سال 2014 کےبعدتشددجیسےاس معاشرے کےپور پورسے پھوٹ کر بہہ رہا ہے۔ یہ کہنا پڑے گا کہ ہندوستان کی ہندو برادری میں تشدد اور دوسری برادریوں کے تئیں نفرت کا احساس بڑھ گیا ہے۔غیر ہندو برادریوں میں ہندو مخالف نفرت کےپروپیگنڈے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔یہ نفرت اور تشددیکطرفہ ہے۔
ہندوستان کو خانہ جنگی میں دھکیلا جا رہا ہے۔اس تشویش کا اظہار گزشتہ دنوں میں کئی بار کیا جا چکا ہے۔ ایک مباحثے کےدوران ایک سینئر صحافی کو، جن پر آر ایس ایس کے لوگ چاہیں بھی تو لیفٹسٹ ہونے کا الزام نہیں لگا سکتے، بڑے دکھ اور صدمے کے ساتھ اس خدشے کا اظہار کرتے ہوئے دیکھا۔
اگر بدنام زمانہ سیکولر ایسا کریں تو ان پر الزام لگایا جا سکتا ہے کہ وہ بیکار ہی ہمارے اندر خوف پیدا کرنے کی مذموم سازش کر رہے ہیں۔لیکن جو لوگ ہمیں اس مستقبل کے بارے میں خبردار کر رہے تھے، وہ اس خانےمیں نہیں آتے۔اس لیے ان کی بات انہیں سننی چاہیے جو امرتیہ سین یا ارونا رائے یا میدھا پاٹکر کےکچھ کہتے ہی ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔
تعجب نہیں ہوگااگرانہیں بھی مشورہ دیا جائےکہ یہ اپنے خدشات کو دل میں ہی رکھیں، ہندوستان توصحیح راستے پر آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے اور جلد ہی پوری دنیا اسے وشو گرو کا خطاب دے کر اس کے آگے سر خم کرنے والی ہے۔ ایسی منفی باتیں کر کے اس فتح کامل کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈالیں، ان کی سرزنش کی جاسکتی ہے۔
ہمارے صحافی دوست کی تشویش قابل توجہ ہے۔ وہ گڑگاؤں کے رہنے والے ہیں۔ وہ یہ دیکھ کر حیران ہیں کہ گزشتہ کئی مہینوں سے جمعہ کی نماز میں پرتشدد طریقے سے خلل ڈالا جا رہا ہے۔کیا سوپچاس لوگ نماز نہیں پڑھ سکتے؟ یہ کیا مذاق ہے؟جس کو21ویں صدی کا ہندوستانی شہر کہلانے کا دعویٰ ہے، اس کی سول سوسائٹی میں اتنی طاقت نہیں ، یا ارادہ نہیں کہ وہ اس تشدد کو روکنے کے لیےسامنے آئیں؟
اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ دھرم سنسدوں میں مسلمانوں کے قتل عام کی اپیل تھی۔ اس کی اجازت ہی کیسے دی جا سکتی ہے؟ ایسا کر کے وہ آزادی سے کیسے گھوم سکتے ہیں؟ آخر پولیس کیا کر رہی ہے؟ اس ملک کی سیاسی قیادت خاموش کیوں ہے؟
سوال واجب ہیں۔ جس کو اس ملک سے تھوڑی سی بھی ممتا ہوگی، اس کا دل ان کے خوف سے کانپ رہا ہوگا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ملک سے ممتا شایدبہت کم کو ہے۔
ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں جو ملک کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں۔ وہ ملک یا قوم کی پوجا کرتے ہیں، لیکن وہ ہے کروڑوں دھڑکتے دلوں اور ذہنوں کا نام، یہ احساس ان میں شاید ہی ہو۔ اپنےہم وطنوں سے ہمدردی ہی حب الوطنی ہے، یہ سمجھنا شاید بہت مشکل ہو گیا ہے ۔ یہ خیال کیا جانے لگا ہے کہ سب کو اپنے چابک سے چلانا، اور اپنا دبدبہ قائم کرنا ہی جرأت مندی ہے۔
اسےاگر ہندوستان کے باہر کا کوئی پڑھے تو اسے لگے گا کہ یہ ہندوستان کی تمام برادریوں کے لیے کہا جا رہا ہے۔ اس لیےیہ واضح کرنا ہوگا کہ یہ تشدد ہندو سماج میں جڑ پکڑ رہا ہے۔ یا یہ کہنا درست ہوگا کہ اس تشدد نے ہندو سماج کی اکثریت کو اس قدر گرفت میں لے لیا ہے کہ اس کی نجات مشکل ہی دکھائی دیتی ہے۔
گزشتہ چند دہائیوں سےاسےتشدد کی تربیت دی جا رہی ہے۔بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف نفرت کا پرچار اس معاشرے میں کوئی 150 سال سے کیا جا رہا ہے۔
مسلمان اور عیسائی گھس پیٹھیے ہیں، ہندوؤں کی زمین اور ان کےوسائل پرانہوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ ا ہندوستان کی ثقافت کو انہوں نےمسخ کردیا ہے۔ وہ اپنی تعداد بڑھاتے جا رہے ہیں۔ اس لیے مسلمانوں اور عیسائیوں کو قابو کرنا ضروری ہے۔ یہ پروپیگنڈہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے پورے نظام کے ذریعے کیا جا رہا ہے، جس میں اس کی شاکھائیں، اس کے اسکول اور بہت سے ادارے شامل ہیں، تقریباً 100 سالوں سے پورے ہندوستان میں چلایا گیا ہے۔ کیا حیرت کہ ہندو سماج کا ایک بڑا طبقہ اس پروپیگنڈے کے پھندےمیں گرفتار ہے!
ہندوستان کے نوآبادیاتی دور سے نکلنے اور ایک آئینی قومی ریاست کے طور پر اس کی تشکیل کے بعد سے، ریاست اورمعاشرےکےتمام بااثرعہدوں پر ہندو ہی رہے۔وزیر اعظم کے طور پرایک مسلمان کا تصور شیخ چلی کی اڑان ہے۔
آج تک ہوئےوزرائے اعلیٰ میں مسلمان انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ زیادہ تر اسمبلی، پارلیامانی حلقوں سےنمائندےہندوہی چنےگئے۔ایڈمنسٹریشن ہو یا پولیس یا فوج، ہندوؤں کا ہی دبدبہ رہا۔
ابھی ہم ذات پات کی بات نہیں کر رہے۔ریاستی رسومات میں ہندوانہ رسومات کی پیروی کی جاتی رہی ہے۔ زیادہ تر تعلیمی اداروں اور دیگر ریاستی اداروں نے اپنے لیےقابل تقلید قول سنسکرت سے ہی لیے۔اس کے باوجود یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا رہا کہ ہندوستان سے ہندو پن غائب ہو رہا ہے، اس پر اسلامی اور عیسائی رنگ حاوی ہو رہا ہے۔ اور ہندو اس پر یقین کرتے رہے۔ ایسے غیر محفوظ اور احساس کمتری میں مبتلا ہندوؤں کی تعداد بڑھتی ہی چلی گئی۔
اس موضوع پر بات کی جا سکتی ہے اوراس کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا لیکن سچ یہ ہے کہ اس ثنویت پرہم نے کبھی ایمانداری سے بات نہیں کی۔ یہاں تک کہ جو دانشور سیکولرازم کو ہندوستانی ثقافت کے لیے خطرہ قرار دیتے رہے، انہوں نے بھی ٹھہر کر غور نہیں کیا کہ وہ ایک جھوٹ پر یقین کر رہے تھے اوراس کو نظریے میں تبدیل کررہے تھے۔
اس پروپیگنڈے میں چھپی یا کھلی مسلم اور عیسائی مخالف نفرت کو پرتشدد ہی کہا جائے گا لیکن 2014 کے بعد یہ تشدد جیسےاس معاشرے کے پور پور سے پھوٹ کربہہ رہا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا ہوگا کہ ہندوستان میں ہندو برادری میں تشدد اور دیگر برادریوں سے نفرت کا احساس بڑھ گیا ہے۔ غیر ہندو برادریوں کے درمیان ہندو مخالف نفرت کےپروپیگنڈے کی مثالیں نہیں ملتی ہیں۔ یہ نفرت، تشدد یکطرفہ ہے۔
نفرت انگیز پروپیگنڈہ اور پرتشدد حملہ افراد اور برادریوں پر،ہندو گروہوں کی طرف سے کیے جا رہے ہیں۔ پورے ہندوستان میں پولیس اکثر حملہ آوروں کے ساتھ ہوتی ہے اور عدالتیں ہندو وژن کو ہندوستانی نظریہ مانتی نظر آتی ہیں۔ جیسا کہ ہمارے دوست نے کہاکہ یہ تشدد اب حد پار کر رہا ہے۔ جن پر یہ تشدد کیا جا رہا ہے، وہ برادریاں کیا کر رہی ہیں؟ کیا انہوں نے اپنے دفاع کا کوئی طریقہ سوچنا بھی شروع کیا ہے؟
اب تک وہ یہ مان رہے ہیں کہ اپنے تحفظ کے لیے اقدامات کرنا ان کا کام نہیں، یہ ریاست کے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں تشدد سے بچائیں۔ ابھی تک وہ پولیس، انتظامیہ اور عدالت سے مایوس نہیں ہوئے ہیں، حالانکہ ان میں سے کسی کا بھی ریکارڈ تسلی بخش نہیں ہے۔
اس کے باوجود مسلمان اور عیسائی جمہوری اور آئینی راستے پرہی چل رہے ہیں۔ لیکن انہیں کہیں سے تحفظ نہیں مل رہا ہے۔
جو بات دل میں تھی، اب کھلے عام کہی جا رہی ہے۔مسلمانوں اور عیسائیوں کا قتل عام، ان کی عورتوں کو پر قبضہ کرنا ہندو کا قومی فریضہ ہے، یہ بات روز روزسرعام کہی جارہی ہے۔
ہندوستان کے وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور کئی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ ہندوؤں کو مسلمانوں اور عیسائیوں کےخلاف اکسا رہے ہیں۔اپنے بیانات میں وہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں اور ہندوؤں کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ انہیں ان سے بچائیں گے۔
‘اباجان والے راشن کھاجاتے تھے، قبرستان کی دیوار کا پیسہ تیرتھ میں لگ رہا ہے، نظام راج ختم کیا جا رہا ہے،(مسلمان)مجرموں کے ساتھ اب جیل-جیل کا کھیل ہو رہا ہے، پہلے دہشت گردوں کو کھلاچھوڑ دیا جاتا تھا، اب ان کے ہوش ٹھکانےآ گئے ہیں’۔ یہ سب ہندوستان کے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ بتا رہے ہیں۔ وہ کس سے مخاطب ہیں؟ظاہری طور پر ہندوؤں سے۔
مسلمان اور عیسائی کو روز روز نئے اور بیہودہ طریقوں سے ذلیل کیا جاتا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی وہ تشدد کا نشانہ بننے کے لیے ملعون ہیں۔ ایسی حالت میں انہیں کیا کرنا چاہیے؟ اگر پریم چند ہوتے تو وہ سو سال پہلے لکھی اپنی بات ہمیں یاد دلاتے:کوئی بھی عزت دار قوم اپنی ذلت دیر تک برداشت نہیں کر سکتی۔ اسے کرنانہیں چاہیے۔
لیکن ہندو گروپوں کے تشدد کی اب تک کوئی پرتشدد جوابی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ پھر کس خانہ جنگی کی بات کی جارہی ہے؟
ہمارے دوست کی تشویش سے اس گڑبڑی کا پتہ چلتا ہے جو کئی بھلے لوگوں کے سوچنے کے طریقےمیں ہے۔انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں اسلامی’ریڈیکلائزیشن’جاری ہے۔ انہیں ڈر ہے کہ روزانہ کے تشدد سے تنگ آکر کہیں ہندوستان کے مسلمان اس راستے نہ چل پڑیں۔ پھر بچنا مشکل ہوگا!
یعنی اصل تشویش یہ ہے کہ مسلمانوں کا ایک چھوٹا سا طبقہ بھی ‘اس’ راستے نہ چل پڑے! جبکہ گزشتہ 7سب سے خوفناک سالوں میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔مسلم تنظیمیں بھی آئینی حل کے علاوہ کوئی بات نہیں کر رہی ہیں۔
اس لیے خانہ جنگی کہہ کر جب ہم ہندوؤں کو اس تشدد سے باز آنے کو کہتے ہیں اور یہ کہہ کر کہ کہیں مسلمان ریڈکلائز ہوگیا توپھر مسلمانوں کے بارے میں اسی تعصب کو اور زیادہ زور دیتے ہیں۔ اس سے لگتا ہے کہ مسلمانوں کا تشدد زیادہ خوفناک ہوتا ہے اس لیے ہندو سنبھل جائیں۔ لیکن یہ سوچنے کا صحیح طریقہ نہیں ہے۔
اصل اور طویل مدتی مسئلہ ہندوؤں کےمتشدد اور فحش ہوتے جانے کا ہے۔ ابھی مسلم خواتین کی نیلامی کرنے والے ملزمین کی عمر دیکھ کر ہندو والدین اور گھروالوں کو خبردار ہوجانا چاہیے۔ ایک 18 سالہ ہندو لڑکی اور ایک 21 سالہ ہندو نوجوان پر اس نفرت انگیز مہم کا الزام ہے۔
ہمارے گھروں میں تشدد اور جرائم پل رہے ہیں۔مسلمان’ریڈیکل’ہو جائیں،اس سے ڈر کراپنے تشدد پر ہم لگام لگائیں، یہ گھوڑے کے آگے گاڑی باندھ دینا ہے۔
ہندوؤں کے نام پر تشدد اس ملک کو تباہ کر دے گا، ہندوؤں کو برباد کر دے گا، یہ سب ٹھیک ہے۔ لیکن وہ اس وقت مسلمانوں اور عیسائیوں کو تباہ کر رہا ہے۔ وہ انہیں تباہ کر رہا ہے۔ اور یہی کافی ہے کہ اس تشدد کو فوراً روکا جانا چاہیے۔ وہ تشدد پر آمادہ ہو جائیں گے، اس خوف کی وجہ سے نہیں۔
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر