دہلی ہائی کورٹ کے تین طلبا- کارکنوں کو یو اے پی اے کے معاملے میں ضمانت دینے کے فیصلے کو دوسری عدالتوں کےذریعےنظیر کےطور پر استعمال نہ کرنے کاحکم دےکرسپریم کورٹ نے پھر بتا دیا کہ فرد کی آزادی اور ریاست کی خواہش میں وہ اب بھی ریاست کو ترجیح دیتی ہے۔
جو ڈر تھا وہی ہوا؟ سپریم کورٹ نے پھر بتلا دیا کہ فرد کی آزادی اور ریاست کی خواہش میں ابھی بھی وہ ریاست کو ترجیح دیتی ہے۔ دہلی ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر، جس میں اس نے نتاشا نروال، دیوانگنا کلیتا اور آصف اقبال تنہا کو ضمانت دی تھی،سپریم کورٹ نے حیرانی کا اظہارکیاہے۔آخر ضمانت کا فیصلہ100صفحات میں کیوں؟ اس نے تینوں کی ضمانت رد نہ کرکے رحم کیا ہے لیکن ساتھ ہی اس فیصلے کو آگے نظیر کی طرح استعمال نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔
سپریم کورٹ کے اس حکم سے پہلے یہ سوال کیا جا رہا تھا کہ کیا عدالتوں نے خود کو اس بندش سے آزاد کرنا شروع کر دیا ہے جو نام نہاد انسداد دہشت گردی قانون یو اے پی اے کے تناظر میں سپریم کورٹ نے خود ہی اپنی اور باقی عدالتوں کے اختیار پر لگا دی تھی؟ دی وائر میں ہی یہ سوال ہم نے کچھ دن پہلے پوچھا تھا کہ کیا عدالت خود کو اپنی پابندی سے آزاد کر پائےگی؟
نتاشا نروال، دیوانگنا کلیتا اور آصف اقبال تنہا کو ہائی کورٹ کے ذریعے ضمانت دیے جانے کےاحکامات کے بعد ماہر قانون یہ پوچھ رہے ہیں اور انسانی حقوق کے کارکن بھی کہ کیا دہلی کے ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ اس سمت میں ایک قدم ہے!
یہ خاص صرف اس لیے نہیں ہے کہ پہلی بار یو اے پی اے قانون کے تحت گرفتار لوگوں کوباقاعدہ اور مکمل ضمانت پر رہا کیا گیا ہے۔ صحت یا انسانیت یا رحم کی وجہ سے نہیں جیسا کہ کچھ معاملوں میں پہلے ہوا ہے۔
تینوں کی ضمانت کے فیصلے کی اہمیت اس لیے ہے کہ پولیس یا الزام لگانے والوں کے ذریعے ان کے خلاف یو اے پی اے کے استعمال کے لیے پیش کیے گئے دعووں کی پڑتال کے بعد عدالت نے ان تینوں کو مکمل اور مستقل ضمانت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ اس قانون کے اس صورت میں مؤثر ہونے کے بعد سے آج تک نہیں کیا گیا ہے۔ یعنی ضمانت کی شنوائی کرتے وقت کسی عدالت نے اس پر رائے نہیں دی ہے کہ متعلقہ معاملے میں یو اے پی اے کا استعمال ہی کیا جانا چاہیے کہ نہیں۔ پہلی بار اس معاملے میں عدالت نے کہا ہے کہ یو اے پی اے کا استعمال ان تینوں کے خلاف نامباسب ہے۔ اس وجہ سے انہیں رہا کیا گیا ہے۔
کسی بھی جرم کے الزام میں گرفتاری کے بعد مانا جاتا ہے کہ ضمانت ضابطہ ہے۔ جیل استثنیٰ ہے۔ یہ اس اصول کی وجہ سے جس میں فرد کی آزادی سب سے مقدس ہے اور اسے ایک دن کے لیے بھی اس سےمحروم نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن یو اے پی اے ایک ایسا قانون ہے جس میں جیل کو ضابطہ بنا دیا گیا ہے۔
یعنی جب تک پورا مقدمہ سن نہیں لیا جاتا اور الزام عائد کرنے والوں کے الزام غلط ثابت نہیں ہوتے، ملزم جیل میں رہنے کو مجبور ہے۔ الزام تب تک الزام ہے جب تک ثابت نہ ہو جائے۔ صرف الزام کی بنیادپر کسی سے اس کی آزادی چھین لینا کتنا مناسب ہے؟
الزام کئی وجوہات سے لگائے جا سکتے ہیں۔ سیاسی حریفوں پر یامظاہرین پر سرکار الزام سیاسی یا نظریاتی وجہ سے لگا سکتی ہے۔
اسی وجہ سےپوری دنیا میں جانچ پڑتال، پوچھ تاچھ کے لیے لمبے وقفے کے لیےملزم کو پولیس یا عدالت کی حراست میں رکھنے کا قاعدہ نہیں ہے۔ یہ ہمارے ملک میں قاعدہ جیسا بن گیا ہے۔ اس لیے ہماری جیلیں زیر سماعت قیدیوں سے بھری ہوئی ہیں، ایسے ایسے لوگوں سے جن پر بہت معمولی الزام بھی ہیں۔
ایسےملزمین کے لیے پھر بھی امید ہے کہ انہیں ضمانت مل سکتی ہے۔ وہ مقدمے کے وقت عدالت میں حاضر ہوں لیکن باقی وقت وہ آزاد ہیں۔ یہ حق یو اے پی اے چھین لیتا ہے۔
عدالت کی، بالخصوص ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے شہریوں کے آئینی حقوق کاتحفظ ہو۔ ان میں سب سے اوپر ہےفردکی آزادی کا حق ۔ پوری دنیا میں جمہوریت کی تاریخ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کی زندگیوں پر ریاست کے اختیار کے لالچ اور فرد کی آزادی میں ہمیشہ ہی تناؤ بنا رہتا ہے۔
ریاست کی قانونی نمائندگی کرنے کا دعویٰ سرکار کرتی ہے۔ سرکار قوانین کے ذریعےریاست چلاتی ہے۔ جمہوریت کی خصوصیت یہی ہے کہ اسے قانون کی حکمرانی کہا جاتا ہے۔ عموماً یہ مان لیا جاتا ہے کہ قوانین کی حکومت فطرت کےقوانین جیسی ہی ہے۔ سرکار قانون ریاست اور ریاست کی عوام کے نام پر لاتی ہے۔ لیکن ہمیں پتہ ہے کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔
حکومت نظریاتی طور پرغیرجانبدار نہیں ہوا کرتی۔ یہ قطعی ممکن ہے کہ اس کے ذریعے بنائے جا رہے قانون اس کے نظریات کااظہار ہوں۔ اکثریت کی بنیاد پر چن کر آئی سرکار کو ہمیشہ احساس رہنا چاہیے کہ اس کو ملی اکثریت مستقل نہیں ہے۔
قوانین کی عمر سرکار سے لمبی ہوتی ہے۔ اس لیے وہ من چاہے طریقے سے اپنے نظریات کی خوشنودی کے لیے قانون بنائےگی تو اس سے عوام کے اس حصہ میں عدم اطمینان پیدا ہوگا جو اس کے نظریے سے متفق نہیں ہیں یا اس کے ناقد یا مخالف ہیں۔
اسی لیے قانون بناتے وقت زیادہ سے زیادہ اتفاق کی کوشش سرکاریں کیا کرتی ہیں یا انہیں ایسا کرنا چاہیے۔ لیکن ایسی سرکار بھی ہوتی ہے جو اس اتفاق کے لمبے اور مشکل راستے کی جگہ صرف اپنی اکثریت کی طاقت کا استعمال کرکے قانون بنا دے۔ ویسی صورت میں اس کے قانون کی مخالفت ہوگی۔ اور وہ اس مخالفت کو دباتے ہوئے یہ دلیل دےگی کہ یہ جبریا تادیب ریاست یاملک یا عوام کے مفادمیں کی جا رہی ہے۔
