خبریں

دہلی فسادات: ویڈیو فوٹیج نکالنے میں تاخیر پر ناراض عدالت نے دہلی پولیس کی سرزنش کی

ایک مقامی عدالت کو بتایا گیا کہ دہلی تشدد کے معاملے میں پولیس نے اب تک جعفرآباد اور موج پور میٹرو اسٹیشن کے سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج اور فوٹو قبضہ میں نہیں لی ہیں۔ اس پر عدالت نے کہا کہ پولیس کو یہ بتانا کہ کب اور کون سے ثبوت اکٹھے کرنے ہیں، کورٹ کا کام نہیں ہے۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: دہلی کی ایک مقامی عدالت نے فسادات  کی جانچ میں بے وجہ کاہلی اورسستی برتنے پر دہلی پولیس کی سرزنش  کرتے ہوئے شمال مشرقی  دہلی فسادات کی غیر جابندارانہ جانچ یقینی بنانے کو کہا ہے۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، عدالت کے نوٹس میں لایا گیا کہ پولیس نے ابھی تک جعفرآباد اور موج پر میٹرو اسٹیشن پر لگے سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج اور فوٹوگرافروں سے تصویریں قبضے میں نہیں لی ہیں۔

فسادات معاملے میں شواہد کے طور پر ان ویڈیو فوٹیج کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ایڈیشنل سیشن جج دھرمیندر رانا نے ڈی ایس پی سے جانچ کی ذاتی  طور پر نگرانی کرنے اور یہ یقینی بنانے کو کہا کہ دہلی پولیس کی امیج  بے داغ رہے اورغیر جانبدارطور پر انصاف ملے۔اے ایس جے رانا نے یہ آرڈردیتے ہوئے پنجرہ توڑ کی ممبروں دیوانگنا کلتا اور نتاشا نروال اور سابق  کانگریسی میونسپل کونسلر عشرت جہاں کی عدالتی حراست 14 اگست تک بڑھا دی۔

دہلی دنگوں سے جڑے معاملے میں دہلی پولیس کی اسپیشل سیل ان کی جانچ کر رہی ہے۔ ان پر یواے پی اے کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔عدالت نے آرڈر میں کہا، ‘وہ کہتے ہیں کہ ایک تصویر ہزاروں لفظ کے برابر ہوتی ہے اور ایک ویڈیو ہزاروں تصویروں کے برابر ہوتی ہے۔ ایسا لگا کہ پولیس نے وقت سے  ویڈیو فوٹیج اکٹھا کرنے میں بے وجہ ہی سستی  کی ہے۔’

عدالت کی نگرانی میں جانچ کے لیے کلیتا کی عرضی  پر بحث کے دوران جانچ افسر نے عدالت کو بتایا کہ پولیس میٹرو اسٹیشن اور پولیس کی جانب سے  لگائے گئے فوٹوگرافروں سے تصویریں لینے سمیت تمام متعلقہ  ویڈیو فوٹیج اکٹھا کر رہی ہے۔عدالت نے کہا، ‘افسوس ناک  ہے کہ اےسی پی ہردیہ بھوشن اور انسپکٹر انل کمار متعلقہ  ویڈیو فوٹیج کو اپنے قبضے میں لینے میں ناکام  رہے۔

پولیس یہ دکھانے میں ناکام رہی کہ کیا انہوں نے میٹروافسران  کو ویڈیو فوٹیج سنبھال کر رکھنے کے لیے نوٹس دیا تھا یا ان سے اپیل کی تھی۔ ‘عدالت نے کہا،‘یہ عدالت کا کام نہیں ہے کہ وہ پولیس کو بتائیں کہ کیسے اور کیا ثبوت اکٹھا کیے جانے ہیں۔ حالانکہ، یہ عدالت ایک غیر جانبدارانہ جانچ کو یقینی بنانے کی پابند ہے۔’