سریندر کمار یادو نے 30 ستمبر 2020 کو سی بی آئی کےخصوصی جج کے طور پر سنائے فیصلے میں1992 بابری انہدام معاملے میں بی جے پی کے سینئر رہنماؤں لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی اور کلیان سنگھ سمیت تمام ملزمین کو بری کیا تھا۔ اب گورنر آنندی بین پٹیل نے انہیں ریاست کا تیسرا ڈپٹی لوک آیکت مقرر کیا ہے۔
نئی دہلی: بابری مسجد انہدام معاملے میں پچھلے سال سینئربی جے پی رہنماؤں لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی سمیت 32ملزمین کو بری کرنے والے سبکدوش جج سریندر کمار یادو نے گزشتہ سوموار کو اتر پردیش کے نئے ڈپٹی لوک آیکت عہدے کی حلف دلائی ۔
ایک سرکاری بیان کے مطابق گورنرآنندی بین پٹیل نے گزشتہ چھ اپریل کو یادو کو ریاست کا تیسرا ڈپٹی لوک آیکت مقرر کیا تھا۔ سوموار کو لوک آیکت سنجے مشرا نے یادو کو عہدے اوررازداری کی حلف دلائی۔
لوک آیکت بدعنوانی سے متعلق معاملوں کی شنوائی کا ایک ادارہ ہے۔ لوک آیکت ایک غیر سیاسی پس منظر والاشخص ہوتا ہے اور وہ بدعنوانی، سرکاری بدانتظامی یا وزرایاالوک سیوکوں کے ذریعےاقتدار کے غلط استعمال جیسے معاملوں کی جانچ کے قانونی اتھارٹی کی طرح کام کرتا ہے۔
بدعنوانی مخالف اس ادارہ میں ایک لوک آیکت اور تین ڈپٹی لوک آیکت ہوتے ہیں۔ دو دیگر ڈپٹی لوک آیکت شمبھو سنگھ یادو، جن کی تقرری چار اگست 2016 کو ہوئی تھی، اور دینیش کمار سنگھ، جن کی تقرری چھ جون 2020 کو ہوئی تھی ۔ ڈپٹی لوک آیکت کی مدت کار آٹھ سالوں کی ہوتی ہے۔
یادو نے 30 ستمبر 2020 کو سی بی آئی کے خصوصی جج کی حیثیت سے سنائے گئے فیصلے میں چھ دسمبر 1992 کو ہوئے بابری انہدام معاملے میں تمام ملزمین کو بری کر دیا تھا۔ ان میں بی جے پی کے سینئر رہنما لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی اور کلیان سنگھ بھی شامل تھے۔
یادو نے اپنے آرڈر میں کہا تھا کہ ملزمین کے خلاف کوئی فیصلہ کن ثبوت نہیں ہے اور چھ دسمبر 1992 کو جو بھی ہوا وہ کوئی سازش نہیں، بلکہ اچانک ہواحادثہ ہوا تھا۔
اتنا ہی نہیں اس وقت کے خصوصی سی بی آئی جج ایس کے یادو نے اپنے 2300 پیج کے لمبے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ اس دن ہندوتوادی تنظیم آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد کے کارسیوک نظام سنبھالے ہوئے تھے اور ان کے کے ذریعے برابرہدایت دی جا رہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ کچھ شرپسند کارسیوکوں کے گروپ کے ذریعے مسجد گرائی گئی تھی اور ایسے لوگوں کو رام بھکت نہیں کہا جا سکتا ہے۔ مسجد گرانا منصوبہ بند سازش نہیں تھی۔
معلوم ہو کہ چھ دسمبر 1992 کو ایودھیا میں بابری مسجد کا ڈھانچہ گرایا گیا تھا، جس کے بعد اس معاملے میں 49 لوگوں کو ملزم بنایا گیا تھا۔ ان میں سے 17 کی موت ہو چکی ہے اور بچے ہوئے 32 ملزمین کو 28 سال بعد عدالت نے پچھلے سال 30 ستمبر کو بری کر دیا تھا۔
بابری مسجد انہدام معاملے میں لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، کلیان سنگھ، اوما بھارتی، ونئے کٹیار، سادھوی رتمبھرا، مہنت نرتیہ گوپال داس، ڈاکٹر رام ولاس ویدانتی، چنپت رائے، مہنت دھرم داس، ستیش پردھان، پون کمار پانڈے، للو سنگھ، پرکاش شرما، وجئے بہادر سنگھ،سنتوش دوبے، گاندھی یادو، رام جی گپتا، برج بھوشن شرن سنگھ،کملیش ترپاٹھی، رام چندر کھتری، جے بھگوان گوئل، اوم پرکاش پانڈے، امر ناتھ گوئل، جئےبھان سنگھ پوییا، مہاراج سوامی ساکشی، ونئے کمار راے، نوین بھائی شکلا، آر این شریواستو، آچاریہ دھرمیندر دیو، سدھیر کمار ککڑ اور دھرمیندر سنگھ گرجر ملزم بنائے گئے تھے۔
معلوم ہو کہ سابق چیف جسٹس رنجن گگوئی کی صدارت والی پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے سال 2019 میں 40 دنوں کی لمبی شنوائی کے بعد نو نومبر کو بابری مسجدرام جنم بھومی زمینی تنازعہ پر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے متنازعہ زمین پر مسلم فریق کا دعویٰ خارج کرتے ہوئے ہندوفریق کو زمین دینے کو کہا تھا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں