دہلی ہائی کورٹ نے ضمانت دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ عمر خالد کیس کے دیگر شریک ملزمان کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے اور ان کے خلاف لگائے گئے الزامات پہلی نظر میں درست ہیں ۔ دہلی پولیس کے ذریعےستمبر 2020 میں گرفتار خالد نے ضمانت کے لیے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ شمال–مشرقی دہلی میں ہوئے تشدد میں ان کا کوئی مجرمانہ رول نہیں تھا۔
نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے منگل کو جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے سابق طالبعلم عمر خالد کے خلاف فروری 2020 میں دہلی میں فسادات کی مبینہ سازش کے الزام میں یو اے پی اے کے تحت درج مقدمے میں ضمانت دینے سے انکار کردیا۔
لائیو لاء کی رپورٹ کے مطابق، عدالت نے پایا کہ وہ (خالد) دوسرے شریک ملزمان کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے اور ان کے خلاف الزامات پہلی نظر میں درست ہیں۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ پہلی نظر میں ملزم کی کارروائیوں کویو اے پی اےکے تحت ‘دہشت گردانہ کارروائی’ کے طور پر اہل مانا جاتا ہے۔
جسٹس سدھارتھ مردل اور جسٹس رجنیش بھٹناگر کی بنچ نے کہا، ضمانت کی درخواست میں کوئی معقول وجہ نہیں بتائی گئی ہے۔ ضمانت عرضی خارج کی جاتی ہے۔
ستمبر 2020 میں دہلی پولیس کے ذریعے گرفتار خالد نے ضمانت کے لیے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ شمال–مشرقی دہلی میں ہوئے تشدد میں ان کا کوئی ‘مجرمانہ کردار’ نہیں تھا اور اس کیس کے دیگر ملزمان کے ساتھ کوئی ان کا کسی طرح کا ‘سازشی رابطہ’ نہیں تھا۔
دہلی پولیس نے خالد کی ضمانت کی درخواست کی مخالفت کی ہے۔
خالد، شرجیل امام اور کئی دیگر کے خلاف یو اے پی اے اور تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ان سبھی پر فروری 2020 کے فسادات کے مبینہ ‘سازشی’ ہونے کا الزام ہے۔ ان فسادات میں 53 لوگوں کی موت ہو گئی تھی، جبکہ 700 سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے تھے۔
یہ فسادات شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) کی حمایت اورمخالفت میں ہوئے مظاہروں کے دوران ہوئے تھے۔
خالد کے علاوہ کارکن خالد سیفی، جے این یو کی طالبات نتاشا ناروال اور دیوانگنا کلیتا، جامعہ کو آرڈینیشن کمیٹی کی رکن صفورہ زرگر، عام آدمی پارٹی (عآپ) کے سابق کونسلر طاہر حسین اور دیگر کئی افراد کے خلاف سخت قوانین کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
غور طلب ہے کہ 14 ستمبر 2020 کو ان کی گرفتاری کے بعد سے خالدکو جیل میں رہتے ہوئے 764 دن ہو چکے ہیں۔
خالد کو ٹرائل کورٹ نے 23 مارچ کو ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا، کیونکہ اسے تین بار مؤخر کیا گیا تھا، اور مقدمے کی سماعت آٹھ ماہ تک جاری رہی۔ خالد نے ضمانت کی منسوخی کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
اس کے بعد مہینوں کی سماعت میں ہائی کورٹ کے تبصرے سرخیوں میں رہے، جو کہ خالد کے ذریعے امراوتی میں کی گئی ان کی تقریر کے بارے میں تھے، جسے دہلی پولیس نے فسادات سے جوڑنے کی کوشش کی ہے، جس کے دوران خالد دہلی میں نہیں تھے۔
خالد کی تقریر میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور ہندو مہاسبھا پر آزادی کی جد وجہد کے دوران ‘برطانوی ایجنٹ’ ہونے کی بات کا ذکرکرتے ہوئےدہلی ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ ،اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ صرف ایک برادری انگریزوں کے خلاف لڑ رہی تھی۔
جسٹس سدھارتھ مرڈول اور رجنیش بھٹناگر کی اس بنچ نے زور دے کر کہا کہ’ناخوشگوار، نفرت انگیز، جارحانہ (بیان) پہلی نظر میں قابل قبول نہیں ہیں۔
لگاتار سماعتوں میں تقریر پر تنقید کرنے کے بعد دہلی ہائی کورٹ کی بنچ نے 30 مئی کو کہا تھا کہ تقریر اگرچہ جارحانہ تھی، لیکن یہ ‘دہشت گردانہ کارروائی’ نہیں تھی۔
بتادیں کہ خالد کی لمبے عرصے تک قید پر عالمی اداروں، حقوق کی تنظیموں اور دنیا بھر کے مفکرین کی جانب سے بڑے پیمانے پر تنقید کی گئی ہے۔
خالد نے جیل سے دی وائر کے لیے لکھا تھا، وہ کہتے ہیں کہ ہم آزادی کے امرت کال میں داخل ہو گئے ہیں۔ لیکن آزادی کے محافظوں کی آزمائشیں دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم انگریزی راج کے دور میں لوٹ رہے ہیں۔ غلامی کی نوآبادیاتی علامتوں سے چھٹکارا پانے کے لیے پچھلے کچھ عرصے سے بہت شور مچا ہوا ہے۔ لیکن دوسری طرف نوآبادیاتی دور کی یاد دلانے والے بہت سے جابرانہ قوانین انسانی حقوق کے کارکنوں، طلباء، مخالفین اور سیاسی مخالفین کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں