گجرات بی جے پی کی جانب سے پوسٹ کیے گئے کارٹون سے ڈرنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم ماضی میں بھی ایک خاص مذہبی اقلیت کے خلاف اس طرح کی فتنہ انگیزی کے شاہد ہیں اور اس بات سے بھی واقف ہیں کہ اس کا انجام کیاہوتا ہے۔
ملک کو نریندر مودی اور امت شاہ کاسوغات دینے والے صوبے گجرات کی بھارتیہ جنتا پارٹی نے اب ایک ایسازہرآلود کارٹون شیئر کیا ہے، جوہمیں یہودیوں کےخلاف نازی پروپیگنڈے اور جنوبی ریاستہائے متحدہ میں نسل پرستوں کے ذریعے ایک دوسرے کو بھیجی جانے والی ان تصویروں کی یاد دلاتی ہے، جن میں لنچنگ کا جشن منایا جا رہا ہے۔
ٹوئٹر اور انسٹاگرام پرشیئر کیے گئے، لیکن بعد میں ان پلیٹ فارموں کی جانب سے ہٹا دیے گئے کارٹون میں پھانسی کے پھندے سے جھولتے ہوئےمسلمانوں کو دکھایا گیا ہے۔
اس کارٹون میں گجراتی میں ‘ستیہ میو جیتے’ لکھا گیا ہے۔ اضافی اثر پیدا کرنے کے لیے ہندوستان کے قومی نشان کو (قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے) بھی استعمال کیا گیا ہے۔
اس کارٹون کے پس منظرمیں یہ بات ہے کہ ابھی حال ہی میں ایک ٹرائل کورٹ نے 38 افراد کو سزائے موت دی ہے۔
واضح ہو کہ ٹرائل کورٹ نے 2008 میں احمد آباد میں مختلف جگہوں پر سلسلہ وار بم نصب کرنے کے الزام میں 77 افراد کے مقدمے کی سماعت کے بعد یہ سزا سنائی ہے۔
ان بم دھماکوں میں 56 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ 11 ملزمان کو عمر قید اور 28 کو بری کیا گیا ہے۔
یہ بم دھماکے عوام الناس کے خلاف ایک گھناؤنا جرم تھا اور اسے انجام تک پہنچانے والوں کے ساتھ ہمدردی یا رحمدلی کے مظاہرہ کے لیے کوئی وجہ نہیں ہے۔
یہ بھی طے شدہ امر ہے کہ حکومت 28 افراد کو بری کیے جانے کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرے گی اور جن لوگوں کو سزا ہوئی ہے انہیں بھی اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرنے کا حق حاصل ہے۔
اس کے باوجود،یہ پوچھنا تو لازم ہے کہ بی جے پی- جو گجرات اور ہندوستان دونوں میں برسراقتدار ہے- اس طرح کے کارٹون شائع کرکے کیا پیغام دینا چاہتی ہے؟
کیا یہ پارٹی کی طرف سےکچھ لوگوں کے ساتھ عدل و انصاف کی تعریف و تحسین کا احسن طریقہ ہے؟
توقع ہے کہ پارٹی کے قائدین کی جانب سے اسی نوع کی صفائی پیش کی جائے گی۔ یا پھرٹوپی پہنے باریش مسلمانوں کومسخ شدہ طریقے سےتختہ دار پر لٹکایا جانا کسی اور بات کی علامت ہے؟
کیا واقعی بی جے پی اپنے حامیوں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہی تھی کہ مستقبل میں تمام مسلمانوں کا یہی انجام ہونے والا ہے؟
بی جے پی اور اس کی مربی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کےنظریے اور پروپیگنڈے کے مرکز میں ایک گروپ کے طور پر مسلمانوں کے ہونے کی وجہ سے یہ سوال اہمیت کے حامل ہیں۔ اور انتخاب کے زمانے میں ان کی یہ مرکزیت پاگل پن کی حدوں کو پارکر جاتی ہے۔
دیکھ سکتے ہیں کہ اتر پردیش اسمبلی انتخاب میں مودی، شاہ، وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ اور پارٹی کے دیگر عہدیداروں کی بیان بازی مسلمانوں کے خلاف خفی اور جلی طور پر دشمنی کے تذکروں سے بھری پڑی ہے۔
معجزہ کہیے یا اتفاق کہ 2008 کے ایک مقدمے میں ٹرائل کورٹ کا فیصلہ اور سزا کا اعلان انتخاب کے عین درمیان میں آیا ہے۔ اس لیےیہ تو واضح ہے کہ بی جے پی کی جانب سے پوسٹ کیے گئے کارٹون کا پیغام مسلمان ہیں۔
اس کارٹون سے لوگوں کو دہشت اس لیے ہوئی کہ ہم نے ماضی میں ایک مخصوص مذہبی اقلیت کے خلاف اس نوع کی یک طرفہ نفسیاتی حرکت پہلے بھی دیکھی ہے اور یہ مشاہدہ بھی کیا ہے کہ اس کاانجام کیا ہوتا ہے؟
نازی پروپیگنڈے کے ایک مؤرخ جیفری ہیرف نے وکٹر کلیمپرر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ، یہودی ‘ہر طرح سے تھرڈ ریخ کی زبان کے مرکز میں ہیں’، دراصل اس دور کے مکمل نقطہ نظر کے مرکز میں۔
کلیمپرر نازی دور میں جرمنی میں رہنے والے ایک ممتاز دانشور تھے، انہوں نے نازیوں اور اس کے اثرات پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک ڈائری تحریر کی تھی۔ وہ رقمطراز ہیں کہ، ان کے لیے یہودی مزاحمت، ‘صرف تعصبات اور نفرتوں کا مجموعہ نہیں تھا، بلکہ تاریخی واقعات کی وضاحت کے لیے ایک فریم ورک بھی تھا۔’
ای ایچ گامبریچ کے 1969 کے ایک تاریخی مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے، ہیرف نے لکھا ہے کہ؛
نازی پروپیگنڈے نے سیاسی دنیا کو فرد اور اس کی شناخت کے مابین ایک جدوجہد میں تبدیل کر دیا، اور ایک فرضی دنیا کی تخلیق کی،جس میں صالح نوجوان جرمنی نے مکمل مرادنگی کے ساتھ بدترین اور شیطانی سازش کرنے والوں، سب سے بڑھ کر-یہودیوں کے خلاف جنگ کیا تھا۔
اس متھ کے بنیادی عناصر یہودی تھے – سب سے پہلے جرمنی کے اندر سیاسی لڑائیوں میں اور پھر بین الاقوامی سطح پر۔ ظلم و ستم کےاس ہولناک جنون، اس پیرانوئیک متھ نے جرمن پروپیگنڈے کے مختلف دھاگوں کو ساتھ [جوڑنے] کا کام کیا۔ گامبریچ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ نازی پروپیگنڈے کی خصوصیت ‘اتنا جھوٹ نہیں تھا جتنا کہ ڈر یا ڈرانے والے پیٹرن کی عینک سے دنیاوی واقعات کو دیکھناتھا۔
آر ایس ایس اور بی جے پی کے لیے بھی اس طرح کے پیٹرن کو تمام واقعات پر تھوپنا،ان کے سیاسی پروپیگنڈے کی کلیدی خصوصیت ہے۔ تمام خطرات کے لیے، خواہ وہ حقیقی ہوں یا خیالی، اصلی ولن مسلمان ہیں اور مظلوم ہندو ہے۔
اس ولن کے اپیزمنٹ کا گناہ کرنے کے لیے نان مسلم مخالفین پر زبانی حملے کیے جاتے ہیں۔ احمد آباد بم بلاسٹ کرنے والوں کے ذریعہ سائیکل کے استعمال کرنے کو مودی نے سماج وادی پارٹی- جس کا انتخابی نشان سائیکل ہے- پرکا الزام کا حیلہ بنادیا۔ جو مسلمان رائے دہندگان سماج وادی پارٹی کے ساتھ ہیں، ان پردہشت گردی کا داغ ہے،مودی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ سوال اٹھایا کہ پارٹی نےیہ نشان کیوں منتخب کیا۔
سال 2019 میں مودی نے یہ اعلان کیا تھا کہ ہندو کبھی دہشت گرد نہیں ہو سکتا۔ لہذا ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ بی جے پی ایم پی سادھوی پرگیہ اور ان کے ساتھیوں کو پھندے پر لٹکانے والا اس نو ع کا کوئی کارٹون کبھی نہیں بنایا جائے گا۔
ان پرجس جرم کو انجام دینے کا الزام عائد کیا گیا ہے، اس میں ایک موٹرسائیکل- سائیکل کی رشتہ دار – کا استعمال ہوا تھا اور یہ جرم بھی احمد آباد دھماکوں کے وقت ہی ہوا تھا۔ دراصل، ان کا مقدمہ ابھی شروع بھی نہیں ہوا ہے۔ لیکن چونکہ بی جے پی کے تصور میں دہشت گردی میں صرف مسلمان ہی ملوث ہیں، اس لیے اس کوایک مسئلہ کے طور پرنہیں دیکھا جاتا۔
جیسا کہ حالیہ برسوں میں دہشت گردی میں کمی آئی ہے، اس لیے ‘فریبی پیٹرن’ کو کہیں اور منسوب کیا جاتا ہے۔ 2020 میں بی جے پی کے رہنماؤں نے نفرت انگیز ‘کورونا جہاد’ کے پروپیگنڈے کوکھلی چھوٹ دی، جس میں عالمی وبا کے لیے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔
‘تھوک جہاد، لینڈ جہاد، لو جہاد، مافیا، تجاوزات، فسادی، گھس پیٹھیے، دیمک’ وغیرہ کو اسی پروپیگنڈےکی کڑی میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ اوپر سے رہنمائی کےبعد، ہندوتوا ایکو سسٹم ضروری تصویروں کی تخلیق اور تبلیغ میں تاخیر نہیں کرتا۔
متعدد تجزیہ کاروں نے ہندوتوا تنظیموں کی کورونا جہاد مہم اور ٹائیفس کے لیے یہودیوں کو مورد الزام ٹھہرانے والے نازی پروپیگنڈے میں مماثلت کی نشاندہی کی ہے۔ لیکن جب ہم بصری عکاسی کی جانب نظر کرتےہیں،جن میں یہودیوں اور مسلمانوں کے کارٹون شامل ہیں، تب ان کے درمیان مماثلت اور بھی واضح اور خوفناک نظر آتی ہے۔
ہندوتواپروپیگنڈے کے بصری اظہارہمیں کیا باور کرتے ہیں اور ہمیں کیوں اسے ‘فرنج’ کہہ کر مسترد کرنے کے بجائے فوراً سے پیشتر اس پر توجہ دینے ضرورت ہے؟
جیسا کہ ہیرف ہمیں فاشزم کے مؤرخ جارج ایل موسے کے خیالات کو نقل کرتے ہوئےبتاتے ہیں کہ، جسمانی دقیانوسی تصورات (جسم سے متعلق اسٹریو ٹائپ) اور اس کے انسداد (کاؤنٹر ٹائپ)سے وابستہ نسل پرستی’ وہ محرک تھی، جس نے جرمن قوم پرستی کو عام امتیازی سلوک سےقتل عام تک پہنچا دیا۔
یقینی طور پر نازیوں کے پاس آر ایس ایس اور بی جے پی کے مقابلے آئیڈیل باڈی اور اس کے کاؤنٹر ٹائپ کا کہیں زیادہ ترقی یافتہ تصور تھا – ہندوتوا فاشزم اپنے یورپی ہم منصبوں کے مقابلے مختلف تاریخی اور ثقافتی ذرائع پر ایستادہ ہے۔
پھر بھی، مسلمانوں کی جسمانی شناخت پر تمام تر توجہ کامرکوز ہونا، ان کی داڑھی، ان کے لباس، ان کے کھانے پینے کی عادات، ان کی عبادت کے طور طریقے- ان کو ایک ایسے گروہ کے طور پر نشان زد کرتا ہے، جس سے نفرت کی جانی چاہیے، خوف کھانا چاہیے، اور بالآخر، ان کو ان کی اوقات دکھا دینی چاہیے۔ امریکہ کے نسل پرست لنچنگ پوسٹ کارڈ سےسطریں مستعار لیں تو،
The Muslim now, by eternal grace,
Must learn to stay in the Muslim’s place
مسلمانوں کو اب، اوپر والے کی رحمت سے
مسلمانوں کے لیے کھینچے دائرے میں ہی رہنا سیکھ لینا چاہیے
مودی نے شہریت (ترمیمی) قانون کی مخالفت کرنے والوں کے بارے میں کہا تھا – آپ انہیں ان کے کپڑوں سے پہچان سکتے ہیں۔ گجرات میں، جہاں مودی نے 13 سال تک وزیر اعلیٰ کے طور پر حکمرانی کی-بی جے پی چاہتی ہے کہ ہم تختہ دار سےجھولتے ہوئے گروہ کے طور پر ان کی پہچان کریں۔
(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر