دہلی فسادات معاملے میں ملزم جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اسٹوڈنٹ آصف اقبال تنہا نے ہائی کورٹ میں عرضی دائر کرکے الزام لگایا تھا کہ متعلقہ عدالت کےنوٹس لینے سے پہلے ہی جانچ ایجنسی کے ذریعے درج ان کے بیان کو مبینہ طور پر میڈیا میں لیک کرکے پولیس افسروں نےبدعنوانی کی ہے۔
نئی دہلی:دہلی فسادات کےایک ملزم نے بدھ کو دہلی ہائی کورٹ کے سامنےالزام لگایا کہ جانچ کے بارے میں میڈیا کو حساس جانکاری لیک کرنے کے معاملے میں پولیس کی طرف سے کی گئی انٹرنل جانچ کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور یہ ایک دکھاوا ہے۔اس کی جانچ ایک آزادانہ محکمے کےذریعےکی جانی چاہیے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کےاسٹوڈنٹ آصف اقبال تنہا، جو دہلی فسادات کی سازش کے معاملے میں ملزم ہیں ، نے ہائی کورٹ کو بتایا کہ جانچ کے دوران حساس جانکاری(مبینہ اقبالیہ بیان)ان لوگوں کو لیک کر دی گئی، جن کے پاس یہ نہیں ہونی چاہیےتھی۔
تنہا نےاپنے وکیل کے ذریعےمبینہ اقبالیہ بیان کے بارے میں شائع خبروں کو ہٹانے اور ذمہ دارپولیس افسروں کےخلاف جانچ کی مانگ کی۔جسٹس مکتا گپتا کےسامنے ان کے وکیل نے کہا کہ جن لوگوں کی جانچ کی جانی ہے، ان سے جانچ کو الگ رکھنا ضروری ہے۔
تنہا کی طرف سے پیش سینئر وکیل سدھارتھ اگروال نے کہا، ‘اگر پوچھ تاچھ سےنتیجہ نہیں مل رہا ہےتو اگلے مرحلے میں جانا اہم ہے جو کہ جانچ ہے۔’تنہا کو مئی2020 میں گرفتار کیا گیا تھا اور گزشتہ15 جون کو دہلی ہائی کورٹ نے یواے پی اےکے تحت گرفتار آصف تنہا کو نتاشا نروال اور دیوانگنا کلیتا کے ساتھ ضمانت دے دی تھی۔
معاملے کی اگلی شنوائی ایک اکتوبر کو ہوگی۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، اگروال نے کہا، مجوزہ جانچ کو اب ان سے (پولیس)الگ کرنا ہوگا۔ ان پر اپنے خودکے معاملوں کی جانچ کرنے کے لیے بھروسہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔’اگروال نے کہا کہ پولیس نے شروع میں میڈیا میں موادلیک ہونے سے خود کے پریشان ہونے کا دعویٰ کیا تھا، لیکن اب وہ اس جانچ کی پرزور مخالفت کر رہی ہے کہ اس کا اپنا مواد کیسے لیک ہوا۔
دہلی پولیس نے عرضی کے جواب میں عدالت کو بتایا تھا کہ وہ ان افسروں یا دفتر کا پتہ لگانے میں ناکام رہی ہے جہاں سے جانچ کی تفصیلات میڈیا کے ساتھ شیئر کی گئی تھی، کیونکہ صحافیوں نے اپنے ذرائع کاانکشاف کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
اگروال نے بدھ کو اسے ‘بہانہ’قرار دیا اور کہا کہ پولیس کے پاس لفظوں کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔اگروال نے معاملے میں اپنی دلیلوں کے دوران کہا کہ لیک کیسے ہوا، اس کا پتہ لگانے کے لیےتفصیلی جانچ کی ضرورت ہے۔
تنہا کے وکیل نے عدالت کے سامنے یہ تبصرہ بھی کیا کہ یہ اب استغاثہ اور جانچ ایجنسیوں کی فطرت نہیں بلکہ ‘اتھارٹی’ بنتی جا رہی ہے، جس کے تحت معاملوں کے بارے میں پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے، جس کے باعث ملزم کو پریشانی اٹھانی پڑتی ہے۔
اگروال نے کہا، ‘یہ ایسے معاملے ہیں جو کورٹ روم کے اندر کم اور کورٹ روم کے باہر زیادہ لڑے جاتے ہیں۔’اگروال نے دلیل دی کہ دہلی پولیس اپنی تمام اندرونی پوچھ تاچھ کے باوجود عدالت کو کوئی جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
انہوں نے کہا، ‘دہلی پولیس کسٹوڈین ہے اور اسے اس کا جواب دینا چاہیے۔’
معلوم ہو کہ اس سے پہلےدہلی پولیس نے ایک اسٹیٹس رپورٹ میں ہائی کورٹ کو مطلع کیا تھا کہ جانچ میں یہ پتہ نہیں چل سکا ہے کہ دہلی فسادات کی تحقیقات کی تفصیلات میڈیا کو کیسے ملی تھی۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اسٹوڈنٹ آصف اقبال تنہا نے پچھلےسال دہلی ہائی کورٹ میں عرضی دائر کرکےالزام لگایا تھا کہ متعلقہ عدالت کے نوٹس لینے سے پہلے ہی جانچ ایجنسی کے ذریعے درج ان کے بیان کو مبینہ طورپر لیک کرکے پولیس افسروں نے بدسلوکی کی ہے۔ یہ بیان چھان بین کے دوران جانچ افسروں نے درج کیا تھا۔
عدالت نے پولیس کو ملزم کےاقبالیہ بیان کے لیک ہونے کی ویجیلنس انکوائری رپورٹ دائر کرنے کی ہدایت دی تھی۔گزشتہ مارچ میں عدالت نے دہلی پولیس کی ویجیلنس انکوائری رپورٹ پرعدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسے ردی کا کاغذ بتایا تھا۔
عدالت نے کہا تھا کہ اگر جانچ یہ پتہ لگانے میں ناکام ہے کہ کیا ہواتو سخت احکامات صادر کیے جا ئیں گے اور پولیس کو یہ پتہ لگانا ہوگا کہ لیک کہاں سے ہوا تھا۔
اس کے بعد 5 مارچ کو عدالت نے دہلی پولیس کمشنر کو حلف نامہ دائر کرکےجانکاری کو میڈیا میں لیک کرنے کے لیے ذمہ دارشخص کی جوابدہی طے کرنے کو کہا تھا۔
زی نیوز اس معاملے میں الزامات کا سامنا کرنے والے اہم میڈیااداروں میں سے ایک ہے۔ ہائی کورٹ نے فسادات معاملے میں تنہا کے مبینہ قبولنامے کی نشریات پرزی نیوز سے سوال کیا تھا اور کہا تھا کہ اس طرح کے دستاویز کو باہر لاکر شائع نہیں کیا جا سکتا ہے۔
عدالت نے میڈیا ہاؤس کو ہدایت دی تھی کہ وہ ایک حلف نامہ داخل کرے، جس سے اس ذرائع کا نام پتہ چلے جس سے متعلقہ صحافی کو دستاویز ملے تھے۔
جامعہ کے اسٹوڈنٹ آصف اقبال تنہا کو پچھلے سال شمال -مشرقی دہلی میں فرقہ وارانہ تشددسےمتعلق ایک معاملے میں مئی 2020 میں گرفتار کیا گیا تھا۔
پولیس نے کہا تھا کہ شاہین باغ میں ابوالفضل انکلیو کے رہنے والےتنہا اسٹوڈنٹ اسلامی آرگنائزیشن کے رکن تھےاورجامعہ کوآرڈنیشن کمیٹی کا حصہ تھے، جس نے شہریت قانون (سی اےاے)کے خلاف احتجاج کیا تھا۔
بتادیں کہ 24 فروری2020 کو شمال مشرقی دہلی میں سی اےاے کےحامیوں اور اس کے مخالفین کے بیچ فرقہ وارانہ تشدد ہوا تھا۔ تشدد میں تقریباً53 لوگ مارے گئے تھے اور لگ بھگ 200 لوگ زخمی ہو گئے تھے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں