پارلیامنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں صدرجمہوریہ کے خطاب پر لوک سبھا میں شکریے کی تحریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے راہل گاندھی نے مودی حکومت کو سخت نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ نریندر مودی حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے آج ملک کو اندرونی اور بیرونی محاذ پر بڑے خطرات کا سامنا ہے۔
نئی دہلی: کانگریس کےسابق صدر اور رکن پارلیامنٹ راہل گاندھی نے بدھ کو بالواسطہ طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کونشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ملک کو ‘شہنشاہ’ کی طرح چلانے کی کوشش ہو رہی ہے اور اس حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سےآج ملک کو اندرونی اور بیرونی محاذوں پر ‘بڑے خطرے’ کا سامنا ہے۔
پارلیامنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں صدر کے خطاب پر شکریے کی تحریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے راہل گاندھی نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ آج چین اور پاکستان مرکزی حکومت کی پالیسی کی وجہ سے ایک ساتھ آگئے ہیں۔
انہوں نے الزام لگایا کہ نریندر مودی کی حکومت میں دو ہندوستان بن گئے ہیں، جن میں سے ایک امیروں کے لیے اور دوسرا غریبوں کے لیے ہے۔ راہل گاندھی نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ خطاب میں ملک کو درپیش بڑے چیلنجز کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
گاندھی نے حکمراں بی جے پی پر ‘ہندوستان کا راجا’ ہونے کے نظریےجسے ‘1947 میں ختم کر دیا گیا تھا’ کو واپس لانے کا الزام لگایااور نریندر مودی پر یہ کہتے ہوئے حملہ کیا کہ ‘ایک راجا ہونے کا نظریہ واپس آ گیا ہے’۔
انہوں نے کہا، ہندوستان کو آئین میں ریاستوں کے یونین کے طور پر بیان کیا گیا ہے نہ کہ ایک ملک کے طورپر۔ ہندوستان میں ایک ریاست کے لوگوں پر کوئی حکومت نہیں کر سکتا ہے۔ مختلف زبانوں اور ثقافتوں کو دبایا نہیں جا سکتا۔ یہ شراکت داری ہے، کسی کا راج نہیں۔
تعاون پر مبنی وفاقیت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہندوستان پر دہائیوں تک حکمرانی کرنے کا واحد راستہ بات چیت ہی رہا ہے۔
انہوں نے کہا، کانگریس نے 1947 میں ہی بادشاہ بننے کے تصور کو ختم کر دیا تھا، لیکن اب یہ واپس آ گیا ہے۔ ایک ایسا نظریہ ہے کہ ملک کو صرف مرکز کی لاٹھی سے ہی چلایا جاسکتا ہے، لیکن جب بھی ایسا ہوا ہے، ایسے ڈنڈے کوتوڑ دیاگیاہے۔
تقریباً چالیس منٹ کی تقریر میں انہوں نے کہا، آپ ہندوستان میں حکومت کرنے والی کسی سلطنت کو دیکھ لیجیے۔ آپ اشوک اعظم کو دیکھ لیں، موریہ سلطنت کو دیکھ لیں، آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ آپسی بات چیت کے ذریعے ہی حکومت ہوتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ مرکز کی بی جے پی حکومت مختلف ریاستوں کی آوازوں کو دبا رہی ہے، لیکن اسے یہ احساس نہیں ہے کہ ملک کے ادارہ جاتی ڈھانچے پر حملے کا ردعمل ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘میرے پرنانا (جواہر لعل نہرو) اس ملک کو بنانے کے لیے ہی 15 سال تک جیل میں رہے، میری دادی (اندرا گاندھی) کو 32 گولیاں ماری گئیں اور میرے والد (راجیو گاندھی) کو بم سے اڑا دیا گیا۔ انہوں نے اس ملک کو بنانے کے لیے اپنی قربانی دی۔ اس لیے مجھے تھوڑا بہت علم ہے کہ ملک کیاہے۔
راہل گاندھی نے کہا، آپ خطرے سے کھیل رہے ہیں۔ میرا مشورہ ہے کہ رک جائیے۔ اگر آپ باز نہ آئے تو مسائل پیدا کریں گے۔ مسئلہ پہلے ہی شروع ہو چکا ہے۔
گاندھی نے یہ بھی الزام لگایا کہ حکومت کے پاس تاریخ کے بارے میں کوئی نظریہ نہیں ہے اور وہ ایک شہنشاہ کےتصور کے تحت ریاستوں کے فیڈریشن کے تصور کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا، اس ملک کے دو نظریات ہیں۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ ملک ریاستوں کا فیڈریشن ہے، جس کا مطلب ہے کہ فیصلے بات چیت اور مکالمے کے ذریعے کیے جائیں گے؛ یعنی مساوی اشتراک کے ذریعے۔ دوسرا نظریہ ملک کو ‘شہنشاہ’ کی طرح چلانے کا ہے۔ اس نےتین ہزار سالوں میں کبھی کام نہیں کیا۔ بی جے پی کے اس طرح کے غلط نظریےنے ہمارے ملک کو کمزور کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہندوستان کمزور ہو رہا ہے اور مکمل طور پر تنہا ہو گیا ہے۔ انہوں نے یوم جمہوریہ کی تقریبات میں مہمان خصوصی کے طور پر کسی غیر ملکی شخصیت کی غیر حاضری پر بھی سوالات اٹھائے۔
انہوں نے کہا، ہم سری لنکا، نیپال، برما، پاکستان، افغانستان، چین سے گھرے ہوئے ہیں۔ہر جگہ ہم گھرے ہوئے ہیں۔ ہمارے مخالفین ہماری پوزیشن کو جانتے ہیں۔
سرحد پر چین کی جارحیت اور پاکستان کی سرحد سے متعلق چیلنجز کا حوالہ دیتے ہوئےانہوں نے کہا، آپ خطرے کو ہلکے میں نہ لیں۔ آپ چین اور پاکستان کو ساتھ لا چکے ہیں، یہ ہندوستان کے لوگوں کے خلاف سب سے بڑا جرم ہے۔
انہوں نے کہا، مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ چین کے پاس واضح منصوبہ ہے۔ اس کی بنیاد ڈوکلام اور لداخ میں رکھ دی گئی ہے۔ یہ ملک کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ آپ نے جموں و کشمیر اور خارجہ پالیسی میں بہت بڑی اسٹریٹجک غلطیاں کی ہیں…آپ نے دو محاذوں کو ایک محاذ میں تبدیل کر دیا ہے۔
راہل گاندھی نے دعویٰ کیا،میں صاف کہہ رہا ہوں کہ ہم نے بڑی غلطیاں کی ہیں۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہم چین کے خلاف اپنا دفاع کر سکیں۔ یاد رکھیں میں کیا کہہ رہا ہوں۔ اگر کچھ ہوا تو آپ ذمہ دار ہوں گے۔ آپ ہماری بات سنیں۔ ہمارے پاس ایسے لوگ ہیں جو ان مسائل کی گہری سمجھ رکھتے ہیں۔
کانگریس لیڈر نے کہا، آج ملک کو بڑے خطرے کا سامنا ہے۔ یہ خطرہ اندرونی بھی ہے اور بیرونی بھی۔ میں اپنے وطن عزیز کو اس حالت میں نہیں دیکھ سکتا۔ یہ دیکھ کر مجھے تکلیف ہوتی ہے۔
راہل گاندھی نے مرکزی حکومت پر ملک کے وفاقی ڈھانچے پر حملہ کرنے کا الزام لگایا اور دعویٰ کیاکہ، بی جے پی تذبذب میں ہے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ بی جے پی کو لگتا ہے کہ ملک کی مختلف زبانوں، ثقافتوں اور تاریخ کو پس پشت ڈالا جا سکتا ہے۔
بے روزگاری کو لے کر حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے کانگریس لیڈر نے کہا کہ صدر کے خطاب میں نوکریوں کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
انہوں نے کہا،صدر کا خطاب اسٹریٹجک کے بجائے بیوروکریٹک خیالات کاایک مجموعہ تھا، مجھے ایسا لگا جیسے یہ قیادت کے نقطہ نظر سے نہیں بلکہ بیوروکریٹس کے ایک گروپ نے بنایا ہے۔
کانگریس لیڈر نے کہا، خطاب میں بہت سے اسٹریٹجک مسائل کو چھوا نہیں گیا ہے۔ کئی بڑے چیلنجز کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اس میں تین بنیادی موضوعات پر بحث نہیں کی گئی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب دو ہندوستان ہیں۔ ایک امیروں کا ہندوستان ہے، دوسرا ہندوستان غریبوں کے لیے ہے۔ ان کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا،آپ میڈ اِن انڈیا، میڈ اِن انڈیا، میڈ اِن انڈیا کی بات کرتے رہتے ہیں، میڈ اِن انڈیااب ممکن نہیں ہے۔آپ نے ‘میڈ ان انڈیا’ کو تباہ کر دیا ہے۔ آپ کو چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کے ساتھ کی ضرورت ہے، ورنہ ‘میڈ ان انڈیا’ ممکن نہیں ہے۔ چھوٹے اور مجھولے درجے کی صنعتیں ہی روزگار پیدا کرسکتی ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا، خطاب میں بے روزگاری کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں ہے۔ آج ملک کا نوجوان روزگار کی تلاش میں بھٹک رہا ہے۔ یہ حکومت روزگار نہیں دے پا رہی ہے۔
راہل گاندھی نے الزام لگایا،گزشتہ سال تین کروڑ نوجوانوں نے نوکریاں گنوائیں۔ ملک میں گزشتہ 50 سالوں میں سب سے زیادہ بے روزگاری آج ہے…اس حکومت نے غیرمنظم شعبے اور چھوٹے کاروباروں پر حملہ کیا۔نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کو غلط طریقے سے لاگو کرکے یہ حملہ کیا گیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ‘میک ان انڈیا’ کو غیر منظم شعبے میں لاگو نہیں کیا جا سکتا، یہ شعبہ برباد کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا، آپ میڈ ان انڈیا، اسٹارٹ اپ انڈیا وغیرہ کی بات کرتے رہتے ہیں اور بے روزگاری صرف بڑھ رہی ہے۔ یو پی اے حکومت نے 10 سالوں میں 27 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا، لیکن اس حکومت نے 23 کروڑ لوگوں کو غریبی میں پہنچا دیا۔
انہوں نے کہا، مجھے بڑی صنعتوں سے کوئی مسئلہ نہیں، ان پر توجہ دیں، لیکن یہ جان لیں کہ بڑی صنعتیں روزگار نہیں پیدا کر سکتیں۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتیں ہی نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کر سکتی ہیں۔
نوکریوں کو لے کر بہار میں ریلوے امیدواروں کےاحتجاج کا حوالہ دیتے ہوئے کانگریس کے رکن پارلیامنٹ نے کہا کہ حکومت نوکریاں دینے میں نااہل ہے۔
وزیر اعظم کو نشانہ بناتے ہوئے کانگریس لیڈر نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ کوئی کنگ ہے، شہنشاہ ہے، حکمرانوں کے حکمراں ہیں…کسان ایک سال تک بیٹھے رہے، لیکن کنگ ان کی باتوں سے متفق نہیں ہوئے۔
گاندھی نے حکومت پر عدلیہ، الیکشن کمیشن اور پیگاسس اسپائی ویئر کا استعمال’ریاستوں کے فیڈریشن کی آواز کو ختم کرنے کےاوزار’ کے طور پر کرنے کا الزام بھی لگایا۔
راہل نے یہ بھی کہا، ‘میں وزیر اعظم کو مشورہ دیتا ہوں کہ آپ دو ہندوستان بنا رہے ہیں۔ مہربانی کرکے دونوں ہندوستان کو ایک ساتھ لانے کی سمت میں کام کریں جس کو آپ کی حکومت نے بنایا ہے۔
کانگریس لیڈر نے الزام لگایا کہ ملک کی دولت چند لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔ دو صنعتکاروں کا حوالہ دیتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا، کورونا کے وقت کئی ویرینٹ آتے ہیں، لیکن ایک ‘ڈبل اے’ ویرینٹ ہے جو ملک کی معیشت میں بڑھ رہا ہے۔
کانگریس لیڈر نے کہا کہ منی پور کے ایک سیاسی رہنما نے انہیں بتایا کہ وزیر داخلہ سے ملاقات کے دوران مبینہ طور پرانہیں جوتے اتارنے کے لیےکہے جانے پر اپنی توہین کااحساس ہوا۔
راہل گاندھی نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ منی پور کے کچھ لوگوں نے انہیں بتایا کہ وزیر داخلہ امت شاہ سے ملاقات کے دوران ان کے جوتے اتر وائے گئے۔ انہوں نے کہا، میرے پاس اس کی تصویریں ہیں۔ میں اسے دکھا سکتا ہوں۔
راہل نے کہا، کچھ دن پہلے، ایک سیاسی لیڈر، جس کا میں نام نہیں لے رہا ہوں، منی پور سے میرے پاس آئے۔ وہ بہت غصے میں تھے۔ میں نے کہا ‘میرے بھائی آپ ناراض کیوں ہیں، تو انہوں نے کہا ، راہل جی، میں نے پہلے کبھی اتنی ذلت محسوس نہیں کی۔
راہل نے کہا کہ مذکورہ لیڈر نے انہیں بتایا کہ منی پور کے سینئر لیڈروں کا ایک وفد وزیر داخلہ سے ملنے گیا تھا۔
اس کے بعد انہوں نے رہنما کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شاہ کے گھر کے باہر وفد کو اپنے جوتے اتارنے کو کہا گیا اور جب وہ وزیر داخلہ کے کمرے کے اندر گئے تو دیکھا کہ انہوں نے اپنی’چپل’ پہن رکھی ہیں۔
راہل نے پوچھا، اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا اصل میں کیا مطلب ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ وزیر داخلہ گھر میں چپل پہن سکتے ہیں،لیکن منی پور کے سیاستدانوں کا وفد نہیں پہن سکتا؟
جب حکمراں جماعت کے ارکان نے اس دعوے کو چیلنج کیا تو کانگریس کے سابق سربراہ نے کہا کہ انہوں نے بھی اس الزام کی صداقت پر سوال اٹھایا تھا، لیکن منی پور کے رہنما نے انہیں تصویریں دکھائیں۔ راہل نے کہا کہ یہ ہندوستان کے سامنے پیش آنے کا طریقہ نہیں ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں