پیشہ سے مستری انصاف علی 1500 کیلومیٹر پیدل چل کر 27 اپریل کو اتر پردیش کے شراوستی اپنے گاؤں پہنچے تھے۔ ان کی بیوی کا کہنا ہے کہ اب گاؤں والے ان کا بائیکاٹ کر رہے ہیں، کیونکہ انہیں شک ہے کہ میں کو رونا متاثر ہوں۔
نئی دہلی: ملک بھر میں کو رونا وائرس کی وجہ سے جاری لاک ڈاؤن کے بیچ مہاجر مزدوروں کے پیدل اپنے گھر لوٹنے والے واقعات میں نیا نام اتر پردیش کے شراوستی ضلع کے انصاف علی کا جڑا ہے۔قابل ذکر ہے کہ 1500 کیلومیٹر کا پیدل سفر کرکے انصاف علی اپنے گھر تو پہنچ گئے، لیکن کچھ ہی دیر بعد انہوں نے دم توڑ دیا۔ اس سفر میں انہیں 14 دن کا وقت لگا تھا۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، شراوستی کے مٹکنوا گاؤں کے رہنے والے پیشہ سے مستری 35 سال کے انصاف علی 27 اپریل کو گاؤں پہنچے تھے۔ان کا ابھی پوسٹ مارٹم نہیں ہو پایا ہے، کیونکہ ہاسپٹل کو ان کے کو رونا ٹیسٹ کی رپورٹ کا انتظار ہے۔ جانچ رپورٹ نگیٹو آنے پر ہی ان کا پوسٹ مارٹم کیا جائےگا۔
معلوم ہو کہ گاؤں پہنچنے پر انہیں کورنٹائن کیا گیا تھا، لیکن گھر پہنچنے کے چار گھنٹے بعد ہی انہوں نے دم توڑ دیا۔انصاف علی کی بیوی سلمہ بیگم (32) اور ان کے رشتہ داروں کو ابھی تک اس کا اندازہ نہیں لگ پایا ہے کہ آخر ان کی موت ہوئی کیسے؟ان کی بیوی کا کہنا ہے کہ انہوں نے فون پر بات چیت کے دوران بتایا تھا کہ وہ بسکٹ کھاکر اپنا سفر طے کر رہے ہیں۔
سلمہ کا کہنا ہے کہ شوہر کے واپس لوٹنے کے بعد وہ انہیں دیکھ تک نہیں پائی کیونکہ وہ اپنےوالدین کے گھر پر تھی اور ان کے لوٹنے سے پہلے ہی لاش کو لے جایا گیا تھا۔دونوں کا چھ سال کا بیٹا عرفان ہے۔ ان کی فیملی میں والدین اور بھائی ہیں، جنہیں کورنٹائن کیا گیا ہے۔ علی کے دو بڑے بھائی بھی مہاجرمزدور ہیں اور فی الحال لاک ڈاؤن کی وجہ سے پنجاب میں پھنسے ہوئے ہیں۔
سلمہ نے کہا کہ انصاف علی 13 اپریل کو ممبئی سے چلے تھے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ ان کے پاس پیسے ختم ہو رہے ہیں۔سلمہ نے کہا، ‘وہ کئی ہفتے سے کوئی کام نہیں کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ گاؤں میں کم سے کم وہ اپنے لوگوں کے بیچ ہوں گے اور کام چلا لیں گے۔’
سلمہ کہتی ہے، ‘وہ 10 دوسرے لوگوں کے ساتھ جھانسی آئے تھے۔ وہ یا تو پیدل چل رہے تھے یا کسی ٹرک میں چھپ کر وہاں تک پہنچے، جس کے لیے انہوں نے ٹرک ڈرائیور کو 3000 روپے بھی دیے تھے۔ وہ وہاں سے بہرائچ تک گئے تھے، جہاں اتوار رات کو پولیس نے انہیں پکڑ لیا تھا اور واپس لوٹنے کو کہا تھا۔’
وہ کہتی ہیں، ‘وہ پولیس کو چکمہ دےکر رات میں چھپ گئے۔ اس کے بعد ان کے فون کی بیٹری ڈیڈ ہو گئی اور میرا ان سے رابطہ نہیں ہو پایا۔ میں نے ان سبھی لوگوں کو فون کیا، جو ان کے ساتھ سفر کر رہے تھے، لیکن کسی کو کچھ پتہ نہیں تھا۔ سوموار صبح انہوں نے فون کیا اور مجھے مٹکنوا گاؤں آنے کو کہا۔’
وہ کہتی ہیں کہ جب تک میں گاؤں پہنچی، ان کی موت ہو گئی تھی۔سلمہ نے کہا، ‘وہ ہمیشہ کہتے رہے کہ انہیں گاؤں لوٹنا ہے لیکن جب وہ گاؤں پہنچے تو وہ کچھ گھنٹوں سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکے۔’ان کا کہنا ہے کہ اب گاؤں والے اس کابائیکاٹ کر رہے ہیں، کیونکہ گاؤں والوں کوشک ہے کہ میں کو رونامتاثر ہوں۔
شراوستی کے ایس پی انوپ کمار سنگھ کا کہنا ہے کہ گاؤں کے کورنٹائن سینٹر میں ناشتہ کرنے کے بعد ان کی موت ہو گئی۔انہوں نے کہا، ‘ان کی لاش کو مردہ گھر لے جایا گیا ہے اور ان کے سیمپل کو رونا کی جانچ کے لیے لکھنؤ بھیجے گئے ہیں۔ ان کے اہل خانہ کو کورنٹائن کیا گیا ہے، کیونکہ انہوں نے لاش کو ہاتھ سےچھوا تھا۔ انفیکشن کابہت زیادہ جوکھم ہونے کی وجہ سے صرف انہیں لاشوں کا پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے جو کو رونا نگیٹو ہو۔’
ایس پی نے کہا کہ انہیں ابھی موت کے صحیح وجہوں کا پتہ نہیں چل پایا ہے۔شراوستی کے چیف میڈیکل آفیسر اے پی بھارگو کا کہنا ہے کہ ان کی جانچ رپورٹ جلد آ سکتی ہے۔ ان کی موت کی وجہ کو لےکر ابھی شبہ بنا ہوا ہے۔ایسے ہی ایک دوسرے معاملے میں لاک ڈاؤن کے بیچ پیدل ہی تلنگانہ سے چھتیس گڑھ اپنے گھر کا رخ کرنے والی 12 سال کی لڑکی کی گھر پہنچنے سے پہلے ہی موت ہو گئی تھی۔
بچی تین دن پیدل چلتے ہوئے تلنگانہ سے گاؤں کے مزدوروں کے ساتھ پہنچی تھی۔ یہاں آتے ہی وہ ڈی ہائیڈریشن کا شکار ہو گئی، جس کے بعد اس نے دم توڑ دیا۔
Categories: خبریں