دہلی فسادات کے ایک ملزم کے بیان سےمتعلق دستاویز لیک ہونے پر دہلی ہائی کورٹ نے کہا کہ اگر آپ کے افسر نے اس کو لیک کیا تو یہ اختیارات کا غلط استعمال ہے اور اگر اسے میڈیا نے کہیں سے لیا ہے تو یہ چوری ہے۔ اس لیے کسی بھی صورت میں یہ جرم ہے۔
نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے شمال-مشرقی دہلی میں پچھلے سال ہوئے دنگوں کے معاملے میں دائرضمنی چارج شیٹ پر متعلقہ عدالت کے نوٹس لینے سے پہلے ہی اس کے میڈیا میں لیک ہونے پر دہلی پولیس کی جمعہ کو سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ یہ جرم ہے۔
جسٹس مکتا گپتا نے دہلی پولیس کمشنر کو حلف نامہ دائر کر کےجانکاری کو میڈیا میں لیک کرنے کے لیے ذمہ دارشخص کی جوابدہی طے کرنے کو کہا ہے۔عدالت نے پولیس کے وکیل کو بتایا،‘ایک بار میڈیا میں آنے پر یہ الزام (لیک ہونے کا)ثابت ہو چکا ہے۔ یہ اب صرف الزام نہیں ہے۔ آپ کو طے کرنا ہوگا کہ یہ کس نے کیا۔’
عدالت میں دہلی پولیس کے وکیل امت مہاجن نے کہا کہ ضمنی چارج شیٹ کا موادپولیس کے ذریعے میڈیا میں لیک نہیں کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ پولیس پر ذمہ داری طے نہیں کی جا سکتی، کیونکہ انہوں نے اسے لیک نہیں کیا ہے۔
اس پر عدالت نے کہا، ‘یہ ملکیت ایک پولیس افسر کے ہاتھ میں تھی اور اگر آپ کے افسر نے ایسا کیا ہے تو یہ اختیارات کا غلط استعمال ہے، اگر اس کی منظوری کسی اور کو دی گئی تو بھروسے کی مجرمانہ طور پر خلاف ورزی ہے اور اگر اسے میڈیا نے کہیں سے لیا ہے تو یہ چوری ہے۔ اس لیے کسی بھی صورت میں جرم کا معاملہ بنتا ہے۔’
عدالت جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اسٹوڈنٹ آصف اقبال تنہا کی عرضی پرشنوائی کر رہی تھی، جس میں انہوں نے پوچھ تاچھ کے دوران جانچ ایجنسی کے سامنے درج کرائے گئے بیان کو میڈیا میں لیک کرنے پر پولیس پر بدسلوکی کا الزام لگایا ہے۔
تنہا کے وکیل سدھارتھ اگروال نے کہا کہ پولیس نے حال ہی میں نچلی عدالت کے سامنےضمنی چارج شیٹ دائر کی تھی اور ملزمین کو اس کی کاپی دستیاب کرائے جانے سے پہلے ہی اس کے کچھ حصے اگلے ہی دن میڈیا کے پاس تھے۔
انہوں نے کہا کہ نچلی عدالت نے تب تک ضمنی چارج شیٹ پرنوٹس بھی نہیں لیا تھا اور تب نچلی عدالت نے ایک آرڈر پاس کرکے میڈیا کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔انہوں نے اس تناظر میں اضافی حلف نامہ دائر کرنے کے لیے عدالت سے وقت کی مانگ کی۔
عدالت نے اس معاملے میں اگلی شنوائی 25 مارچ کو طے کی ہے۔بتا دیں کہ گزشتہ ایک مارچ کو دہلی ہائی کورٹ نے اس معاملے میں دہلی پولیس کی جانچ رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا اور جانچ رپورٹ کو ردی کا کاغذ بتایا تھا۔
خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، عدالت کے آرڈر کے مطابق اسپیشل پولیس کمشنر (ویجیلنس) سندری نندا بھی شنوائی میں موجود تھیں۔عدالت کو دہلی پولیس اور میڈیا ہاؤس، زی نیوز میڈیا کارپوریشن لمٹیڈ کے وکیل وجئے اگروال کے توسط سے جوابدہی کے لیےشنوائی کرنا باقی ہے۔
تنہا کے وکیل نے پہلے کہا تھا کہ دستاویزوں کے لیک ہونے کے سلسلے میں پولیس کی طرف سے اٹھائے گئے قدم کو لےکر سوال کی جانچ کے علاوہ، ایک قابل گرفت جرم بھی کیا گیا ہے اور مناسب کارروائی کرنا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ میڈیا گھرانوں زی نیوز میڈیا کارپوریشن لمٹیڈ اور آپ انڈیا کے قدم نے میڈیا میں اس طرح کے دستاویز رکھنے کے لیے پروگرام کوڈ کی خلاف ورزی کی۔
ہائی کورٹ نے اس سے پہلے دنگا معاملے میں تنہا کے مبینہ قبولنامے کے نشریات پرزی نیوز سے سوال کیا تھا اور کہا تھا کہ اس طرح کے دستاویزوں کو باہر لاکر نشر نہیں کیا جا سکتا ہے۔
عدالت نے میڈیا ہاؤس کو ہدایت دی تھی کہ وہ ایک حلف نامہ داخل کرے، جس سے اس کے ذرائع کا نام پتہ چلے جس سے متعلقہ صحافی کو دستاویز ملے تھے۔
جامعہ کے اسٹوڈنٹ آصف اقبال تنہا کو پچھلے سال شمال -مشرقی دہلی میں فرقہ وارانہ تشدد سےمتعلق ایک معاملے میں مئی 2020 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ تنہا فی الحال عدالتی حراست میں ہیں۔
پولیس نے کہا تھا کہ شاہین باغ میں ابوا لفضل انکلیو کے رہنے والے تنہا اسٹوڈنٹ اسلامک آرگنائزیشن کے رکن تھے اور جامعہ کوآرڈنیشن کمیٹی کا حصہ تھے، جس نے شہریت قانون کے خلاف احتجاج کیا تھا۔
معلوم ہو کہ 24 فروری، 2020 کو شمال مشرقی دہلی میں شہریت قانون کےحامیوں اور مظاہرین کے بیچ فرقہ وارانہ جھڑپیں ہوئی تھیں۔ تشدد میں تقریباً 53 لوگ مارے گئے تھے اور لگ بھگ 200 لوگ زخمی ہو گئے تھے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں