سی اے اے مظاہرہ سے متعلق معاملے میں گرفتار جے این یواسٹوڈنٹ اور پنجرہ توڑ کارکن دیوانگنا کلیتا نے ایک عرضی میں کہا تھا کہ کرائم برانچ ان پر لگے الزامات کے سلسلے میں چنندہ طریقے سے جانکاریاں عوام کر رہی ہے اور گمراہ کن جانکاری پھیلا رہی ہے، جس کی وجہ سے ان کی اور ان کے اہل خانہ کی جان کو خطرہ ہے۔
نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نےسوموار کو دہلی فسادات معاملے میں‘پنجرہ توڑ’کی کارکن اور جے این یو اسٹوڈنٹ دیوانگنا کلیتا کے خلاف الزام طے ہونے اور مقدمہ شروع ہونے تک الزامات پرجانکاریاں نشر کرنے سے دہلی پولیس کو روک دیا ہے۔کلیتا کے سلسلے میں پولیس کی جانب سے بیان دینے پر روک لگاتے ہوئے جسٹس وبھو باکھرو کی بنچ نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ فسادات کے معاملے حساس ہوتے ہیں۔
کلیتانےعرضی دائر کر کے مانگ کی تھی کہ پولیس کو ہدایت دی جائے کہ جب تک جانچ التوا میں ہے تب تک ان کے خلاف لگائے گئے الزامات/شواہد کو میڈیا میں لیک نہ کیا جائے۔قابل ذکر ہے کہ 31 سالہ کلیتا کو 23 مئی کو گرفتار کیا گیا تھا ۔ ابھی وہ تہاڑ جیل میں عدالتی حراست میں ہیں ۔کلیتا کے خلاف کل چار ایف آئی آر دائر کیے گئے ہیں، جس میں سے ایک پچھلے سال دسمبر میں دریا گنج میں ایک مظاہرہ میں مبینہ طورپر شامل ہونے کو لےکر ہے اور باقی معاملے شمال مشرقی دہلی کے جعفرآباد میں شہریت قانون (سی اے اے)کے خلاف مظاہرہ کے سلسلے میں ہیں۔
عرضی گزار نے الزام لگایا تھا کہ دہلی پولس کی کرائم برانچ ان کے خلاف لگائے گئے الزامات کے سلسلے میں چنندہ طریقے سے جانکاریاں عوامی کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے بارے میں جو جانکاری پھیلائی جا رہی ہے وہ گمراہ کن ہے۔کلیتا نے کہا کہ پولیس میڈیا کے ساتھ کچھ جانکاریاں شیئر کر رہی ہے اور الزامات اورمبینہ شواہد کے سلسلےمیں جانکاریوں کا خوب پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے ایف آئی آر میں شامل ملزمین کا مقدمہ متاثر ہوگا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس طرح کی گمراہ کن جانکاری سے ان کی اور ان کے اہل خانہ کی جان کو خطرہ ہے۔
اس معاملے میں دہلی پولیس نے شنوائی کے دوران ان ٹوئٹس کی مخالفت کی تھی ،جو کلیتا کو حراست میں لینے کے بعد کیے گئے تھے۔پولیس نے کہا کہ ٹوئٹس میں انہیں مبینہ طور پر ‘ہندوتوا مشینری’ کہہ کر مخاطب کیا جانا اور کچھ نہیں بس ہمارےملک کو نقصان پہنچانا ہے۔
اس پر جسٹس باکھرو نے کہا کہ ایسا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ‘یہ کسی ادارہ کے خلاف نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جہادیوں، حقوق نسواں کے علمبردار، بائیں بازوکی سازشیں وغیرہ جیسے نیریٹو ہندوتوا کی مشینری کے ذریعے پھیلائے جا رہے ہیں۔ لیکن انہوں نے یہ نہیں کہا کہ پولیس یہ مشینری ہے۔’
اس کے ساتھ ہی پولیس نے الزام لگایا تھا کہ خود کلیتا اور پنجڑہ توڑ نے عوام کی ہمدردی حاصل کرنے اوراپنی حمایت میں رائے عامہ بنانے کے لیے ‘میڈیا ٹرائل’ شروع کر دیا تھا۔اس پر بھی کلیتا نے اعتراض کیا تھا۔اس کے ساتھ ہی کلیتا نے ‘ان الزامات کو بھی خارج کرنے’ کی اپیل کی تھی، جوپولیس کی جانب سے گزشتہ2 جون کو میڈیا کو ایک پریس نوٹ کی شکل میں دیےگئے تھے۔کلیتا کی جانب سے پیش ہوتے ہوئے وکیل نے کہا، ‘میڈیا میں جس طرح سے جانکاری لیک ہوئی ہے، یہ اس طرح سے تشویش ناک ہے۔ یہ میرے لیے شدیدتعصبات پیدا کر رہا ہے۔’
اس پر دہلی پولیس کا کہنا تھا کہ میڈیا میں پریس نوٹ جاری کرنے کا مطلب کلیتا کو نقصان پہنچانا نہیں بلکہ ان حقائق کو سہی کرنا تھا جس کوگروپ کے ممبروں نے سوشل میڈیا پر ڈالا تھا۔حالانکہ اس بارے میں پولیس کی جانب سے دیے گئے حلف نامے سے عدالت مطمئن نہیں ہوئی تھی۔ حالانکہ سوموار کو عدالت نے کہا کہ دہلی پولیس کے ذریعے میڈیا کو جاری پریس نوٹ کو خارج کرنے کی دیوانگنا کی عرضی کوقبول نہیں کیا جا سکتا۔
معلوم ہو کہ کلیتا کے علاوہ پنجرہ توڑ کی ایک اورممبر نتاشا نروال کو بھی پولیس نے 23 مارچ کو دہلی تشدد کے سلسلےمیں گرفتار کیا تھا۔نتاشا نروال اور دیوانگنا کلیتا جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹ ہیں۔ کلیتا جے این یو کی سینٹر فار وومین اسٹڈیزکی ایم فل کی اسٹوڈنٹ ہیں، جبکہ نروال سینٹر فار ہسٹوریکل اسٹڈیز کی پی ایچ ڈی اسٹوڈنٹ ہیں۔ دونوں پنجرہ توڑ کی بانی ممبرہیں۔
پنجرہ توڑ تنظیم کی تشکیل2015 میں کی گئی تھی، جو ہاسٹل میں رہنے والی طالبات پرنافذ طرح طرح کی پابندیوں کی مخالفت کرتی ہے۔ تنظیم کیمپس کے امتیازی قانون اور کرفیو ٹائم کے خلاف لگاتار مہم چلاتی رہی ہے۔نروال اور کلیتا کے علاوہ دہلی پولیس نے جامعہ کے ریسرچ اسکالر میران حیدر، صفورہ زرگر، آصف اقبال تنہا اورشفیع الرحمن خان کو گرفتار کیا ہے۔ان پر یو اے پی اے، سیڈیشن،قتل ،قتل کی کوشش،مذہب کی بنیاد پرمختلف کمیونٹی کے بیچ نفرت کو بڑھاوا دینے اور دنگا کرنے کے جرم کے لیے بھی معاملہ درج کیا گیا ہے۔
Categories: خبریں