لڑکی کی شکایت کی بنیاد پر قتل کی کوشش کا معاملہ درج کیا گیا ہے۔ مختلف کمیونٹی کے بیچ دشمنی کو بڑھاوا دینا سےمتعلق دفعہ بھی لگائی گئی ہے۔ بجرنگ دل کے گرفتار چار میں سے دو کارکنوں کی اسی طرح کے معاملوں میں مجرمانہ تاریخ رہی ہے۔
نئی دہلی: کرناٹک میں رائٹ ونگ گروپ بجرنگ دل کے چار ممبروں کو دوسری کمیونٹی کی خاتون کے ساتھ جا رہے مسلم نوجوان کی پٹائی کرنے اور اس پر چاقو سے حملہ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔قابل ذکر ہے کہ 23 سالہ مسلم نوجوان اپنی ہم عمر دوست کے ساتھ منگلورو سے بنگلورو جا رہا تھا کہ بجرنگ دل کے کارکنوں نے اسے کنکناڈی میں بس سے کھینچ کر باہر نکالا اور اس کی بے رحمی سے پٹائی کی۔ اس پر چاقو سے بھی حملہ کیا گیا۔
یہ حملہ اس لیے ہوا کیونکہ نوجوان اورلڑکی الگ الگ کمیونٹی سے تھے۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، اس معاملے میں دو اپریل کو چار لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ حالانکہ پولیس نے شروعات میں اس معاملے میں آٹھ دیگر لوگوں کو بھی حراست میں لیا تھا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ لڑکی کی شکایت کی بنیادپر قتل کی کوشش کا معاملہ درج کیا گیا ہے۔ آئی پی سی کی دفعہ153اے (مختلف کمیونٹی کے بیچ دشمنی کو بڑھاوا دینا)بھی لگائی گئی ہے۔رپورٹ کے مطابق، شکایت میں بتایا گیا ہے کہ نوجوان مسلمان ہے جبکہ لڑکی ہندو ہے۔ پولیس نے بتایا کہ چار ملزمین میں سے ایک لڑکی اور نوجوان کو جانتا تھا اور بنگلورو جانے کے ان کےمنصوبے سے واقف تھا۔
منگلورو پولیس کمشنر نے دو اپریل کو بتایا تھا کہ نوجوان اس لیے لڑکی کے ساتھ جا رہا تھا، کیونکہ لڑکی اس شہر سے واقف تھی اور وہاں روزگار کی تلاش میں جا رہی تھی۔
پولیس افسر نے بتایا،‘ملزمین نے دونوں کا پیچھا کیا اور جس بس میں وہ سفر کر رہے تھے، اسے رکوا لیا۔ ہم اس بات کی بھی جانچ کر رہے ہیں کہ کیا ان دونوں کے بارے میں جانکاری ملزمین تک پہنچانے میں دیگر لوگ بھی شامل تھے یا نہیں۔’
پولیس کا کہنا ہے کہ بجرنگ دل کے چار میں سے دو کارکنوں کی اسی طرح کے معاملوں میں مجرمانہ تاریخ ہے، جہاں وہ بین مذہبی معاملوں میں مجرمانہ طور پر شامل تھے۔ ان میں سے ایک قتل کی کوشش کے معاملے میں ضمانت پر باہر ہے۔
کنکناڈی معاملے میں چار میں سے دو ملزمین کو ضمانت دی گئی۔منگلورو پولیس کمشنر نے پہلے کہا تھا کہ گزشتہ دو مہینوں میں تین سے چار اس طرح کے معاملے ہوئے ہیں۔فروری 2021 میں کرناٹک بی جے پی کے چیف نلن کمار کٹیل نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ ریاستی حکومت اتر پردیش اور مدھیہ پردیش سرکار کےنقش قدم پر چلتے ہوئے آئندہ اسمبلی سیشن میں لو جہاد قانون لانے کی خواہش مند ہے۔
لو جہاد ہندوتوادی تنظیموں کے ذریعے استعمال میں لائی جانے والی اصطلاح ہے، جس میں مبینہ طور پر ہندو خواتین کو زبردستی یا بہلا پھسلاکر ان کا مذہب تبدیل کراکر مسلمان سے اس کی شادی کرائی جاتی ہے۔
Categories: خبریں