جمہوریت میں ہمیشہ ہی، کوئی بھی سرکار ہو، اس کے کسی نہ کسی قدم سے غیر مطمئن عوام کا حصہ اس کی مخالفت کرےگی۔ یہ اس کا جمہوری اور آئینی حق ہے۔تنظیم بنانا، تحریک کرنا اور ان جمہوری طریقوں سے سرکار کو ہٹانے کی کوشش کرنا ہر کسی کا حق ہے۔
سرکار کے خلاف اختلاف رائے کو آواز دینایا اس کی‘غلط’پالیسیوں کی وجہ سے اس کے خلاف اختلاف رائے کو منظم کرنا ہر کسی کا حق ہے۔ جب کوئی ایسا کرتا ہے تو سرکار یہ نہیں کہہ سکتی کہ وہ ریاست کو غیرمستحکم کر رہا ہے یا اس کے خلاف جنگ کر رہا ہے۔ یہ دہرانے کی ضرورت ہے کہ سرکار کو ہٹانے کی تحریک کی جا سکتی ہے، وہ جائز ہے۔
تحریک کے دوران بہت کچھ ایسا ہو سکتا ہے، جس سے سرکار کے مطابق نظم و نسق کا مسئلہ کھڑا ہو۔ راستہ جام کیا جا سکتا ہے، کچھ توڑ پھوڑ، آگ زنی بھی ہو سکتی ہے۔ یہ غیرقانونی ہے اور جرم ہے۔ ان سب کے لیے ہندوستان میں قانون ہیں۔
اگر دفعہ144کی خلاف ورزی کی جائے تو اس کے لیےآئی پی سی کی دفعات ہیں جن کی بنیاد پر مقدمہ چلاکر سزا ہو سکتی ہے۔مظاہرین پر ان دفعات کے تحت مقدمے ہوتے رہے ہیں۔
لیکن پچھلے کچھ سالوں سے سرکار نے سیاسی مخالفین کو غیرفعال بنانے کے لیےیو اے پی اے کا استعمال شروع کر دیا ہے۔ یعنی اس کے ہر احتجاج کو وہ دہشت گردانہ کارروائی قرار دے اپنے مخالف کو دہشت گرد ثابت کرنا چاہتی ہے۔
یو اے پی اے ایک غیرمعمولی قانون ہے۔ وہ پولیس کو غیر معمولی اختیارر دیتا ہے اور فردکو اس کے سامنے اختیارات سے محروم کرتا ہے۔ ہم جیسے لوگ اس قانون کی ویسے ہی مخالف کرتے رہے ہیں جیسے پہلے ٹاڈا، پوٹا کا کرتے رہے تھے۔ وہ اس لیے کہ ان قوانین کا استعمال سرکاریں اپنے مخالفین اور سماج کے سب سے کمزور طبقوں کے خلاف کرتی آئی ہیں۔
کیا یہ تعجب کی بات ہے کہ ان قوانین کا استعمال آدی واسیوں، دلتوں اور مسلمانوں کے خلاف سب سے زیادہ کیا گیا ہے؟
دہشت گردی ایک الگ قسم کاجرم ہے۔ وہ باقی جرائم سے زیادہ سنگین ہے۔ یہ لگ بھگ ہر ملک مانتا ہے اس لیے اس سے نمٹنے کے لیے خاص قانونی انتظام چاہیے،دلیل یہ ہے۔ لیکن کس کارروائی کو دہشت گردانہ کارروائی کہا جائےگا؟ اس کی صحیح صحیح تعریف کیا ہے؟ اگر یہ یقینی نہیں کیا جاتا اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کو اپنی مرضی کے مطابق متعین کرنے کی چھوٹ پولیس یا سرکار کو دی جاتی رہےگی تو وہی ہوگا جو ہندوستان میں ہو رہا ہے۔
چونکہ یہ قانون ہی اتنا سخت ہے کہ باقی جگہ جو ملزمین کو راحت ملتی ہے، وہ اس میں نہیں مل سکتی تو جس جرم کے لیےیہ بنا ہے، اسے یقینی طریقے سے طے کرنا ہوگا۔ اسے ڈھیلے ڈھالے طریقے سے طے نہیں کیا جا سکتا۔
دہلی ہائی کورٹ نے ان فیصلوں میں یہی کہا ہے۔ اس کے مطابق سرکار کی مخالفت کرنے کاحق سب کو ہے۔ اس مخالفت میں اور دہشت گردانہ سرگرمی میں فرق ہے۔ وہ فرق دھندلا نہیں کیا جانا چاہیے۔
سرکار نے شہریت حاصل کرنے کی شرطوں میں تبدیلی کرنے کےلیے2019میں قانون (سی اےاے) بنایا۔ یہ قانون ہندوستانی شہریت کے سیکولرتصورکی خلاف ورزی کرتی ہے اور مسلمان پہچان کے خلاف امتیاز کرتی ہے کیونکہ اس نئی تعریف میں اسےشہریت کے اہل نہیں پایا گیا ہے۔
اس سے ہندوستان کے مسلمانوں اور سیکولر عوام میں عدم اطمیان اور ناراضگی کا ہونا فطری تھا۔ اس قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے کا ان کا اتنا ہی حق ہے، جتنا کھیتی کسانی سے جڑے قوانین کی مخالفت کرنے کا حق کسانوں کا ہے یاحصول اراضی سے متعلق ایکٹ کی مخالفت کرنے کا حق عوام کا تھا۔ یا اپنے گاؤں میں سی آر پی ایف کا کیمپ لگانے کی مخالفت کرنے کاحق آدی واسیوں کا ہے۔
تحریک کے دوران دھرنا دینا، کبھی کبھی سڑک جام کرنا، جلوس نکالنا، سارے کھلے طریقوں کا استعمال کیا گیا۔ دھرنے سے یا سڑک جام سے ممکن ہے کسی کوپریشانی ہو رہی ہو۔ لیکن اسے دہشت گردانہ کارروائی کس دلیل سے کہا جا سکتا ہے؟
یہ کہنا کہ اس مظاہرہ کی وجہ سےعوام میں دہشت پھیل گئی، دہشت لفظ کا غلط استعمال ہے۔ یہی بات عدالت نے سمجھائی ہے۔
میں نے سڑک جام کرکے عوام کے ایک حصہ کو پریشانی پہنچائی جس سے غصہ ہوکر اس نے تشدد کیا، اس لیے میں مجرم ہوں؛دہلی پولیس کی یہ دلیل سی اے اے کی مخالفت کرنے والے مظاہرین کے خلاف تشددکرنے والوں کی طرف سے دی گئی۔ آپ نے انہیں اتنا مشتعل کر دیا کہ انہیں تشدد کا سہارا لینا پڑا! یعنی ان کے تشدد کے لیے وہ نہیں، آپ ذمہ دار ہیں۔
یہ دلیل عورتیں سنتی آئی ہیں۔ انہوں نے اپنی حرکت سے شوہریا ساس، سسر کو اتنا چڑھا دیا کہ ان کا ہاتھ اٹھ گیا۔ عورت اپنے اوپرتشدد کے لیے اس طرح خود اکساوا دیتی ہے۔
دسمبر2019 سے سی اے اے کے خلاف دھرنے اور احتجاج چل رہے تھے۔ ان میں کہیں بھی کسی کمیونٹی کے خلاف تشددیانفرت کا کوئی پروپیگنڈہ نہیں کیا گیا۔ نہ تو سرکار گرانے کی ہی بات کی گئی۔ صرف سی اے اے کو واپس لینے کی مانگ کی جا رہی تھی۔ وہ کس حساب سے دہشت گردانہ سرگرمی تھی، یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔
اس تحریک میں زیادہ تر مسلمان تھے لیکن دوسرے عقائد کے لوگ بھی تھے۔ اپنے کھلے پن کی وجہ سے طلبا ہر جگہ اس تحریک میں شامل ہوئے۔مساوات اور سیکولرازم کے طرفدار ہونے کے ناطے وہ اس تقسیم کاری اور امتیازی قانون کے خلاف تھے۔
تحریک کے خلاف نفرت کا پوپیگنڈہ سرکار کی طرف سے کیا جا رہا تھا۔وزیر اعظم نے مظاہرین کو ان کے کپڑوں کے رنگ سے پہچاننے کو کہا۔ وزیر داخلہ نے دہلی اسمبلی انتخابات کے دوران پرچار کے مرحلےمیں اپنے ووٹرس کو کہا کہ وہ اتنی زور سے ای وی ایم کا بٹن دبائیں کہ اس کے کرنٹ کے جھٹکے سے شاہین باغ میں دھرنا دے رہی عورتیں اٹھ جائیں۔
وزیر مملکت نے مظاہرین کو غدار کہتے ہوئے انہیں گولی مارنے کے لیے اپنے ووٹرس کو اکسایا۔ دہلی سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رکن پارلیامان نے ہندوؤں کو کہا کہ شاہین باغ میں ریپ کرنے والے اور دہشت گرد چھپے بیٹھے ہیں اور وہ ان کے گھروں میں گھس کر ریپ کریں گے۔ اس سے یہ صاف ہے کہ مظاہرین کے خلاف تشددکو بھڑکایا جا رہا تھا۔
مظاہرہ کے دوران جعفرآباد کی سڑک کا ایک حصہ 22 فروری کی رات جام کیا گیا۔ 23 فروری کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رہنما نے پولیس کی موجودگی میں خود سڑک خالی کرنے کی دھمکی دی۔ اس کے بعد تشدد کے واقعات رونما ہوئے۔
اس میں 53 لوگ مارے گئے۔ سینکڑوں گھر دکانیں برباد کر دیے گئے۔ متعددمسجدیں تباہ کر دی گئیں۔ ہزاروں لوگ، اور ان میں مسلمان ہی زیادہ تھے، نقل مکانی کے لیے مجبور ہوئے۔ وہ نقل مکانی ابھی بھی جاری ہے۔
تشدد کا بھڑکاوا جو بی جے پی کےرہنماؤں کی طرف سے ہو رہا تھا، اس میں اور تشدد میں کیا رشتہ تھا؟ اس پر دہلی پولیس خاموش ہے۔ بلکہ اس تشددکی جانچ کو پولیس نے سر کے بل کھڑا کر دیا۔ اس نے مظاہرین کو ہی تشددکے لیے ذمہ دارقرار دے دیا۔
یہی نہیں ان پر دہشت پھیلانے کا الزام لگاکر یو اے پی اے کا استعمال ان کے خلاف کیا گیا۔ نتاشا، دیوانگنا، آصف، شرجیل، عمر، گل فشاں، صفورہ، خالد سیفی، عشرت وغیرہ پر تشددکی سازش کرنے کا الزام لگاکر یو اے پی اے کا استعمال ان کے خلاف کیا گیا۔
یو اے پی اے میں عدالت پر پابندی ہے کہ وہ مقدمہ شروع ہونے کے پہلے یہ جانچ نہیں کر سکتی کہ الزام میں دم ہے یا نہیں۔ اگر وہ یہ نہیں کر سکتی تو پولیس کی بات ماننے کے علاوہ اس کے پاس کیا چارہ ہے؟
اس کا مطلب یہی ہوا کہ مقدمہ شروع ہو، پھر اس دعوے کی جانچ ثبوتوں کی بنیاد پر کی جائے اور پھر عدالت کسی فیصلے پر پہنچے۔ تب تک وہ ملزم کو ضمانت بھی نہیں دے سکتی۔ اس میں سالوں سال لگ سکتے ہیں۔ تب تک صرف الزام کی وجہ سےوہ جیل میں رہنے کو مجبورہیں۔
نتاشا اور دیوانگنا کو اسی تشدد کے الزام میں دوسرے مقدموں میں ضمانت مل گئی لیکن ٹھیک اسی معاملے میں یو اے پی اے والے مقدمے میں چونکہ انہیں ضمانت نہیں مل سکتی تھی، سال بھر سے بھی زیادہ وقت سے وہ جیل میں تھیں۔ یو اے پی اے میں ضمانت ناممکن کر دیے جانے کے خلاف ماہرین قانون اور انسانی حقوق کے کارکن لمبے وقت سے مہم چلا رہے ہیں۔
ان تینوں کی ضمانت کے ساتھ ہی یہ خبر ملی کہ محمد الیاس اور محمد عرفان کو یو اے پی اے کے الزامات سے بری کر دیا گیا۔ اس میں9 سال لگے اور یہ سال انہوں نے جیل میں گزارے۔ اس بیچ 4 بار ان کی ضمانت کی عرضی خارج ہوئی۔ ان 9 سالوں کی بھرپائی کیسے ہوگی اور اس کا قصوروار کون ہے؟
یو اے پی اے کے اکثر معاملوں میں رہائی ہوئی ہے۔ سینکڑوں لوگوں کی۔ 7 سال، 14 سال، 17 سال جیل میں رہنے کے بعد۔ کیونکہ ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ اور یہ مجبوری خود سپریم کورٹ نے وٹالی کے معاملے میں پیدا کی۔ یعنی اپنے لیے بندھن بنایا۔
دہلی ہائی کورٹ نے انصاف کے بنیادی اصول پر عمل کرتے ہوئے پولیس کے الزامات کی سنجیدگی سے جانچ کی اور پایا کہ اس نےسیاسی مخالفت کو دہشت گردانہ سرگرمی مان کر ناانصافی کی ہے۔ معمولی تشدد کو بھی دہشت گردی کہنا مناسب نہ ہوگا۔ لیکن عدالت نے احتیاط برتا ہے کہ اس نے وٹالی والے سپریم کورٹ کے فیصلے پر سوال نہیں اٹھایا ہے۔ اس بندش کو چیلنج نہیں دیا گیا ہے۔
اب دہلی پولیس سپریم کورٹ کے پاس گئی فریاد لگاتے ہوئے کہا کہ دہلی ہائی کورٹ نے یو اے پی اے کو کمزور کر دیا ہے۔دہلی پولیس نے جس طرح ضمانت دے دیےجانے کے بعد بھی ان تینوں کی رہائی میں جتنے اڑنگے لگائے اسی سے ظاہر ہے کہ اس کے سامنے جرم مسئلہ نہیں ہے، وہ مظاہرین کو ہر طرح سے تباہ کرنا چاہتی ہے، یہی ثابت ہوا ہے۔
اس کا یہ کہنا کہ ملزمین کے مستقل پتوں کی جانچ کرنے میں اسے وقت لگےگا، کتنامضحکہ خیز ہے۔ اب وہی پولیس سپریم کورٹ کے پاس اس ضمانت کو رد کرانے پہنچ گئی۔
امید بندھی تھی کہ دہلی ہائی کورٹ نے جو کھڑکی کھولی ہے اس کی روشنی ممبئی اور دوسری عدالتوں میں پہنچے گی تاکہ بھیما کورگاؤں معاملے میں یو اے پی اے ایک تحت 3 سال سے جیل میں بند سدھا بھاردواج اور اسٹین سوامی اور باقی 14 لوگوں کو کم از کم ضمانت مل سکے۔ ابھی تین دن پہلے ہی صحافی صدیق کپن پر امن وامان کو متاثر کرنے سے متعلق الزام متھرا کی عدالت نے رد کیے ہیں، لیکن یو اے پی اے کی وجہ سے وہ جیل میں ہیں۔ ان سب کو اس فیصلے سے راحت مل سکتی تھی۔
لیکن جو خدشہ تھا، وہ سچ ثابت ہوا۔ سپریم کورٹ کو یہ ناگوار گزرا کہ دہلی کا ہائی کورٹ اس قانون کے مقاصد کاتجزیہ کرکے اس کی تعریف طے کرنے کی کوشش کرے۔ اس لیے اس نے انصاف کی طرف بڑھے قدموں میں پھر زنجیر ڈال دی ہے۔
لیکن دہلی ہائی کورٹ نے جو اصولی سوال اٹھائے ہیں، ان کا جواب تو اسے دینا ہی ہوگا۔ اس جواب سے ثابت ہوگا کہ وہ ہندوستانی عوام کے حق میں ہے یا وہ بھی اس پر کنٹرول کا ایک اوزار بھر ہے۔
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر