاثرہوگی۔
بتا دیں کہ دہلی کے نظام الدین ویسٹ میں واقع ایک مرکز میں 13 مارچ سے 15 مارچ تک اجتماع ہوا تھا، جس میں سعودی عرب، انڈونیشیا، دبئی، ازبیکستان اور ملیشیا سمیت دوسرے ممالک کے مبلغین نے حصہ لیا تھا۔ملک بھر کے مختلف حصوں سے سینکڑوں کی تعداد میں ہندوستانیوں نے بھی اس میں حصہ لیا تھا۔
اجتماع میں حصہ لینے والے کچھ لوگوں میں کو رونا وائرس انفیکشن پھیل گیا ہے۔ مرکز میں اجتماع میں شامل ہوئے تلنگانہ کے چھ لوگوں کی کو رونا وائرس انفیکشن کی وجہ سے موت ہو گئی ہے۔معاملہ سامنے آنے کے بعد پورے علاقے کوسیل کر دیا گیا ہے، جس میں تبلیغی جماعت کاہیڈ کوارٹر اوررہائش شامل ہیں۔ علاقے کے ان ہوٹلوں کو بھی سیل کر دیا گیا ہے جن میں جماعت کے لوگ ٹھہرےتھے۔
مرکز سے لوگوں کو اسپتالوں اور کورنٹائن مراکز میں بھیج دیا گیا ہے۔ملک کی دوسری ریاستوں میں بھی مرکز کے اجتماع میں شامل لوگوں کی پہچان کی جا رہی ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں