کولکاتہ کے ایک کینسر کے ماہر نے گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر کچھ تصویریں پوسٹ کی تھیں، جن میں ڈاکٹر اور نرس بنا حفاظتی آلات کے کورونا وائرس کےمریضوں کا علاج کرتے نظر آ رہے تھے۔ اس کے بعد پولیس نے ان کو حراست میں لے لیاتھا۔
نئی دہلی: کلکتہ ہائی کورٹ نے میڈیکل پیشہ وروں کے لئے حفاظتی آلات کی کمی کی شکایت کرنے والے ڈاکٹر کو پولیس کے ذریعے حراست میں لئے جانے اور لمبے وقت تک اس سے پوچھ تاچھ کرنے کی مذمت کی ہے۔عدالت نے اس بارے میں مغربی بنگال پولیس کے ذریعے ضبط کئے گئے ڈاکٹر کےموبائل فون اور سم کارڈ لوٹانے کی بھی ہدایت دیے ہیں۔
دراصل کینسر کے ماہر ڈاکٹر اندرنیل خان نے 28 مارچ کو سوشل میڈیا پرکچھ تصویریں پوسٹ کی تھیں، جس کو نارتھ بنگال میڈکل کالج اور کلکتہ میڈیکل کالج آف نرسز کے ان کے سابق مددگاروں نے شیئر کیا تھا۔ ان تصویروں میں نرسوں اورڈاکٹروں کو بنا حفاظتی آلات کے کورونا وائرس سے متاثر مریضوں کا علاج کرتےدیکھا جا سکتا ہے۔
ان میں سے کچھ تصویروں میں دیکھا جا سکتا ہے کہ میڈیکل پیشہ ور بچاؤ کے لئےرین کوٹ یا پالی تھین کی شیٹ اوڑھے ہوئے ہیں۔ڈاکٹر اندرنیل خان نے دی وائر کو بتایا،میری یہ پوسٹ وائرل ہو گئی اور29 مارچ کو بنگال کی وزارت صحت نے میرے ٹوئٹ کو دھیان میں رکھکر اس معاملے پر غورکرنے کو کہا۔
انہوں نے کہا،میں جب 29 مارچ کو رات تقریباً 9:30 بجے ہاسپٹل سے نکلا۔میں نے دیکھا کہ باہر چار سے پانچ پولیس اہلکار کھڑے ہیں، جیسے ہی میں اپنی کار کےپاس پہنچا، انہوں نے مجھے اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے حراست میں لیا جا رہا ہے کیونکہ میں نے کچھ ایسی پوسٹ کی ہے، جو حکومت کو پسند نہیں آئی۔مجھے زنزیرا بازار پولیس سینٹر لے جایا گیا۔
یہ تفتیشی مرکز جنوبی 24 پرگنہ ضلع میں مہیستھل پولیس تھانہ کے تحت آتا ہے۔دی وائر نے پولیس اسٹیشن کے ڈیوٹی آفیسر اور اسسٹنٹ سب انسپکٹرچنچل لودھ سےبات کی، جنہوں نے تصدیق کی کہ ڈاکٹر خان کو حراست میں لیا گیا اور سوشل میڈیا پران کی پوسٹ کو لےکر ان سے پوچھ تاچھ کی گئی۔
حالانکہ انہوں نے یہ بتانے سے انکار کر دیا کہ ڈاکٹر خان کی سوشل میڈیاپوسٹ کو لےکر کس نے شکایت کی تھی؟ڈاکٹر خان نے کہا، ‘ مجھ سے 30 مارچ کو دوپہر دو بجے تک تقریباً 16 گھنٹوں تک پوچھ تاچھ کی گئی۔ پولیس مجھے دھمکاتی رہی کہ اگر میں نے یہ قبول نہیں کیا کہ میری پوسٹ فیک تھی تو وہ مجھے گرفتار کر لیںگے۔
انہوں نے آگے کہا،میں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ میری پوسٹ فیک نہیں تھی اور پی پی ای کی کمی ہے۔ حالانکہ میں نے یہ ضرور کہا کہ اگر میری پوسٹ سے کسی کے جذبات مجروح ہوئے ہیں تو میں معافی مانگ سکتاہوں۔ڈاکٹر خان کا کہنا ہے کہ معافی نامہ ٹوئٹ کرنے کے بعد پولیس نے پی پی ای کی عدم دستیابی کو لےکر ان کے کئی پوسٹ ڈلیٹ کروا دیے۔ اس کے بعد پولیس نے ان کا فون،سم کارڈ اور پاس ورڈ مانگا۔
انہوں نے کہا،میں نے منع کر دیا کیونکہ لاک ڈاؤن کے بیچ میں فون ہی ہے،جس کی وجہ سے میں اپنے ماں باپ کے رابطہ میں رہ سکتا ہوں۔ میں پولیس کو اپنا فون کیو ں دوں؟ڈاکٹر خان نے کہا،حالانکہ بعد میں میرا فون اور سم کارڈ لے لیا گیا۔پوچھ تاچھ کے دوران میرے ساتھ ہوئی بات چیت کو پولیس فون کے ذریعے کسی کو بتا رہی تھی۔
بتا دیں کہ ڈاکٹر اندرنیل خان نے گزشتہ ایک مارچ کو عدالت کا رخ کرتے ہوئےپولیس پر استحصال کا الزام لگایا تھا۔ہسپتالوں میں میڈیکل پیشہ وروں کے لئے حفاظتی آلات کو لےکر ان کی پوسٹ کولےکر ان کے خلاف جنوبی 24 پرگنہ ضلع کے ماہیستالا پولیس تھانہ میں ایف آئی آر درج کرائی گئی۔
ڈاکٹر خان نے اپنا موبائل فون واپس لینے کے لئے ایک اپریل کو کلکتہ ہائی کورٹ کا رخ کیا تھا۔جسٹس آئی پی مکھرجی کی بنچ نے بدھ کو کہا، ‘ اگر کسی خیال کے اظہار سےحکومت کی توہین ہوتی ہے تو وہاظہار کرنے والے شخص کو ڈراکر الزام سےبچاؤ نہیں کر سکتی۔جج مکھرجی نے کہا کہ ریاست ایسا تب کر سکتی ہے کہ جب کوئی شہری کسی دوسرےشخص یا ملک کے مفاد کو نقصان پہنچانے کی منشاء سے بدنیتی سے مبینہ حقائق کی تشہیر کرنے کی کوشش کرکے اس آزادی کا استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
انہوں نے حکم دیا کہ اگر پہلی نظر میں تمام ثبوت جرم کا انکشاف کریں توپولیس درخواست گزار کو گرفتار کئے بغیر اس کے خلاف مجرمانہ معاملہ درج کر سکتی ہے۔عرضی پر سماعت کرتے ہوئے عدالت نے ڈاکٹروں کو کچھ وقت کے لئے اس مدعے پرسوشل میڈیا پر کوئی پوسٹ نہیں کرنے کے لئے کہا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں