مسلم جماعتوں اور تنظیموں کو چاہیے کہ وہ بڑے پیمانے پر عوامی آگاہی کے لئے مہم چلائیں اور جو بھی لائحہ عمل طئے کیا جائے اس پر عمل کرنے کے لئے عوام کو آمادہ کیا جائے۔آپسی اختلافات کو کچھ وقت کے لئے بالائے طاق رکھتے ہوئےملت کے وسیع تر مفاد کی خاطر اتحاد کا مظاہرہ کریں۔عوام کو تذبذب میں ڈالنے کے بجائے ان میں صرف ایک ہی بات جائے، ایسی بات جو سائنسی و طبی حوالے سے مستند اور قابل عمل ہو۔
ہندوستان میں اس وقت مسلمان ہونا گویا ایک جرم ہے۔ کوروناوائرس اور لاک ڈاؤن کے بعد جب پورا ملک اپنے گھروں تک محدود رہ گیا تو ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ مسلمانوں کا سکون لوٹ آیا ہے۔لیکن اسلام دشمنی (اسلاموفوبیا)کی آگ ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتی۔پچھلے کچھ دنوں سے میڈیا کے ذریعے سے تبلیغی جماعت کی آڑ میں عام مسلمانوں کی شبیہ کو مزید مجروح کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ملک میں نفرت کے سوداگر سڑک پر نہیں تو گھر میں بیٹھ کر اس آگ کو مزید بھڑکانے کا کام کررہے ہیں جس کا سیدھا اثر ملک کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کے سماجی بائیکاٹ کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔فاشسٹ حکومت اور گودی میڈیا کے اس بھنور میں پھنسا مسلمان جب نکلنے کی سبیل تلاش کرتا ہے اور اپنی مذہبی ،سماجی اور سیاسی قیادت کی طرف دیکھتا ہے تب ہمیشہ کی طرح مایوسی ہی اس کے ہاتھ لگتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔
ایک مہینہ قبل جب ملک میں کوروناوائرس کی وباپھیلنے لگی تھی، تب ہونا یہ چاہئے تھا کہ ملت کی قیادت اور علماء غور کرتے اور صحیح رہنمائی کرتے ۔حالات اور موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے نہ صرف عوام کو بروقت آگاہ کرتے بلکہ ہندوستانی سماج کے لئے بھی مثال (رول ماڈل) بنتے۔
یہاں مسئلہ محض کوروناوائرس کا نہیں بلکہ اُس فکر کا ہے جو مسلمانوں میں پروان چڑھائی گئی ۔ علماء کی جانب سے جاری برسوں کی تربیت، تقریر اور تحریر کے ذریعے ایسے عقائداور مزاج اِن کے اندر پرورش پائے، جس سے نہ صرف دین کی روح مجروح ہوئی بلکہ ان کے اندر اِنسانی اقدار کو لے کر حساسیت جاتی رہی۔ جب بھی دنیا میں کوئی ناگہانی صورت حال مثلاََ وبا، زلزلہ یاکوئی اور آفات سماوی پیش آتی ہے تب عام مسلمان کے اندر اس مخصوص سوچ اور مزاج کی عکاسی ہونے لگتی ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کی سوچ اور ان کے اعمال اس مخصوص مزاج کے اطراف ہی گھومتے ہیں۔
عذابِ الٰہی کہنا:یقیناََ اس کائنات میں رونما ہونے والا ہر واقعہ اللہ ہی کے اِذن سے ہوتا ہےلیکن جب بھی دنیا میں کوئی ناگہانی صورت حال پیش آتی ہے تب عام مسلمان کے اندر یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ یہ عذاب الٰہی ہے۔ کوروناوائرس کی وبا کے سلسلے میں بھی یہی کچھ ہوا۔ اسے چین میں مسلمانوں پر ہورہے ظلم کے جواب میں اللہ کی سزا قرار دیا گیا۔کچھ علماء کی جانب سے کورونا وائرس کے خواب بھی بڑے مزے سے سنائے گئے اور سوشیل میڈیا پر خوب پھیلایا گیا۔
اس مزاج کی وجہ سے ایک شخص پھر انسان کو انسان کی حیثیت سے نہیں دیکھتا بلکہ ایک قاضی کی طرح اُس پر فیصلہ صادر کرنے لگتا ہے اُس کی کمزوریوں اور سرکشیوں کو تلاش کرنے میں لگ جاتا ہے۔مزید برآں یہ کہ اُس انسانی جان کے خاتمے پر اسے مزہ بھی آنے لگتا ہے۔اس میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ پھر مسلمان او رنفرت کے اُن سوداگروں میں کیا فرق رہ جاتا ہے جو عام مسلمانوں کے مرنے کو “جہادیوں” کا مرنا قرار دیتے ہیں۔
طنز کسنا:اس مزاج کا ایک او رمظہر یہ ہے کہ ایسے حالات میں متاثرین کا مذاق بنایا جاتا ہے ان کی خامیوں پر نکتہ چینی ہونے لگتی ہےاور جس مصیبت سے وہ دوچار ہیں اس کو کسی نہ کسی اسلام دشمن پالیسی سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔مثلاََ مغرب میں جب یہ وبا پھیلی اور لوگ چہروں پر ماسکٍ لگا نے لگے تو اُن کی اِس مجبوری کو یورپ کی برقع پر پابندی والی پالیسی کے حوالے سے طنز کا نشانہ بنایا گیا۔
توکّل کی من مانی تعبیر: اس کے بعد جیسے ہی یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ مسئلہ اب اپنے دروازوں تک آ پہنچا ہے تو ،توکّل کی ایک عجیب و غریب تصویر سامنے آنے لگتی ہےجس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خطرے کا علم ہونے کے باوجودلوگ اپنے آپ کو زبردستی خطرے میں مبتلا کرتے ہیں اور آزمائشوں کو دعوت دیتے ہیں۔چنانچہ ایسی باتیں کہی جانے لگیں کہ باوضو اور نمازی شخص کو کسی قسم کے ڈرکی ضرورت نہیں ہےکیوں کہ یہ عذاب آپ کو نہیں چھوئے گا۔
توکل کی ایسی تعبیر کو بیوقوفی ہی کہا جاسکتا ہے نہ کہ سنت۔سنت تو احتیاط سکھاتی ہے، چنانچہ اللہ کے رسول نے جنگ احد کے دوران دو زِرہ پہنیں اور جنگ احزاب کے موقع پر حضرت سلمان فارسی کے مشورے پر خندق کھودنے کی تدبیر اختیار فرمائی۔
عزیمت کی راہ: اسلام کو دین فطرت کہا گیا ہے کیوں کہ اُ س کے اصول و احکامات اور آئین، انسان کی فطرت کے تقاضوں پر مبنی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہ ایک منجمد طریقہ ہائے زندگی کے بجائے حالات کے لحاظ سے رعایتیں اور سہولتیں فراہم کرتا ہے۔لیکن کوروناوائرس کی وبا کے دوران مسلمانوں کے اندر یہ مزاج پایا گیا کہ “کسی بھی صورت میں عبادت کی شکل میں کوئی مصالحت نہیں کی جائے گی”۔مثلاََ نماز با جماعت مسجد میں ہی ادا ہوگی کیوں کہ “یہ سب سے زیاہ افضل ہے”۔نہ صرف دین کے شعار بلکہ جماعتی نظم و ضبط اور نقل و حرکت میں کسی بھی قسم کا ردوبدل نہیں کیا جائے گا کیوں کہ اس کو “عزیمت کی راہ سے ہٹ جانا “سمجھا گیا۔
تاہم ،اسلام کے نزدیک انسانی جان کا تحفظ اور اس کا تقدس زیادہ افضل ہے ۔چنانچہ اللہ کے رسول نے مومن کی جان کی حرمت کو کعبۃ اللہ کی حرمت سے زیادہ قرار دیا۔مزید برآں یہ کہ ناگہانی صورت میں سہولت اور رعایت اختیار کرنا ہی عین سنت نبوی اور عزیمت کی راہ ہے۔لہٰذا ارشادِ رسول ہے: “بے شک اللہ رخصتوں پر عمل کرنے کو اس طرح پسند کرتا ہے جیسے وہ نافرمانیوں کو ناپسند کرتا ہے”۔
تدابیر کے راستے سے روکنا: کسی بھی قسم کے حالات چاہے وہ سیاسیی یا سماجی نوعیت کے ہوں یا اخلاقی یا مذہبی نوعیت کے، ایک مزاج یہ پایا جاتا ہے کہ لوگوں کے ذہنوں کو تدابیر اختیار کرنے بدظن کریں اور اس کے مقابلے میں صرف روحانیت کی طرف مائل کریں۔ دراصل ہونا یہ چاہیے کہ عبادت اور روحانیت کے ساتھ ساتھ وسائل اور تدابیر کا مناسب استعمال ہو۔
سنت رسول ہر قدم اور تدبیر کے بعد اس کو اللہ کی طرف لوٹانے کی تعلیم دیتی ہے۔بدر کے میدان میں آپ اپنے جاں نثار صحابہ کو جمع کرتے ہیں، ان کی صف بندی کرتے ہیں اور پھر اللہ کے حضور دعا کرتے ہیں کہ: اے اللہ تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے وہ میرے لئے پورا فرما ۔
سائنس کو دین کے مد مقابل کھڑا کرنا: دین کا اصلی مقصد انسان کے اخلاق کو بہتر بنانا اور اس کو اللہ کے مطیع بنانا ہے نہ کہ سائنسی اور طبی موضوعات کو مخاطب کرنا۔لہٰذا سائنسی، طبی اور تکنیکی معاملات میں اِن شعبہ جات کےماہرین سے رہنمائی حاصل کرنی چاہئے، اور جو اصول و ضوابط دین فراہم کرتا ہے، اُن کی روشنی میں فیصلہ لیا جانا چاہئے۔لیکن جو مزاج عام طور پر مسلمانوں میں پایا جاتا ہے اُس کے چلتے مسلمان سائنس اوردین کو جوڑ دیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سائنس کو دین کے مدمقابل کھڑا کردیتے ہیں۔
اور جن معاملات میں سائنس کے ماہرین کی رہنمائی لی جانی چاہئےوہاں پر اپنی جہالت کی بنا پر احمقانہ فیصلے کرتے ہیں اور اپنے آپ کو آزمائش میں مبتلا کردیتے ہیں ۔ یہی کچھ اب بھی ہوا جب ڈاکٹرس نےآئسولیشن اور سماجی دوری کی بات کی ۔جس پر مسلمانوں نے ابتداء میں ڈاکٹرس پر دین پر حملہ آور ہونے کا الزام بھی لگایا۔
شہادت کی موت: جب بے احتیاطی کے سبب مسلمان جانوں کی اموات کا سلسلہ شروع ہوا تب ایک اور غلط تاویل پیش کی گئی کہ وبامیں مرنے والا مسلمان شہید ہے۔ لیکن یہ استدلال جس حدیث پر مبنی ہے اس میں بھی یہ واضح ہے کہ شہید وہی ہے جس نے احتیاط کی اور صبر سے اپنے گھر بند رہا۔جو لوگ جان بوجھ کر مجموعے کا حصہ بنے رہے اور پھر وہاں سے انفیکشن لے کر اپنے گھروں اور علاقوں کو پہونچے اور پھر دوسروں کی موت کا سبب بنے وہ قاتل کے درجے میں آتے ہیں۔مزید برآں یہ کہ یہ عمل واضح خودکشی ہے نہ کہ عزیمت۔
کرنے کے کام
دور حاضر کا ایک بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ اس وقت عالم اسلام میں اجتہادی بصیرت رکھنے والے علمائے دین کی بڑی کمی ہےاور برصغیرہند میں تو یہ نہ کے برابر ہیں۔عصر حاضر کے مسائل میں ان کی علمی سطح اور فہم کمزور واقع ہوئی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کے فتویٰ جات یا بیانات اکثر یا توبروقت نہیں ہوتے یا کارآمد ثابت نہیں ہوتے۔ ان کا مزاج وہی ہے جس نے ایک زمانے میں “کافی”، “پرنٹنگ پریس”،”انگریزی سیکھنا”، “سٹیم انجن” ، “لاؤڈ سپیکر”اور”ٹی وی” وغیرہ کو حرام قرار دیا تھا۔بدلتے زمانے کے مسائل کو مخاطب کرنے کے بجائےان کی بحثیں اور توانائیاں آج بھی فقہی اور مسلکی اختلافات جیسے رفع الیدین اور تراویح کی رکعتوں سے آگے نہیں بڑھ پائی ہیں۔شاید علامہ اقبال نے اسی لئے کہا تھا کہ :”دین مُلّا فی سبیل اللہ فساد”۔
کوروناوائرس کے حوالے سے ان کی غیر ذمہ دارانہ اور مجرمانہ حرکا ت کا خمیازہ اب ہم بھگت رہے ہیں۔ایسے میں آئیے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ عام مسلمانوں اور علمائے دین کا لائحہ عمل کیا ہو۔
صبر: ایسے حالات میں مسلمانوں کو چاہئے کہ صبر اور حوصلہ کا مظاہرہ کریں۔جذبات ، اشتعال ور جھوٹی افواہوں کا شکار ہونے کے بجائے، عقل مندی اور فراست کا ثبوت پیش کریں۔ سوشیل میڈیا اور خبروں کے ذریعہ انہیں مشتعل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی، ایسے میں تحمل کا مظاہرہ کریں۔صبر کے معنی بزدلی یا حالات سے سمجھوتہ کرنے کے نہیں بلکہ مناسب تدابیر اختیار کرتے ہوئے دشمن کی ساری کوششوں کو ناکام بنانے کے ہیں۔
اجتہاد: مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ دین اسلام ہر زمانے میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔اب چونکہ وحی کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے تو ایسے حالات میں نئی تبدیلیوں اور تغیرات کو سمجھنے اور ان سے پید اہونے والے مسائل کو حل کرنے میں اجتہاد کرنا ، ناگزیر ہے۔جو کوتاہی علمائے برصغیر سے سرزد ہوئی وہ یہ ہے کہ کورونا وائرس کی وباکے ظہور کے تین مہینے بعد بھی وہ درج ذیل معاملات میں اجتہاد کرنے اور اسے عوام تک پہنچانے میں ناکامیاب رہے۔
نماز باجماعت کے معاملے میں ابتداء میں کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا۔اور پھر حکومت کے دباؤ کے بعد مختلف علماء کی جانب سے جو موقف سامنے آیا ،اس میں یکسانیت اور ہم اہنگی نہیں تھی۔جس کا نتیجہ یہ رہا کہ لاک ڈاؤن کے بعد بھی کئی مساجد میں مسلمان نماز باجماعت کا اہتمام ہوتا رہا اور یہ سلسلہ ابھی بھی کچھ مقامات پر جاری ہے۔کچھ ایک مقامات پر پولیس نے مصلیوں کو لاٹھیوں کے ذریعے دفع کرنے کی کوشش کی جو رسوائی کا سبب بھی بنا۔
ہسپتال میں کوارنٹائن (قرنطنیہ) کے دوران نماز کی ادائیگی اور اجتماعی رویہ کے متعلق واضح ہدایات اب بھی نہیں ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان کوارنٹائن کے نظم کو توڑتے ہوئے کاندھے سے کاندھا لگاکر نماز باجماعت ادا کرتے پائے جارہے ہیں۔
اس دوران انتقال کرجانے والے (کوروناوائرس یا کسی اور وجہ سے) مسلمانوں کے جنازے اور تدفین کی شکل کے بارے میں اب تک بھی واضح ہدایات موجود نہیں ہیں۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کچھ مقامات پر تدفین میں سیکڑوں کی تعداد شرکت کررہی ہے اور مزید انفیکشن پھیلانے کا باعث بن رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:کورونا وائرس: مُلا کی نظر نورِ فراست سے ہے خالی
رمضان کی آمد میں محض پندرہ دن باقی ہیں، لیکن اب تک بھی اس سلسلے میں کوئی خاص رہنمائی حاصل نہیں ہے۔بالخصوص تراویح، تلاش لیلۃ القدر، اعتکاف، افطار کی خریداری، فجر اور مغرب کی نمازوں کا خصوصی اہتمام؛ لاک ڈاؤن اور سوشیل ڈسٹنسنگ کے لئے ایک چیلنج ثابت ہوسکتا ہے۔
مساجد میں لاؤڈ سپیکرس کے ذریعے اذانوں کا سلسلہ جاری رہا اور اب بھی ہے، جس سے مسلمانوں میں یہ تاثر گیا کہ نماز باجماعت قائم ہے اور برادران وطن میں یہ تاثر کہ مساجد میں نمازیں حسب معمول جاری ہیں۔
مساجد میں جماعتوں کی آمد و رفت اور محلوں میں ان کے گشت جاری رہے۔اور پھر ان کی بے احتیاطی کے سبب جو مہلک نتائج سامنے آئے ، جس میں نہ صرف شرکائے جماعت بلکہ ان کے اہل خاندان بھی متاثر ہوئے۔
معاشرے میں شادیاں اور دیگر تقاریب حسب معمول چلتی رہیں۔لہٰذا مصافحہ اور گلے ملنے کا سلسلہ جاری رہا۔ اور جن تقاریب میں بیرون ملک سے آئے ہوئے شرکاء موجود تھے، ان تقاریب میں شریک تمام ہی افراد پر خطرے کا سایہ منڈلانے لگا۔
الغرض ، علمائے ہند کم از کم اب تو ہوش کے ناخن لیں اور ہنگامی طور پر تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء باہمی مشورے اور ماہرین سے گفتگو کے بعد کسی متفقہ فیصلے پر جمع ہوں اور ملت کے لئے درج بالا مسائل پرواضح رہنمائی فراہم کریں۔اور اپنے نیٹ ورک کے ذریعے اس بات کو گھر گھر پہونچانے کا اہتمام کریں۔اس سلسلے میں عالم اسلام کے علمائے اکرام کے فتاویٰ جات سے مدد لے سکتے ہیں۔ اِس ضمن میں “یوروپین کونسل فر فتویٰ اینڈ ریسرچ” کا فتویٰ بہت ہی مؤثر اور کارآمد ہے۔
عوامی آگاہی: مسلم جماعتوں اور تنظیموں کو چاہئے کہ وہ بڑے پیمانے پر عوامی آگاہی کے لئے مہمات چلائیں اور ملت کو حساس بنانے کی کوشش کریں اور جو بھی لائحہ عمل طئے کیا جائے اس پر عمل کرنے کے لئے عوام کو ابھاریں۔اپنے آپسی اختلافات اور فقہی بحثوں کو کچھ وقت کے لئے بالائے طاق رکھتے ہوئےملت کے وسیع تر مفاد کی خاطر اتحاد کا مظاہرہ کریں۔عوام کو تذبذب میں ڈالنے کے بجائے ان میں صرف ایک ہی بات جائے، ایسی بات جو سائنسی و طبی حوالے سے مستند اور قابل عمل ہو۔
:لاک ڈاؤن کے متعلق سنجیدگی
ڈبلیو ایچ او اور حکومت نے شہریوں کو کچھ گائیڈلائنس (ہدایات) فراہم کی ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ سوشیل ڈسٹنسنگ اور آئسولیشن کا سختی سے اہتمام کریں اپنے گھروں کے باہر نہ نکلیں۔
ہر قسم کے میل جول اور مجموعے سے اجتناب برتیں۔کیوں کہ یہی ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے سے اس وباء پر قدغن لگائی جاسکتی ہے۔ چنانچہ اس وباء سے لڑنے کا ایک ہی طریقہ ہے؛ لاک ڈاؤن۔
اس کو مسلمان نہایت سنجیدگی سے لیں، بلا وجہ گھر سے باہر نہ نکلیں اور ہر قسم کی ملاقاتوں سے اجتناب برتیں( مثلاََ تقاریب، جنازہ و تدفین اور مریضوں کی عیادت وغیرہ)۔
حکومت سے تعاون: مسلمانوں کو چاہئے کہ ان کے گھر یا خاندان میں حال ہی میں کوئی بیرون ملک یا مرکز نظام الدین یا پھر کسی اور بڑے اجتماع سے ہو آئے ہیں، اس کی اطلاع حکومت کو دیں۔ اور جو اتھارٹیز گھر پر اس کے متعلق جانچ کے لئے آئیں اُن کا بھر پور تعاون کریں اور اُن کی ہدایات پر سختی کے ساتھ عمل کریں۔ایسے حالات میں حکومت اور اس کے معاون اداروں کے ساتھ تعاون کرنا ہمارا فرض ہے۔
گھر پر یا محلے یا ہسپتال میں آئے اتھارٹیز کو مارنا اول تو گناہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس قسم کے اقدامات کی وجہ سے پورا محلہ علاج سے اور حکومت کی احتیاطی تدابیر سے محروم رہ جائے گا۔مزید یہ کہ اپنے محلے میں لوگوں کے جمع ہونے کی اطلاع ہو یا پھر کسی کے کوارنٹائن کو توڑنے کی اطلاع ہو تو فوراََ اتھارٹیز کو مطلع کریں اور ایک سانحہ ہونے سے بچانے کی کوشش کریں۔
وہاٹس ایپ اور افواہوں سے بچیں: جس طرح کی تباہی کوروناوائرس نے مچائی ہے وہ یقیناََ بڑی خطرناک ہے۔ لیکن ایسے حالات میں سوشیل میڈیا بالخصوص وہاٹس ایپ پر افواہیں، غلط خبریں اور اشتعال انگیز مواد بڑی تیزی کے ساتھ پھیلایا جارہا ہے۔ فیک نیوز کے اس دور میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کسی بھی چیز کو فارورڈ کرنے سے پہلے اس کی تحقیق کرلیں۔ ایسی تصاویر اور ویڈیوز جن کا کوئی مستند سورس نہ ہواُن کو آگے نہ بڑھائیں۔اس سلسلے میں اللہ کے رسول کی ایک ہدایت موزوں ہے:”آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کردے “۔ مزید برآں یہ کہ ہمارے ملک کے قانون کے مطابق فیک نیوز پھیلانا ایک جرم ہے۔
رمضان کے لئے خصوصی منصوبہ بندی: مسلمان اس بات کو سمجھ لیں کہ یہ لاک ڈاؤن اگلے کچھ ہفتوں تک جاری رہے گا، جس کا مطلب یہ ہے کہ رمضان کے دوران بھی سوشیل ڈسٹنسنگ اور آئیسولیشن کا سختی کے ساتھ اہتمام کرنا ہوگا۔ لہٰذا تراویح کا نظم اپنے اپنے گھروں پر کریں اور تلاش لیلۃ القدر کا نظم بھی اپنے گھروں پر ہی ہو۔افطار کی خریداری میں میانہ روی اختیار کی جائے اور وقت سے پہلے خریداری کرلیں تاکہ بازاروں میں ایک ساتھ ایک وقت میں بھیڑ کے جمع ہونے سے بچا جاسکے۔
ریلیف کا کام: ملک و ملت کے غریب اور پسماندہ عوام کے لئے یہ وقت کسی عذاب سے کم نہیں ہے۔ جہاں ایک طرف بھوک اور غربت جینا دوبھر کررہی ہے تو دوسری طرف جن علاقوں میں و ہ رہتے ہیں ، وہاں پر صحت اور نظافت کا معیار بہت ہی کم درجے پر ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ مدد کے ہاتھ آگے بڑھائیں اور فراخ دلی کا ثبوت دیں۔صدقات، چندے، زکوٰۃ اور عطیات سے تعاون کے لئے رمضان کا انتظار نہ کریں بلکہ فوری پر اقدام کریں۔ساتھ ہی ساتھ ملت کے تنظیموں اور قیادت کو چاہئے کہ وہ ایک طویل المیعاد منصوبہ بنائیں جس میں لاک ڈاؤن کے بعد آنے والے معاشی بحران میں غریب عوام کے لئے تدابیر کی جائیں۔
Categories: فکر و نظر