خبریں

دہلی فسادات: ہیٹ اسپیچ معاملے میں عدالت نے سونیا گاندھی، راہل گاندھی، کپل مشرا سمیت کئی لیڈروں کو دوبارہ نوٹس بھیجا

دہلی ہائی کورٹ فروری 2020 میں شمال-مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات سے متعلق مختلف عرضیوں کی سماعت کر رہی ہے، جن میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ سی اے اے مخالف مظاہروں کے بعد ہوئے فسادات میں مبینہ طور پر ہیٹ اسپیچ کے معاملے میں ان لیڈروں کی جانچ کی جائے۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے ایف آئی آر درج کرنے کے عمل میں مختلف جماعتوں کے رہنماؤں کو فریق بنانے سے متعلق عرضی کی سماعت کرتے ہوئے، انوراگ ٹھاکر (بی جے پی)، کانگریس لیڈران سونیا گاندھی، راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی واڈرا، منیش سسودیا (عآپ) اور دیگر (عآپ/اے آئی ایم آئی ایم) کو منگل کو دوبارہ نوٹس جاری کیےہیں۔

عدالت میں دائر عرضی میں استدعا کی گئی ہے کہ ترمیم شدہ شہریت قانون کے خلاف فروری 2020 میں ہوئے مظاہروں کے بعد ہوئے فسادات میں مبینہ طور پر ہیٹ اسپیچ  کے سلسلے میں ان رہنماؤں کی جانچ کی جائے۔

جسٹس سدھارتھ مردل اور جسٹس رجنیش بھٹناگر کی بنچ نے یہ مشاہدہ کرنے کے بعد کہ درخواست گزاروں کی جانب سے فیس جمع نہ کروانے کی وجہ سےعدالت کی جانب سے 28 فروری کو جاری پچھلی نوٹس لوگوں (لیڈروں) تک نہیں پہنچ سکی، اس نے دوبارہ نوٹس جاری کیے ہیں۔

بنچ نے کہا، اس سے قبل 28 فروری کو دہلی ہائی کورٹ نے ہیٹ اسپیچ کے لیےان کے خلاف ایف آئی آر کے درج کرنے کے لیے دائر عرضی  پر انہیں نوٹس جاری کیے تھے۔

بنچ نے کہا، مجوزہ مدعیان (سیاستدان، سیلیبرٹی، کارکنان اور دیگر) کو نوٹس نہیں بھیجے جا سکے کیونکہ ان کی فیس جمع نہیں کی گئی تھی۔درخواست گزاروں کی جانب سے دو دنوں کے اندر فیس جمع کیے جانےاور دیگر رسمی کارروائیاں مکمل کرنے کے بعد تمام مجوزہ مدعیان کو نئے سرے  سے نوٹس بھیجا جائے۔

این ڈی ٹی وی کے مطابق، کانگریس لیڈران سونیا گاندھی، پرینکا گاندھی واڈرا، راہل گاندھی اور بی جے پی لیڈران انوراگ ٹھاکر، پرویش ورما، کپل مشرا اور دیگر کو نئے نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔

عدالت نے ان  ترمیم شدہ فریقین کو ملزم کے طور پر مخاطب کرنے پر وکیل پر  برہمی کا اظہار کیا۔ اس نے کہا، یہ صرف مجوزہ مدعا علیہ ہیں، وہ ملزم نہیں ہیں۔ ہم ان  کا جواب مانگ  رہے ہیں کیونکہ آپ نے ان پر الزام لگائے ہیں۔

ہائی کورٹ نے درخواست گزاروں میں سے ایک کے وکیل کو مشورہ دیا کہ وہ کئی کارکنوں اور دیگر لوگوں کے پتے بتائیں، جنہوں نے ابھی تک ان کے پتے تلاش نہیں کیےیا ان کا  نام چھوڑ دیا ہے۔

عدالت نے عآپ کے منیش سسودیا، امانت اللہ خان، اے آئی ایم آئی ایم کے اکبر الدین اویسی، وارث پٹھان اور کارکن ہرش مندر سمیت دیگر کو بھی نوٹس جاری کیا۔

عدالت نے اس معاملے کی اگلی سماعت کے لیے 29 اپریل کی تاریخ مقرر کی ہے۔

عدالت نے فروری 2020 میں شمال-مشرقی دہلی میں ہوئےفسادات سے متعلق مختلف عرضیوں کی سماعت کرتے ہوئےتمام مجوزہ فریقین کو نوٹس جاری کیے ہیں۔ بتادیں کہ متعلقہ دونوں درخواستوں میں ان لوگوں کے خلاف کارروائی کی استدعا کی گئی ہے۔

شیخ مجتبیٰ فاروق کی طرف سے دائر عرضی میں بی جے پی لیڈران انوراگ ٹھاکر، کپل مشرا، پرویش ورما اور ابھے ورما کے خلاف مبینہ ہیٹ اسپیچ کے الزام میں ایف آئی آر درج کرنے کی مانگ کی گئی ہے۔

دوسری عرضی لائرس وائس کی جانب سے دی گئی ہے، جس میں مبینہ ہیٹ اسپیچ کے لیے کانگریس لیڈران سونیا گاندھی، راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی کے ساتھ ساتھ دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا، عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے امانت اللہ خان، اے آئی ایم آئی ایم لیڈر اکبر الدین اویسی، اے آئی ایم آئی ایم کے رہنما اکبر الدین اویسی، سابق ایم ایل اے وارث پٹھان، محمود پراچہ، ہرش مندر، مفتی محمد اسماعیل، اداکارہ سوارا بھاسکر، عمر خالد، بی جی کولسے پاٹل، بامبے ہائی کورٹ کے سابق جج اور دیگر کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، عرضی گزاروں میں سے ایک اجے گوتم نے کہا کہ دہلی تشدد رات میں نہیں ہوا، اس لیے اس معاملے میں قومی سلامتی کے مسائل شامل تھے۔

ان کی عرضی میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ مرکز کو ہدایت دے کہ وہ قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کو حکم دے کہ وہ اس تحریک کے پیچھے ‘ملک دشمن طاقتوں’ کا پتہ لگائے اور پیپلز فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) کے رول کی تحقیقات کرے، جو مبینہ طور پر احتجاج کی حوصلہ افزائی اور حمایت کے لیےفنڈنگ کر رہی تھی۔

مبینہ طور پر ہیٹ اسپیچ کے معاملوں میں کارروائی کا مطالبہ کرنے کے علاوہ، کچھ درخواستوں میں دیگر راحتیں بھی مانگی گئی ہیں، جن میں ایس آئی ٹی کی تشکیل، تشدد میں مبینہ طور پر ملوث پولیس افسران کے خلاف ایف آئی آر اور گرفتار کیے گئے اور حراست میں لیے گئے افراد کا انکشاف بھی شامل ہے۔

ان درخواستوں کے جواب میں پولیس نے پہلے کہا تھا کہ اس نے پہلے ہی کرائم برانچ کے تحت تین خصوصی تحقیقاتی ٹیمیں (ایس آئی ٹی) تشکیل دی ہیں اور اب تک اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ اس کے افسران تشدد میں ملوث تھے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں سپریم کورٹ نے دہلی ہائی کورٹ کو ہدایت دی تھی کہ وہ بی جے پی لیڈروں کے خلاف ایف آئی آر پر جلد فیصلہ کرے اور یہ کام تین ماہ کے اندر اندر کیا جائے۔

معلوم ہوکہ فروری 2020 میں جب متنازعہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف دہلی کے مختلف حصوں میں مظاہرے جاری تھے، تب بی جے پی لیڈر کپل مشرا نے موج پور میں کہا تھا کہ اگر پولیس سڑک خالی  نہیں کراتی تو وہ (اور ان کے حمایتی) خود سڑک پر اتر جائیں گے۔

غورطلب ہے کہ دہلی فسادات کے شروع ہونے سے ایک دن پہلے 23فروری کو کپل مشرا نے ایک ویڈیو ٹوئٹ کیاتھا، جس میں وہ موج پور ٹریفک سگنل کے پاس سی اے اے کی حمایت میں جمع بھیڑ کو خطاب کرتے ہوئےدیکھے جا سکتے ہیں ۔اس دوران ان کے ساتھ شمال- مشرقی دہلی کے ڈی سی پی وید پرکاش سوریہ بھی کھڑے ہیں۔

مشرا کہتے دکھتے  ہیں، وہ (مظاہرین)دہلی میں کشیدگی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے سڑکیں بند کر دی ہیں۔ اس لیے انہوں نے یہاں فساد جیسے حالات پیدا کر دیے ہیں۔ہم نے کوئی پتھراؤ نہیں کیا۔ہمارے سامنے ڈی سی پی کھڑے ہیں اور آپ کی طرف سے میں ان کو یہ بتاnا چاہتا ہوں کہ امریکی صدر کے ہندوستان میں رہنے تک، ہم علاقے کو پرامن  چھوڑ رہے ہیں۔ اس کے بعد اگر تب تک سڑکیں خالی نہیں ہوئیں تو ہم آپ کی(پولیس کی)نہیں سنیں‌گے۔ہمیں سڑکوں پر اترنا پڑے گا۔’

اسی طرح دہلی میں ایک ریلی کے دوران مرکزی وزیر اور بی جے پی لیڈر انوراگ ٹھاکر نے ‘دیش کے غداروں کو…‘ جیسے نعرے لگوائے تھے۔ وہیں بی جے پی ایم پی پرویش ورما نے کہا تھا کہ شاہین باغ کے مظاہرین آپ کے گھروں میں گھس کر آپ کی بہن بیٹیوں کی عصمت دری کر سکتے ہیں۔

دہلی فسادات کے درمیان 26 فروری 2020 کو دہلی ہائی کورٹ کے اس وقت کے جج جسٹس ایس مرلی دھر نے ان لیڈروں کے ویڈیوز اور بیانات پر غور کیا تھا اور دہلی پولیس کو جلد ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت دی تھی۔

اس کے بعد پولیس نے عدالت کو بتایا تھاکہ انہوں نے ‘ابھی تک ایف آئی آر درج نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے’ کیونکہ فرقہ وارانہ ماحول میں ایسا کرنا مناسب نہیں ہے۔

اس کے بعد اس معاملے کو لے کر دہلی ہائی کورٹ میں کارروائی ملتوی کر دی گئی تھی، لیکن 4 مارچ 2020 کو سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کو اس معاملے میں جلد فیصلہ کرنے کی ہدایت دی۔ حالانکہ اب ڈیڑھ سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن اب تک ہائی کورٹ نے اس پر کوئی فیصلہ نہیں دیا ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)