عدالتوں میں انصاف اب استثنائی بنتا جا رہا ہے، بالخصوص جب انصاف مانگنے والے مسلمان ہوں یا مودی حکومت کے ناقدین ہوں یا پھر مخالفین۔
توقع کے مطابق عدالت نے عمر خالد کی ضمانت عرضی خارج کر دی ہے۔ یہ خدشہ اس لیے تھا کہ عدالتوں میں انصاف اب استثنائی بنتا جا رہا ہے۔ بالخصوص جب انصاف مانگنے والے مسلمان ہوں یا مودی حکومت کے ناقدین ہو یا ان کے مخالفین ہوں۔
ہندوستان کی عدالتوں نے ان لوگوں کے لیے ‘ جیل نہیں، بیل’ کے اصول کو پلٹ دیا ہے۔ ان کے لیے جیل ہی ضابطہ ہے اور ضمانت استثنائی صورتحال۔ ہمیں یہ بھی بھول جانا چاہیے کہ ضمانت دیتے وقت آپ پورا کیس نہیں چلاتے بلکہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ ملزم کے باہر رہنے سے مقدمے پر کوئی اثر پڑ سکتا ہے یا نہیں۔
سپریم کورٹ نے حال ہی میں ڈاکٹر جی این سائی بابا کو دوبارہ جیل میں ڈالنے میں جس عجلت کا مظاہرہ کیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب عدالتیں ہندوستان کے شہریوں کی آزادی کے لیےنہیں، بلکہ یہ یقینی بنانے کو چاق و چوبند ہیں کہ کہیں سماج میں آزادی کا احساس زندہ نہ رہ جائے۔یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ جمہوریت میں آزادی کی روح اسی وقت زندہ رہتی ہے جب حکومت یا اسٹیٹ کے ناقدین اپنے خیالات کا اظہار کرنے کو آزاد ہوں۔
لیکن ہندوستان کے عدالتی نظام کو حکومت کے ناقدین کی آزادی برداشت نہیں۔ عمر خالد کی عرضی رد کیے جانے سے پہلےبمبئی ہائی کورٹ کی طرف سے کبیر کلا منچ کی گلوکارہ جیوتی جگتاپ کی ضمانت کی درخواست مسترد ہونے سے بھی یہ واضح ہو گیا تھا۔ پھر بھی ایک ہلکی سی امید تھی کہ انصاف کا خیال کہیں نہ کہیں نظام عدل میں زندہ رہ گیا ہوگا، ایسا نہیں ہوا۔ عدالت نے شک کرنے والوں کو مایوس نہیں کیا۔
عدالت کی طرف سے عمر خالد کی درخواست کو خارج کرنے کی جو وجہ بتائی گئی اس سے یہ بھی واضح ہے کہ اب منطق اور کٹ حجتی کے درمیان کی لکیر مٹ گئی ہے۔ ورنہ نہرو کی آڑ میں عدالت یہ نہ کہتی کہ چوں کہ ہندوستان میں جمہوریت آچکی ہے ،اس لیے یہاں لفظ انقلاب کا استعمال نہ صرف غیر متعلق ہے بلکہ خطرناک بھی ہے۔
اس سے پہلے اسی ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ اگر آپ مسکراتے ہوئے تشدد کی بات کر رہے ہیں تو آپ کا ارادہ مجرمانہ نہیں سمجھا جائے گا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ کس کو مسکراہٹ کے ساتھ خون بہانے کی اجازت ہے۔ عمر خالد کی مسکراہٹ بھی سازش ہو گی۔
عمر خالد کی ضمانت مسترد کرنے پر عدالتی استدلال کا جائزہ لیں تو لفظ کٹ حجتی کے معنی واضح ہو جائیں گے۔ عدالت نے کہا کہ ‘انقلابی استقبال یا ‘کرانتی کاری سلام’ کا مطلب ہوگاخون خرابے کے لیے اکسانا۔ اس لیے جب آپ کرانتی کاری کو سلام کررہے ہوں تو آپ خون بہانا چاہتے ہیں۔ کیا آپ نے انقلاب سے پہلے عدم تشدد کی صفت استعمال کی تھی؟ یعنی کیا عمر نے اپنی تقریر میں کرانتی کاری سلام اس طرح سے کہا، جس میں خون بہانے کی بات نہ ہو؟ اگر نہیں تو عدالت کے مطابق وہ عوام کو خون بہانے پر اکسا رہے تھے۔
عدالت کا خیال ہے کہ انقلاب خون خرابہ کے بغیرآنے والی تبدیلی کے بالکل برعکس ہے۔ اس لیے ہندوستان جیسی جمہوریت میں انقلاب کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کیا ہم عدالت سے بحث کریں؟ کیا ہم لفظ انقلاب کے استعمال پر بھگت سنگھ کے مضمون کا حوالہ دیں؟ کیا ہم گاندھی، نہرو، پٹیل، سروجنی نائیڈو وغیرہ کی تحریروں اور تقریروں سے لفظ انقلاب کے استعمال کی مثالیں چن کر عدالت کو یہ سمجھانے کی کوشش کریں کہ انقلاب کا مطلب گولی، آگ زنی اور قتل نہیں ہوتا۔
کیا ہم عدالت سے پوچھیں کہ کیا ہم سب جو انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں، کیا اس عدالت کے مطابق ہندوستان میں خون–خرابہ کرنا چاہتے تھے؟
ضمانت کی بحث میں ہی عدالت نے عمر کو پہلی نظر میں مجرم تسلیم کر لیا ہے۔ دہلی سے بہت دور مہاراشٹر کے امراوتی میں عمر کی تقریر کے بارے میں عدالت نے مشاہدہ کیا کہ اس نے سینکڑوں میل دور دہلی کی خواتین کو اس طرح متاثر کیا کہ وہ سڑک بلاک کرنے نکل آئیں اور پولیس پر حملہ کر دیا۔
اس تقریر میں عمر کہہ رہے ہیں کہ تحریک عدم تشدد کی ہونی چاہیے، اگر ہمارے خلاف تشدد ہو تو اس کا جواب ترنگا بلند کرکے دینا چاہیے۔ لیکن عدالت اٹک گئی ہےانقلابی سلام اور استقبال پر۔ عمر جیسے پڑھے لکھے اور ذہین نوجوان نے انقلاب کا لفظ استعمال کر کے اشارے میں تشدد پر اکسایا۔ اور دہلی کی خواتین نے اس کو سمجھ کر تشدد کیا۔ یہ دہلی پولیس کی کہانی ہے اور عدالت اس پر یقین کرنا چاہتی ہے۔
دہلی ہائی کورٹ کے اس فیصلے سے تمام ہندوستانی عوام کو محتاط ہو جانا چاہیے۔ کیونکہ پہلے کی طرح وہ پولیس کی آواز میں آواز ملا کر کہہ رہی ہے کہ حکومت کی پالیسی کے خلاف اور اس کے قانون کے خلاف احتجاج ہی جرم ہے۔ اگر آپ حکومت کی مخالفت کرتے ہیں تو آپ مجرم ہیں۔
شہریت قانون کے خلاف تحریک کے بارے میں عدالت کا کہنا ہے کہ یہ عام تحریکوں کی طرح نہیں تھی۔ یعنی تشدد اسی تحریک کی وجہ سے ہوا۔ ہفتوں تک شاہین باغ اوربیسیوں احتجاجی سائٹ پر شدید سردی کے درمیان پُرامن مظاہروں میں تشدد کی سازش چل رہی تھی، یہ دہلی پولیس اور عدالت کا ماننا ہے ۔ عمر خالد دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر اس تشدد کی سازش کر رہے تھے، یہ ایک الزام ہے۔
اس منطق سے تو ہر تحریک کو جرم بنا دیا جائے گا۔ کرنا صرف یہ ہے کہ تحریک پر حملہ کر دیں اور اس کے لیے تحریک کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا دیں۔ ایسا ہی شاہین باغ کے ساتھ کیا گیا تھااور اس کے بعد کسان تحریک کے ساتھ بھی ایسا ہی کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا اور کہاجا چکا ہے کہ حکومت کی پالیسی کے خلاف احتجاج کرنا، اس کے خلاف تحریک عوام کا حق ہے۔وہ بذات خود کوئی جرم نہیں ہے۔
دہلی پولیس کی تحقیقات سے یہ واضح ہے کہ اس کی دلچسپی، فروری 2020 کے دہلی تشدد کی وجہ جاننے میں نہیں ہے، اس کے لیے ذمہ دار مجرموں کو تلاش کرنے میں نہیں ہے۔ وہ سی اے اے مخالف تحریک کو جرم سمجھتی ہے، اسی کو وہ ملک کے خلاف سازش سمجھتی ہے۔ اس کے ساتھ وابستہ ہر فرد کو تشدد کا سازش کاریا تشدد میں ملوث سمجھتی ہے۔
یہ بار بار پوچھا گیا ہے اور وہ بھی عدالت نے خود پوچھا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے جو لیڈر تشدد کی دھمکیاں دے رہے تھے، ان کے خلاف رپورٹ کیوں درج نہیں کی گئی ہے۔ بالآخر اس دھمکی کے بعد تشدد شروع ہو ا۔ تشدد میں کون ملوث تھا؟ حال ہی میں بی جے پی کے ایک لیڈر نے کھلے عام کہا ہے کہ ان کے لوگ تشدد میں ملوث تھے۔ لیکن اس لیڈر سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوئی۔
پھر بحث کا، دلیل کا کیا فائدہ؟ ہندوستان کی عدالتیں ہمیں جو کہہ رہی ہیں وہ یہ ہے کہ اگر آپ حکومت کی تنقید کرتے ہیں، اور اگر آپ مسلمان ہیں، تو آپ کے خلاف تشدد کیا جائے گا اور اس کے لیے آپ ہی ذمہ دار ہوں گے۔
عمر خالد کا جرم صرف یہ ہے کہ اس کا نام عمر خالد ہے۔ عدالت کو بلا جھجک یہ کہنا چاہیے تھا۔ یہ اس نے نہیں کہا ہے، کیا اس سے ہم مان لیں کہ انصاف کے لیے ایک خلا رہ گیا ہے؟
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر