خبریں

سال 2021 میں شہریت حاصل کرنے میں ناکام رہے 800 پاکستانی ہندو ہندوستان سے واپس لوٹے: رپورٹ

ایسے پاکستانی شہریوں کی شہریت کی درخواستوں کو فاسٹ ٹریک کرنے کے لیے مرکزی حکومت کے دو نوٹیفیکیشن اور شہریت  قانون کے پاس ہونے کے باوجود اب تک اس معاملے میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

دہلی میں ایک ہندو پناہ گزین خاندان۔ (فائل فوٹو: رائٹرس)

دہلی میں ایک ہندو پناہ گزین خاندان۔ (فائل فوٹو: رائٹرس)

نئی دہلی: ہندوستان میں پاکستانی شہریوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ سیمانت لوک سنگٹھن کے مطابق، راجستھان میں تقریباً 800 ہندو، جو مذہبی طور پر ہراسانی  سےتحفظ کے لیے پاکستان سے ہندوستان آئے تھے، مگر ہندوستانی شہریت حاصل کرنے میں ناکام ہونے کے بعد سال 2021 میں ان کو  اپنے ملک واپس لوٹنا پڑا۔

دی ہندو کی ایک رپورٹ کے مطابق، یہ 2018 میں وزارت داخلہ (ایم ایچ اے) کی کوششوں اور پھر 2021 میں پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے ہندوؤں، عیسائیوں، سکھوں، پارسیوں، جینوں اور بدھ مت کے ماننے والوں کو شہریت کے لیے آن لائن درخواست دینے کی اجازت کے باوجود ہوا۔

تنظیم کے صدر ہندو سنگھ سوڈھا نے اس اخبار کو بتایا، ایک بار جب وہ (پاکستانی ہندو) لوٹ جاتے ہیں تو انہیں پاکستانی ایجنسیاں ہندوستان کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ انہیں میڈیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور یہ کہنے پر مجبور کیا جاتا ہے کہ یہاں (ہندوستان میں) ان کے ساتھ برا سلوک کیا گیا۔

واضح ہو کہ سال 2018 میں ایم ایچ اے نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا تھا، جس میں سات ہندوستانی ریاستوں کے 16 ڈسٹرکٹ کلکٹروں کو آن لائن درخواست کی سہولت کے ذریعے مذکورہ  اقلیتی برادریوں کے ممبران کو بطور ہندوستانی شہری رجسٹر کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔

چھتیس گڑھ میں یہ اختیار رائے پور کے کلکٹروں، گجرات میں احمد آباد، گاندھی نگر اور کچھ، مدھیہ پردیش میں بھوپال اور اندور، مہاراشٹر میں ناگپور، ممبئی، پونے اور تھانے، راجستھان میں جودھ پور، جیسلمیر اور جے پور، اتر پردیش میں لکھنؤ اور مغربی جنوبی دہلی کو دیا گیا تھا۔

اس کے بعد 2021 میں  وزارت نےا س کا دائرہ  بڑھاتے ہوئے 13 اور اضلاع – گجرات کے موربی، راجکوٹ، پاٹن، وڈودرا، چھتیس گڑھ میں درگ، بلودہ بازار، راجستھان میں جالور، ادے پور، پالی، بارمیر، سروہی، ،ہریانہ اور پنجاب  میں فرید آباد اور جالندھر کو شامل کیا۔

قابل ذکر ہے کہ فاسٹ ٹریک شہریت کے لیے یہ نوٹیفیکیشن سٹیزن شپ ایکٹ 1955 کے تحت کیے گئے تھے نہ کہ شہریت (ترمیمی) ایکٹ 2019 (سی اے اے) کے تحت، جن کے لیے ابھی قواعد وضع کیے جانے ہیں۔

ان غیر مخصوص مہاجرین کے لیے ہندوستان میں داخلے کی کٹ آف تاریخ 31 دسمبر 2014 مقرر کی گئی تھی اور کہا گیا تھاکہ شہریت کے لیے درخواست آن لائن جمع کرائی جائے گی۔

تاہم، دی ہندو نے رپورٹ کیا ہے کہ درخواست کے لیے آن لائن پورٹل پاکستانی پاسپورٹ کی میعاد ختم نہیں کرتا، یعنی غیر مخصوص پاکستانی مہاجرین اپنے پاسپورٹ کی تجدید کروانے کے لیے پاکستانی ہائی کمیشن میں قطار میں کھڑے ہونے پر مجبور ہیں۔

سوڈھا کے مطابق، مہاجرین کو ایسا کرنے کی جو قیمت ادا کرنی پڑتی ہے وہ بہت زیادہ ہے۔ دس افراد پر مشتمل خاندان کو اپنے پاسپورٹ کی تجدید کروانے کے لیے ایک لاکھ روپے سے زیادہ ادا کرنا پڑتا ہے۔

اخبار نے سوڈھا کے حوالے سے لکھا ہے کہ، یہ لوگ بڑے مالی بحران کے درمیان ہندوستان آتے ہیں، ایسی صورت حال میں اتنی بڑی رقم خرچ کرنا ممکن نہیں ہے۔

سوڈھا نے یہ بھی نشاندہی کی کہ بہت سے لوگ اپنی درخواستیں متعلقہ کلکٹر کو آف لائن موڈ میں جمع کرانے کا راستہ چنتے ہیں۔

دسمبر 2021 میں وزارت داخلہ نے راجیہ سبھا کو بتایا تھاکہ آن لائن پورٹل کے ذریعے شہریت کے لیے 10635 درخواستیں وزارت کے پاس زیر التوا تھیں، جن میں سے 7306 درخواست دہندگان پاکستان سے تھے۔

تاہم، سوڈھا کا دعویٰ ہے کہ صرف راجستھان میں 25000 لوگ ہندوستانی شہریت کے منتظر ہیں، ان کے مطابق، جن میں سے کئی ایک تو  دہائی سے زیادہ عرصے سے انتظار کر رہے ہیں۔

متنازعہ سی اے اے میں مذکورہ بالا تین ممالک سے آنے والے چھ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگوں  کی شہریت کی درخواستوں کو فاسٹ  ٹریک کرنے کے مقصد سے ہندوستان میں ان کی رہائش کی لازمی مدت کو 11 سال سے کم کرکے پانچ سال کرنے کا اہتمام  تھا۔

تاہم، یہ اہتمام  ان تمام لوگوں کے لیے غیر متعلق ہے جنہوں نے شہریت کے لیے پہلے ہی 11 سال انتظار کیا اور ان کی درخواستوں پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

معلوم ہو کہ سی اے اے کے حوالے سے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے، کیونکہ اسے مسلمانوں کے خلاف امتیازی اور ان کی شہریت چھیننے کے طور پر دیکھا گیا۔