اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ آن آربٹریری ڈٹینشن نے کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی اسٹوڈنٹ صفورہ زرگر کی میڈیکل کنڈیشن کو دیکھتے ہوئے انتہائی سنگین الزمات میں بھی فوراً گرفتاری کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اقوام متحدہ نے ہندوستان سے ان کی حراستی حالات کی ایک آزادانہ تحقیق یقینی بنانے کو کہا ہے۔
نئی دہلی: اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ آن آربٹریری ڈٹینشن(یو این ڈبلیو جی اے ڈی)نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی اسٹوڈنٹ صفورہ زرگر کی گرفتاری اورحراست کو انسانی حقوق پر آفاقی اعلامیہ اورشہری و سیاسی حقوق سے متعلق بین الاقامی معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا ہے، جس میں ہندوستان ایک فریق(دستخط کنندہ )ہے۔
زرگرکو پہلی بار دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے جعفرآباد روڈ بلاک معاملے میں درج ایف آئی آر 48/2020 میں 10 اپریل کو گرفتار کیا تھا۔ انہیں 13 اپریل کو اس معاملے میں ضمانت دی گئی تھی، لیکن اسی دن 24 فروری کو درج 59/2020 ایف آئی آر میں ان کا نام جوڑ دیا گیا اور پھر سے گرفتار کر لیا گیا۔
دہلی پولس نے دعویٰ کیا کہ وہ پچھلے سال فروری میں شمال-مشرقی دہلی میں ہونے والے فسادات میں کلیدی سازش کاروں اوراشتعال انگیزی میں شامل اہم افراد میں سے ایک تھیں۔حالاں کہ انہیں انسانی بنیاد وں پر دہلی ہائی کورٹ سے جون 2020 کو ضمانت مل گئی۔ وہ اس وقت 23 ہفتے کی حاملہ تھیں۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے تسلیم شدہ یو این ڈبلیو جی اے ڈی میں آسٹریلیا، لٹویا،جنوبی کوریا، زیمبیا اور ایکواڈور کے ماہرین کا ایک پینل شامل ہے۔ورکنگ گروپ نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے 22 جولائی کو صفورہ زرگر کی کو حراست میں لینے کے الزامات کے بارے میں حکومت ہندکو خط لکھا تھا اور 21 ستمبر 2020 تک جواب دینے کی گزارش کی تھی۔
حالانکہ، ورکنگ گروپ کو اس بات کا افسوس ہے کہ اس کو سرکار سے کوئی جواب نہیں ملا اور نہ ہی سرکار نے اس سے جواب کے لیے وقت میں توسیع کی درخواست کی جیسا کہ ورکنگ گروپ کے کام کرنے کے طریقوں کے لیے طے کیا گیا ہے۔
پچھلے نومبر میں اپنے 89ویں اجلاس میں اپنائی گئی لیکن جمعرات کو جاری کی گئی ایک رائے میں ورکنگ گروپ نے کہا؛
انسانی حقوق کےعالمی اعلامیے کے آرٹیکل 2، 3، 7، 8،9، 10، 11، 19، 20 اور 21 (1) اور معاہدے کے آرٹیکل 2 (1) اور (3)، 9، 14، 19، 25 (اے) اور 26 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے صفورہ زرگر کو آزادی ے محروم کیا گیا جو آمرانہ تھا اور I، II اور V کے زمرے میں آتا ہے۔
اجلاس میں ہندوستان سے متعلق اپنائی گئی یہ دوسری رائے ہے۔ اس سے پہلے اقوام متحدہ کے ادارے نے برطانوی بزنس مین اور اگستا ویسٹ لینڈ گھوٹالے کے ملزم کرشچین مشیل کی گرفتاری اور نظربندی کے لیے ہندوستان کوتنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
حالانکہ ہندوستان نے اس کو یہ دعویٰ کرتے ہوئے مستردکر دیا تھا کہ یہ محدودمعلومات اور متعصبانہ الزامات پر مبنی تھا۔بتا دیں کہ من مانے طریقے سے آزادی سے محروم کے جانے کو لےکریو این ڈبلیو جی اے ڈی نے تین زمروں کی درجہ بندی کی ہیں۔
زمرہ 1 کے تحت ورکنگ گروپ آزادی سے محروم کیے جانے کو صحیح ٹھہرانے والے کسی بھی قانونی بنیاد کو صاف طور پر ناممکن مانتا ہے۔اس نے پایا کہ زرگر کی گرفتاری بےقاعدہ تھی اور انہیں ایک مبینہ جرم کے لیے حراست میں لیا گیا تھا جس کے لیے اس کا نام نہیں لیا گیا اور اس معاملے میں شکایت گزار پولیس ہے۔
اس کے علاوہ،ادارے نے نوٹ کیا کہ پولیس نے جس جانکاری کی بنیاد پر ایف آئی آر درج کی ہے، اس میں خفیہ مخبر ہونے کاذکر ہے۔اس میں کہا گیا،‘بعد میں انہیں ایک دیگر پولیس اسٹیشن میں درج ایک اورفرسٹ جانچ رپورٹ کے تحت گرفتار کیا گیا تھا، جو مبینہ طور پر پولیس کے ذریعےانہیں نشانہ بنانے کے لیے قانون کے غلط استعمال کو دکھاتا ہے۔’
اس کے علاوہ، ورکنگ گروپ نے پایا کہ ان کی میڈیکل کنڈیشن کو دیکھتے ہوئے انتہائی سنگین الزامات میں بھی فوراً گرفتاری کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ورکنگ گروپ نے کہا کہ زرگر کی نظربندی بھی بین الاقوامی معاہدوں کے تحت مذکورزمرہ 2 کے ضمن میں آتی ہے، کیونکہ ان کی گرفتاری ان کے خیالات کے اظہار کرنے اورپرامن اجلاس کے حق کی وجہ سے ہوئی تھی۔
یو این ڈبلیو جی اے ڈی نے کہا، ‘عالمی سطح طور پرتسلیم شدہ انسانی حقوق بالخصوص رائے، اظہار اورپرامن اجلاس کی آزادی کے استعمال کی وجہ سے زرگر کو ان کی آزادی سےمحروم کیا گیا۔ اس حقیقت کے پیش نظر کہ زرگر شہریت قانون کو پاس کیے جانے کی ناقد تھیں اور اس کے خلاف عوامی احتجاج میں مصروف انسانی حقوق کی ایک خاتون محافظ اور جامعہ کوآرڈنیشن کمیٹی کے لیے میڈیا رابطہ افسر کے طور پر ان کی موجودہ حراست کو صاف طور سے انہیں اور جامعہ کوآرڈنیشن کمیٹی سے وابستہ دیگر لوگوں کو ڈرا دھمکا کر ان کے اختلافات پر پابندی لگانے کے ایک اور قدم کے طور پر تشریح کی جا سکتی ہے۔’
یواین کے ادارے نے اپیل کی ہے کہ حکومت ہندبلا تاخیر زرگر کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے ضروری قدم اٹھائے اور اسے متعلقہ بین الاقوامی ضابطوں کے موافق کرے۔ہندوستان سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ وہ زرگر کےحراستی حالات کو لےکر ایک مکمل اورآزادانہ جانچ یقینی کرے اور ان کے حقوق کی خلاف ورزی کے لیے ذمہ دار لوگوں کے خلاف صحیح قدم اٹھائے۔
اس کے ساتھ ہی معاملے کی فائل کو ضروری کارروائی کے لیے رائے اور اظہار کی آزادی کے حق کے فروغ اور تحفظ پرخصوصی ایلچی،انسانی حقوق کے محافظوں کی حالت پر خصوصی مندوب اور دہشت گردی سے مقابلہ کرتے ہوئے انسانی حقوق اور بنیادی آزادی کے فروغ اور تحفظ پرخصوصی مندوب کو دے دی گئی۔
ورکنگ گروپ نے دو اسٹیک ہولڈرزحکومت ہند اور زرگر معاملے کو پیش کرنے والے سورس سے مزیدجانکاری کے لیے یہ بھی پوچھا کہ کیا ریسرچ اسکالر کو بنا شرط رہا کیا گیا، معاوضہ دیا گیا، پوری جانچ کا آرڈر دیا گیا اور کیا بین الاقوامی مصالحت کے ساتھ قوانین اور روایات کے تال میل کے لیے کوئی قانونی ترمیم کی گئی تھی۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)
Categories: خبریں