عمر خالد کی ضمانت عرضی مسترد کرنے کے اپنے فیصلے میں عدالت یہ تسلیم کر رہی ہے کہ وکیل دفاع کی جانب سے پولیس کے بیان میں جو تضادات یا خامیاں نشان زد کیے گئے وہ ٹھیک ہیں۔ لیکن پھر وہ کہتی ہے کہ بھلے ہی تضاد ہو، اس پروہ ابھی غور نہیں کرے گی۔ یعنی ملزم بغیر سزا کے سزا بھگتنے کے لیےملعون ہے!
عمر خالد کی ضمانت عرضی مسترد کیےجانے کے بعد خصوصی سرکاری وکیل نے عوامی طور پر اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اب ‘اسٹوڈنٹ ایکٹوسٹ’ کے نام پر عمر خالد کے حق میں مہم چلائی جائے گی۔ اس سے پہلے کہ عمر خالد کی عرضی نامنظور کیے جانے کے بعد کوئی عوامی بحث شروع ہو ، سرکاری وکیل نے یہ ڈر ظاہر کیا کہ عمر کو طالبعلم کے طور پر پیش کر کے ان کے حق میں ہمدردی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
اول تو یہ کہ عمر طالبعلم نہیں ہیں اور وہ خود کو کہتے بھی نہیں۔ یہ تو اخبارات اور باقی میڈیا ہیں، جن کے پاس عمر کے لیے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سابق طالبعلم کے علاوہ کوئی اور تعارف نہیں ہے۔ ایسا کیوں ہوا، اس پرہم کبھی اور غور کریں گے۔
سرکاری وکیل کی شکایت ہے کہ جب عشرت جہاں کو ضمانت ملی تو کہا گیا کہ قانون پر بھروسہ بحال ہوا ہے اور اب جب دوسروں کی ضمانت رد ہو رہی ہیں تو آپ اسٹوڈنٹ ایکٹوسٹ کا رونا شروع کر دیں گے۔ اب وقت آگیا ہے کہ یہ قصہ شروع کیا جائے گا۔ ہمیں اس سے محتاط رہنا ہوگا۔
سرکاری وکیل اب ملزم کے خلاف عدالت کے باہر بھی دلائل دیں گے اور عوامی سطح پر اندازہ لگائیں گے کہ آگے ملزم اپنے حق میں کیا دلائل دے گا۔ یعنی وہ عدالت کے باہر بھی ملزم کے خلاف مہم میں حصہ لیں گے۔ کیا یہ سرکاری وکیل کا کام ہے؟ کیا ا ن کی خصوصی دلچسپی اس معاملے میں ہے؟ کیا یہ دلچسپی ہونی چاہیے؟
یہ سوال کوئی نہیں پوچھے گا۔ لیکن یہ سوال کیا جانا چاہیے، اگر ہمیں یاد ہو کہ سرکاری وکیل اجول نکم نے مہاراشٹر میں اجمل قصاب کے بارے میں یہ پروپیگنڈا کیا تھا کہ اس کو جیل میں بریانی مل رہی ہے۔ بعد میں ہنستے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ جھوٹ بول رہے تھے اور عدالت پر نفسیاتی دباؤ ڈالنے کے لیے ایسا کر رہے تھے۔ کسی نے اس کی سنگینی کو نہیں سمجھا۔ لیکن ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ آخرعدالت نے عمر خالد کی ضمانت عرضی کیوں مسترد کی تو آپ کو 61 صفحات پر مشتمل اس فیصلے میں تلاش کرنے پر بھی وجہ نہیں ملے گی۔عدالت مجموعی طور پر یہی کہہ رہی ہے کہ چوں کہ پولیس نے یہ کہا ہے کہ عمر خالد تشدد کی ایک سازش میں ملوث تھے، اس لیے وہ اس کو وہ مان رہی ہے۔ اندیشہ بھی اسی کا تھا۔
