خبریں

لوک سبھا اسپیکر کو خط لکھ کر اپوزیشن  نے کہا، غازی پور بارڈر پر حالات ہند و پاک سرحد جیسے

شرومنی اکالی دل،ڈی ایم کے ، این سی پی اور ترنمول کانگریس سمیت ان پارٹیوں کے 15ایم پی  کو پولیس نے غازی پور بارڈر پر کسانوں سے ملنے نہیں دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے کسانوں کی حالت جیل کے قیدیوں جیسی ہے۔

غازی پور بارڈر پر پولیس کی جانب سے کی گئی گھر ا بندی۔ (فوٹو:  پی ٹی آئی)

غازی پور بارڈر پر پولیس کی جانب سے کی گئی گھر ا بندی۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: لوک سبھا اسپیکر اوم بڑلا کو 10اپوزیشن  پارٹیوں کے 15ایم پی  نے جمعرات  کو خط لکھ کر کہا کہ غازی پور بارڈر پر حالات ہندو پاک بارڈرجیسے ہیں اور کسانوں کی حالت جیل کے قیدیوں جیسی ہے۔

شرومنی اکالی دل،ڈی ایم کے ، این سی پی اور ترنمول کانگریس سمیت ان پارٹیوں کے 15ایم پی  کو پولیس نے جمعرات کی  صبح غازی پور بارڈر پر کسانوں سے ملنے نہیں دیا۔

دورے کا کوآرڈینیشن کرنے والی شرومنی اکالی دل کی ایم پی ہرسمرت کور بادل کے مطابق، رہنماؤں کو بیریکیڈ پار کرنے اور احتجاج کی جگہ پر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔

ہرسمرت کور بادل نے جمعرات  کو ٹوئٹ کرکے کہا، ‘آج کشمیر سے کنیاکماری تک مختلف سیاسی پارٹیوں کی نمائندگی کرنے والے 15ایم پی  کسانوں کے ساتھ اتحاد کا مظاہرہ کرنےغازی پور بارڈر گئے تھے اور ایم پی  نے تینوں زرعی قوانین کو رد کرنے کی مانگ کی۔ ہم بھی پرامن ڈھنگ سےاحتجاج کر رہے کسانوں پر ہو رہے ظلم وجبر کو ختم  کرنے کی مانگ کرتے ہیں۔’

ایک اور ٹوئٹ میں انہوں نے کہا، ‘غازی پور بارڈر پر بنائے گئے حالات کو دیکھا۔ ان داتا کے ساتھ کیے جا رہے سلوک سے حیران ہوں۔ کسانوں کو قلعے جیسی کنکریٹ کی بیریکیڈ اور خاردارتاروں سے گھیر دیا گیا ہے۔یہاں تک کہ ایمبولینس اور فائر بریگیڈ بھی احتجاج کی جگہ  تک نہیں جا سکتے۔’

تینوں زرعی قوانین کی مخالفت میں مودی سرکار میں کابینہ وزیر کےعہدے سے استعفیٰ دینے والی ہرسمرت کور بادل نے کہا کہ اپوزیشن کے رہنماؤں کواحتجاج کی جگہ  تک پہنچنے کے لیے تین کیلومیٹر تک چلنے کے لیے مجبور کیا گیا۔

انہوں نے کہا، ‘ہم یہاں ہیں تاکہ ہم اس معاملے پر پارلیامنٹ میں چرچہ کر سکیں۔ لوک سبھا اسپیکر ہمیں اس معاملے کو اٹھانے نہیں دے رہے ہیں۔ اب تمام اپوزیشن  اس بات کی تفصیل پیش کریں گے کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔’

ایک اور ٹوئٹ میں انہوں نے کہا، ‘پہلے ہمیں پارلیامنٹ میں کسانوں کی تحریک کے بارے میں بولنے کی اجازت نہیں دی گئی، اب ہمیں دہلی کی سرحدوں پر احتجاج کر رہے کسانوں سے ملنے نہیں دیا جا رہا ہے، جنہیں بین الاقوامی بارڈر کی طرح سیل کر دیا گیا ہے۔ یہ ہمارے حقوق  پر سخت حملہ ہے۔ لوک سبھا اسپیکر کو اس بارے میں ایک میمورنڈم  لکھا ہے۔ جمہوریت  کو اس طرح سے متاثر نہیں کیا جا سکتا ہے۔’

بادل کے علاوہ، این سی پی  کی سپریہ سلے، ڈی ایم کے کی کونی موئی اور تروچی شیوا، ترنمول کانگریس کے سوگت رائے وفدمیں شامل تھے۔ ان کے ساتھ نیشنل کانفرنس،آرایس پی اور انڈین یونین مسلم لیگ (آئی یوایم ایل)کے ایم پی بھی تھے۔

این سی پی رہنما سپریہ نے کہا، ‘ہماری ثقافت میں ان داتا سکھی بھو کہا جاتا ہے۔ کسان ہمیں کھانا فراہم کراتا ہے۔ ہم سب کو لگتا ہے کہ ان کی خوشی کے لیےمرکزی حکومت کو ایک قدم آگے بڑھنا چاہیے۔ ان کی شکایتوں کو سننا چاہیے اور ایک تسلی بخش حل  کے ساتھ آنا چاہیے۔’

انہوں نے ٹوئٹ کرکے کہا، ‘دہلی بارڈر پر 70 دنوں سے احتجاج کر رہے کسانوں کو مرکزی حکومت کی جانب سے بنیادی سہولیات سے محروم کر دیا گیا ہے۔ یہ بدقسمتی  ہے کہ رکن پارلیامان کو غازی پور بارڈر پر روکا گیا۔ یہ منتخب ممبروں  کے حقوق کی خلاف ورزی  ہے۔’

لوک سبھا کی کارروائی دن بھر کے لیےملتوی  ہونے کے بعدسلے اور رائے سمیت اپوزیشن رہنما لوک سبھا اسپیکر سے ملے اور انہیں ایک خط سونپا، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پولیس نے انہیں کسانوں سے ملنے کی اجازت نہیں دی۔

گزشتہ 26 جنوری کو کسانوں کے ٹریکٹر ریلی کے دوران تشدداور بربریت کے بعد غازی پور، سنگھو اور ٹکری سرحدوں پر سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔ دہلی کی ان تینوں سرحدوں پر ہزاروں کسان دسمبر سے ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں۔بہت بڑے علاقے میں خاردار تاروں کی بیریکیڈنگ کی گئی ہے، جبکہ ٹکری اور غازی پور میں احتجاج کی جگہ  کی جانب جا رہی سڑک پر پولیس نے لوہے کی کیلیں گاڑ دی ہیں۔

 (خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)