دی وائر کے بانی مدیرسدھارتھ وردراجن نےیوم جمہوریہ کے موقع پر کسانوں کے ٹریکٹر پریڈ کے دوران ہوئےتشدد میں دہلی کے آئی ٹی او پرمظاہرہ میں شامل ایک نوجوان کی موت کو لےکر ان کے اہل خانہ کے دعووں سے متعلق خبر ٹوئٹر پر شیئرکی تھی۔
نئی دہلی: یوم جمہوریہ کے موقع پر کسانوں کے ٹریکٹر پریڈ کے دوران ہوئےتشدد کے بعد صحافیوں پر کیس درج کیے جانے کی فہرست میں دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن کا بھی نام شامل ہوگیا ہے۔اتر پردیش کی رام پورپولیس نے سدھارتھ وردراجن کے خلاف ایک ٹوئٹ کو لےکرایف آئی آر درج کی ہے۔
اس ٹوئٹ میں انہوں نے ٹریکٹر پریڈ کے دوران دہلی کے آئی ٹی اوعلاقے میں مظاہرہ میں شامل ایک نوجوان کی موت کو لےکر ان کے اہل خانہ کے دعوے سے متعلق خبر کو ٹوئٹ کیا تھا۔ایف آئی آر آئی پی سی کی دفعہ153بی(قومی سالمیت پرمنفی اثر ڈالنے والابیان یا دعویٰ)اور 505(2)(عوامی طور پر شرپسندی کے لیے ذمہ دار بیان)کے تحت درج کیا گیا ہے۔
Hardeep Singh Dibdiba, grandfather of the youth killed in tractor parade, levels a sensational charge—that a doctor who was part of the autopsy told him a bullet caused the injuries “but my hands are tied”. @IsmatAraa has the story https://t.co/ulMIDPbLPq via @thewire_in
— Siddharth (@svaradarajan) January 30, 2021
دی وائر میں یہ خبر گزشتہ29 جنوری کو شائع ہوئی تھی۔ خبر مظاہرہ میں ہلاک ہونے والے نوریت سنگھ کے اہل خانہ کی جانب سے لگائے گئے الزامات پر مبنی ہے۔نوریت کے دادا نے الزام لگایا تھا کہ لاش کی اٹاپسی کے وقت ایک ڈاکٹر نے ان کے اہل خانہ کو بتایا تھا کہ نوریت کی موت ٹریکٹر پلٹنے سے نہیں، بلکہ گولی لگنے سے ہوئی ہے۔
حالانکہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ایسی کسی جانکاری کا ذکر نہیں تھا، صرف یہ کہا گیا ہے کہ ان کی موت سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔دی وائر کی اس خبر میں پولیس اور ڈاکٹروں کا بیان بھی شامل کیا گیا تھا، جس میں انہوں نے نوریت کے اہل خانہ کے دعووں سے انکار کیاتھا۔
خبر میں حلقہ کے سب سےسینئرپولیس افسربریلی کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل پولیس اویناش چندر کا بھی بیان شامل کیا گیا تھا، جنہوں نے اہل خانہ کے دعووں کو خارج کیا تھا۔اویناش چندر نے کہا تھا، ‘اٹاپسی کے لیے ہم نے سینئر ڈاکٹروں کا ایک پینل بنایا تھا۔ ہمارے پاس اس طرح کی بات کو (گولی لگنے سے موت ہونے)نہ بتانے کی کوئی وجہ نہیں ہے، کیونکہ معاملہ دہلی پولیس کا ہے۔’
خبر میں یہ بھی کہا گیا تھا، ‘حالانکہ کسی صحافی یا شخص کے لیے اس سلسلے میں کسی ٹھوس نتیجہ پر پہنچنا ناممکن ہے، لیکن اہل خانہ کو امید ہے کہ ایک آزادانہ جانچ سے سچائی کا پتہ چل جائےگا۔’اس کے بعد سنیچر شام رام پور کے ضلع مجسٹریٹ نے سدھارتھ وردراجن کے ٹوئٹ کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا، ‘ہم آپ سے گزارش کرتے ہیں کہ آپ صرف اور صرف حقائق کے ساتھ رہیں۔’
معلوم ہو کہ بی جے پی مقتدرہ مختلف ریاستوں کی پولیس نے ٹریکٹر پریڈ کی رپورٹنگ کرنے والے کئی صحافیوں کے خلاف کیس درج کیا ہے۔ اس قدم کی مذمت تمام میڈیا تنظیموں نے پریس کی آزادی پر حملہ کہتے ہوئے کی ہے۔
سدھارتھ وردراجن نے کہا ہے کہ یہ ایف آئی بدنیتی پر مبنی استغاثہ کے تحت دائر کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا، ‘اتر پردیش میں کسی کےپوسٹ مارٹم کو لےکرسوال اٹھانےوالے اہل خانہ کے بیان یا پھرموت کی وجوہات کو لےکرپولیس کے بیان کو میڈیا کی جانب سے شائع کرنا جرم ہے۔’
In UP, it is a crime for media to report statements of relatives of a dead person if they question a postmortem or police version of cause of death.
I think this new ‘law’ has come in the wake of godi media coverage of Sushant Singh Rajput postmortem.
. https://t.co/ulMIDPtmGY— Siddharth (@svaradarajan) January 31, 2021
سدھارتھ وردراجن کے خلاف یہ ایف آئی آر پانچ ریاستوں میں چھ دیگر صحافیوں کے خلاف پولیس کی جانب سےکیس درج کیے جانے کے بعد ہوئی ہے۔ ان چھ صحافیوں میں انڈیا ٹو ڈے کے صحافی راجدیپ سردیسائی، نیشنل ہیرالڈ کی سینئر صلاح کار ایڈیٹر مرنال پانڈے، قومی آواز کے ایڈیٹرظفر آغا، د ی کارواں میگزین کے مدیراور بانی پریش ناتھ، دی کارواں کے مدیر اننت ناتھ اور اس کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ونود کے جوس شامل ہیں۔
ان صحافیوں کے خلاف یہ کیس ٹریکٹر پریڈ کے دوران نوجوان کی موت کے سلسلے میں غیرمصدقہ خبریں شائع کرنے کے الزام میں درج کیے گئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کیس تشددبھڑ کانے کے دعوے کے ساتھ سیڈیشن کے تحت درج کیے گئے ہیں۔
میڈیا تنظیموں نے ان ایف آئی آر کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا ارادہ صحافیوں کو پریشان کرنے اور ڈرانے کا ہے۔معلوم ہو کہ یہ دوسرا معاملہ ہے، جسے اتر پردیش پولیس نے سدھارتھ وردراجن کے خلاف درج کیا ہے۔ اس سے پہلے اپریل 2020 میں ایک دیگر ٹوئٹ کو لےکر وردراجن کے خلاف اتر پردیش کی ایودھیاپولیس نے کیس درج کیا تھا۔
Categories: خبریں