دوسرے قوانین کے علاوہ جس قانون کے تحت عمر کو گرفتار کیا گیا تھا، اس میں ضمانت تقریباً ناممکن ہے۔ یو اے پی اےایسا قانون ہے اور اس کی تشریح عدالتوں بالخصوص سپریم کورٹ نے اس طرح کی ہے کہ اگر آپ کو اس کے تحت گرفتار کیا گیا ہے تو آپ کو مقدمے کی سماعت مکمل ہونے تک جیل میں رکھا جا سکتا ہے۔
اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ اس قانون کی اس طرح کی عدالتی تشریح کی وجہ سے لوگوں نے 10-12 سال سے زیادہ جیل میں گزارے اور پھر الزام میں میرٹ نہ ہونے کے باعث انہیں بری کر دیا گیا۔ یعنی بے گناہ ہونے کے باوجود انہوں نے ایک لمبی سزا کاٹی۔
اس معاملے پر عدالتوں میں تنازعہ ہے۔ کیا کسی کو جرم ثابت کیے بغیرجیل کی سزا کاٹنے کو چھوڑ دینا چاہیے؟ جب تک مقدمہ ختم نہ ہوتب تک جیل؟ بغیر گنا ہ کیے؟
جس معاملے میں عمر خالد، عشرت جہاں کو گرفتار کیا گیا ہے اور انہیں ملزم بنایا گیا ہے،اسی میں نتاشا نروال، دیوانگنا کلیتا اور آصف اقبال تنہا کو دہلی ہائی کورٹ نے ضمانت دی ہے۔
اس سے گھبرا کرکہ کہیں اس کو مثال بنا کر باقی ملزمین بھی ضمانت نہ لے لیں، دہلی پولیس سپریم کورٹ پہنچ گئی اور اس کی ہمدرد عدالت نے کہا کہ ٹھیک ہے،انہیں اب ضمانت مل گئی ہے تو رہنے دیں لیکن ضمانت کے لیے دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کومثال نہیں بنایا جائے گا۔
اس طرح سپریم کورٹ نے پہلےوٹالی کیس میں اور پھرا س فیصلے کے ذریعےان کے ہاتھ پاؤں باندھے دیے ہیں،جن پرپولیس نے پر الزام لگائے ہیں۔ وہ جو بھی دلیل دیں، پولیس کی کہانی میں کتنے ہی جھول کیوں نہ دکھائی دیں، عدالت آنکھ موندے رہے گی کیونکہ اسے ضمانت کی سطح پر بس پولیس کے الزام کو دیکھنا ہے۔ وہ کہتی رہے گی کہ جب مقدمہ شروع ہوگا تو ہم پولیس کے الزامات کی تحقیقات کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں:عمر خالد ’دہشت گرد‘ ہے کہ نہیں؟
پھر عدالت کا کیا کام رہ جاتا ہے؟ جیسا کہ گوتم بھاٹیہ نے لکھا ہے، کیا منصف صرف استغاثہ کا منشی ہوتا ہے؟ کیا اس کا کام صرف پولیس کی طرف سے دائر چارج شیٹ کو دہرانا ہے؟
عمر خالد کی ضمانت کے فیصلے کو پڑھتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ عدالت تسلیم کر رہی ہے کہ وکیل دفاع نے پولیس کے بیان میں جو تضادات یا خامیاں نشان زد کیے ہیں وہ درست ہیں۔ لیکن پھر وہ کہتی ہے کہ بھلے ہی تضاد ہو، اس پر وہ ابھی غور نہیں کرے گی۔ وہ کئی بار عمر کے وکیل سے اتفاق کرتی نظر آتی ہے لیکن پھر اس کو ٹال جاتی ہے۔
پولیس نے اپنا پورا مقدمہ پوشیدہ گواہوں کے بیانات کی بنیاد پر تیار کیا ہے۔ یہ بیانات انتہائی مبہم ہیں اورجو الزام لگائے گئے ہیں ثابت کرنے کے لحاظ سے کمزور ہیں۔ مثلاً، ہمیں اس بیان سے کیا معلوم ہوتا ہے کہ عمر نے اشتعال انگیز تقریر کی؟
دہلی سے بہت دور امراوتی میں عمر کی تقریر کا ایک ٹکڑا پولیس نے ثبوت کے طور پر پیش کیاتھا۔ یہ ثابت ہوگیا کہ اس ٹکڑے کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رہنما نے پوری تقریرسے کاٹ چھانٹ کر پھیلایا تھا اور اس کوری پبلک ٹی وی نے نشر کیا تھا۔
پوری تقریر میں کہیں بھی عمر عوام کو تشدد پر اکساتے نظر نہیں آئے۔ جسے پولیس اتنا اہم ثبوت بتا رہی تھی، اس کےجھوٹا ثابت ہونے کے بعد بھی عدالت پولیس سے کچھ پوچھنا ضروری نہیں سمجھتی۔
کیا عمر خالد نے تشدد کےلیے اکسایا تھا؟ کیا عمر کسی تشدد کے لیے اسلحہ جمع کرنے میں ملوث تھے؟ جب دہلی میں تشدد ہوا تو وہ کہاں تھے؟ ان دونوں کا جواب نفی میں ہے۔ پولیس اپنی چارج شیٹ میں کوئی ثبوت پیش نہیں کر پائی ہے۔ تشددتو دورکی بات ہے، عمر نے نفرت کا جواب محبت سے دینے کی اپیل کی ہے۔
چارج شیٹ میں تشدد کی منصوبہ بندی میں عمر کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ تشدد کے وقت وہ دہلی میں نہیں تھے۔ پھر بھی وہ جیل میں رہیں گے۔ کیونکہ عمر کے وکیل کے اعتراض سے اتفاق کے باوجود عدالت کا کہنا ہے کہ ان پر غور کرنے کا یہ موقع نہیں ہے۔ چھپی ہوئی شہادتیں درست ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ جرح کے وقت ہی کیا جائے گا۔ پھر؟ جب تک جرح ختم نہیں ہوتی، پولیس جو بھی الزام لگائے گی، عدالت اسے سچ سمجھے گی۔
اس کا مطلب ، اور ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ جس پر الزام ہے، وہ پولیس کے رحم و کرم پر ہے۔ وہ مقدمے کےشروع ہونے کے بعد ایک دوسری رکاوٹ پیدا کرے گی۔ اس وقت تک ملزم الزامات کے ساتھ جیل میں رہے۔ یہ سزا کے بغیر سزا ہے۔
ایسے معاملات میں، اور ایک بار پھر اس سےطے ہواہے کہ پولیس چارج شیٹ میں کوئی بھی مبہم، فرضی، سفید جھوٹ لکھنے کے لیے آزاد ہے۔ وہ کہیں کی اینٹ ، کہیں کاروڑہ جمع کرلیں، عدالت اسے دیکھتی رہے گی، لیکن اس کے لیے وہ نہ تو پولیس کی تنبیہ کرے گی اور نہ ہی سوال کرے گی۔ ملزم جیل میں رہنے کے لیے ملعون ہے۔
اس فیصلے کا اور اس سے پہلے گلفشاں کی ضمانت مسترد کرنے کے فیصلے کا مفہوم اس جمہوریت کے لیے خوفناک ہے۔ آپ کو کہا جا رہا ہے کہ حکومت کوئی بھی قانون بنائے، کوئی بھی ناانصافی کرے، آپ اس کی مخالفت نہیں کر سکتے۔ احتجاج کو ہی جرم ثابت کیا جارہا ہے۔
یہ کسانوں کی تحریک کے دوران بھی دیکھا گیا۔ اس تحریک کو ہی سازش اور جرم قرار دیا گیا۔ پھر تریپورہ میں تشدد کی رپورٹنگ کو ہی جرم ٹھہرا دیا گیا۔
اب ہم صرف یہ امیدکریں کہ دہلی ہائی کورٹ نتاشا، دیوانگنا اور آصف کے کیس کی طرح ہی گلفشاں، عمر اور شرجیل کے کیس پر بھی غور کرے گی۔ جتنے دن یہ سب جیل میں رہتے ہیں، ہندوستان کی آزادی کی عمر اتنی ہی گھٹتی ہے۔
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)
Categories: حقوق انسانی