Author Archives

اپوروانند

نریندر مودی اور سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت۔(تصویر بہ شکریہ: YouTube/narendra modi)

مودی آر ایس ایس کے حقیقی ’سپوت‘ ہیں اور سنگھ مودی سے سب سے زیادہ فیض اٹھانے والا

آر ایس ایس کے جن خیالات کو پردے میں رکھ کر اٹل بہاری یا لال کرشن اڈوانی پیش کیا کرتے تھے، ان کو مودی کے منہ سے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے سنا جا سکتا ہے۔ اور مودی کی وجہ سے بہت سے دانشور اور صنعتکار آر ایس ایس کی سلامی بجاتے ہیں۔ آر ایس ایس کواور کیا چاہیے؟

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

ہندوستانی ریاست مسلمانوں کی ہر سرگرمی کو مجرمانہ فعل کی طرح  پیش کر رہی ہے

پہلے ہم ہندوتوا کے حامیوں کو مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد پھیلاتے ہوئے دیکھتے تھے، اب ہم پولیس اور انتظامیہ کو یہی کرتے دیکھ رہے ہیں۔ پولیس مسلمانوں کو اندھیرے میں دھکیلنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ ہندوستان کے ہندوائزیشن کا یہ آخری مرحلہ ہے، جہاں سرکاری مشینری مسلمانوں کو مجرم بنانے کے نئے طریقے تلاش کر رہی ہے۔

(پوسٹر بہ شکریہ: بی جے پی)

سوغات مودی: خون سے لتھڑا ہاتھ اپنے شکار کے منہ میں مٹھائی ٹھونس رہا ہے

مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کو ہندو سماج کے مزاج کا لازمی عنصر بنانے کی مہم نریندر مودی کی قیادت میں کامیاب رہی ہے۔ قاتل کو مقتول کا سرپرست بناکر پیش کرنے سے بڑھ کر بے شرمی بھلا اور کیا ہو سکتی ہے۔

اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ہولی کھیلتے ہوئے۔(فائل فوٹو) (تصویر بہ شکریہ: پی ٹی آئی)

تہوار کی نئی تعریف: مسلم مخالف ہندو اجتماعیت کا جشن

پچھلے دس سالوں سے ہندو تہوار مسلمانوں کی مخالفت کا وسیلہ بن چکے ہیں۔ ہندوؤں کے لیے تہوار منانے کا مطلب یہی رہ گیا ہے وہ جلوس نکالیں اور مسلمانوں کو گالی دیں۔ مسلمانوں کو گالی دیتے ہوئے گانے بجائیں اور ان کے خلاف تشدد کے لیے اشتعال پیدا کریں۔

(السٹریشن : پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

ہولی اور مسلمان: کیا نفرت کا بُرا نہ مانیں، جیسے ہولی کی گالیوں کا نہیں مانتے !

انج چودھری نے جمعہ کا ذکر کرتے ہوئے اشارہ کیا کہ مسلمانوں کو ہولی کے رنگ سے اعتراض ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ اعتراض دوسروں کو بھی ہو سکتا ہے- کچھ کو رنگ سے الرجی ہو سکتی ہے، کچھ کو رنگ پسند نہیں ہو سکتا۔ ضروری نہیں کہ یہ سب مسلمان ہوں۔ جو نہیں چاہتے انہیں رنگ لگانے کی ضد کیوں؟

(السٹریشن : پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

نصاب میں منواسمرتی اور بابر نامہ: یونیورسٹی پڑھائی کی جگہ ہے، کیرتن کی نہیں

کسی بھی شخص یا متن کو مطالعہ کا موضوع بنانے کا مطلب اس کا تنقیدی جائزہ لینا ہے۔ تعلیم کا مطلب تبلیغ نہیں ہے۔ مذہب کے مطالعہ کے حوالے سے ایک بحران پیدا ہوتا ہے کیونکہ مذہبی لوگ مذہب کو عقیدے کا موضوع سمجھتے ہیں تنقید کا نہیں۔ لیکن عقیدت اور جذبے سے آزادی کلاس میں داخل ہونے کی پہلی شرط ہے۔

اروند کیجریوال۔ (تصویر بہ شکریہ:فیس بک)

فرقہ پرست سیاست کی حکمت عملی کے سہارے عام آدمی پارٹی کہاں تک جا سکتی تھی؟

‘انڈیا اگینسٹ کرپشن’ کی بے اُصولی سے قطع نطر اپنی فرقہ پرست سیاست کی ہوشیاری کا مظاہرہ عآپ نے گزشتہ 11 سالوں میں بارہا کیا۔ ہر بار کہا گیا کہ وہ اپنے آئیڈیل ازم یا مثالیت پسندی کی منکر ہے۔ لیکن آج تک کسی نے یہ نہیں بتایا کہ وہ آئیڈیل ازم کیا تھا۔ پھر ہم کس آئیڈیل سیاست سے دھوکے پر ماتم کناں ہیں؟

جمعرات کی شام منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں راہل گاندھی، ملیکارجن کھڑگے اور پارٹی کے دیگر رہنما۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@RahulGandhi)

شاہین باغ سے پارلیامنٹ تک: تشدد بی جے پی کا سیاسی حربہ

بی جے پی نے 19 دسمبر کو جو کچھ بھی کیا اس کی سنگینی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ تشدد کے بعد ہمیشہ شک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ دو فریق بن جاتے ہیں۔ دوسرے فریق کو وضاحت پیش کرنی پڑتی ہے۔ بی جے پی ہر عوامی تحریک یا اپوزیشن کے احتجاج کے دوران تشدد کا سہارا لےکر یہی کرتی ہے۔

ہندو مسلم علامات۔ (تصویر بہ شکریہ: Pixabay)

ہندو اپنے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟

نسل در نسل ہم یہ مانتے رہے ہیں کہ ہندو کا متضاد لفظ مسلمان ہے۔ میں نے بچپن میں سنا تھا کہ مسلمان ہر کام ہندوؤں کے برعکس کرتے ہیں۔ یہی بات میری بیٹی کو اس کی ٹیچر نے بتایا۔ ہندو سمجھتے ہیں کہ مسلمان شدت پسند اور تنگ نظر ہوتے ہیں، ظالم ہوتے ہیں اور انہیں بچپن سے ہی تشدد کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ان کی مسجدوں میں اسلحے رکھے جاتے ہیں۔

(السٹریشن : پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

کسی کے دین کی توہین سے بڑا کوئی گناہ نہیں؛ آج کا ہندو یہ کیوں بھول گیا ہے؟

اس نئے ہندو حق اور اختیارات کی بدولت کوئی بھی ہندو کسی بھی مسلمان سے کسی بھی موضوع پر پوچھ گچھ کرسکتا ہے۔ اسے ‘جئے شری رام’ کا نعرہ لگانے پر مجبور کر سکتا ہے ، کسی مسلمان کا ٹفن کھول کر دیکھ سکتا ہے، اس کا فریج چیک کر سکتا ہے، اس کی نماز میں خلل ڈال سکتا ہے۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/دی وائر)

مسلمانوں کا اپنے لیے آواز اٹھانا شہری ہونے کے احساس کو بیدار کر رہا ہے

ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف غیر مسلم بھی بول رہے ہیں، لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جانا چاہیے کہ مسلمانوں کو اپنے حقوق کے لیے یا اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف تنہا آواز نہیں اٹھانی چاہیے۔

(تصویر بہ شکریہ: یوٹیوب/وکی پیڈیا)

تاریخ جسٹس چندر چوڑ کو کیسے یاد رکھے گی، یہ انہوں نے خود طے کر دیا ہے

ہندوستان کی تاریخ میں یہ درج کیا جائے گا کہ جب ہندوستانی سیکولرازم کی عمارت گرائی جارہی تھی تو ہمارے کئی جج صاحبان نے اس کی بنیاد کھودنے کا کام کیا تھا۔ اس میں جسٹس چندر چوڑ کا نام سرخیوں میں ہوگا۔

(تصویر بہ شکریہ: ڈھاکہ ٹریبیون)

شیخ حسینہ نے جو پولنگ بوتھ پر نہیں ہونے دیا، وہ آخرکار سڑکوں پر ہوکر رہا

شیخ حسینہ کے خلاف ہوئی بغاوت صرف اسی صورت میں اپنے منطقی انجام کو پہنچ سکتی ہے کہ وہ طلبہ کی بات سنے؛ یہ تحریک ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کی تحریک ہے جس میں کسی قسم کا کوئی امتیاز نہیں ہوگا۔ کسی کے ساتھ کسی قسم کی تفریق نہیں کی جائے گی۔

کانوڑ یاترا کی ایک علامتی تصویر۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک/پٹنہ - پٹنہ، بہار، انڈیا)

کیا ساون میں یا کانوڑ یاترا کے دوران مسلمانوں کا چھوا کھانا ہندوؤں کے لیے ممنوع ہوگا؟

پولیس کا کہنا ہے کہ کچھ لوگوں نے جان بوجھ کر دکانوں کے نام ایسے رکھے جن سے کانوڑیوں کو بھرم ہوگیا۔ کیا پولیس کو ایسا کوئی کیس ملا ،جس میں کانوڑیوں کو مسلمانوں نے مومو میں بند گوبھی کی جگہ قیمہ کھلا دیا ہو؟ کیا کانوڑیے سبزی کا مطالبہ کر رہے تھے اور انہیں گوشت کی کوئی چیز بیچ دی گئی؟

راہل گاندھی، فوٹو بہ شکریہ: فیس بک

رام مندر تحریک کو ہرانے کی بات کہنا حقیقت سے زیادہ راہل گاندھی کے ارادے کا بیان ہے

راہل گاندھی کا یہ کہنا کہ ‘ہم نے رام مندر تحریک کو ہرا دیا ہے، وہی لال کرشن اڈوانی نے جس کی قیادت کی تھی’، آئیڈیالوجیکل وارننگ ہے۔ اصل لڑائی اس نظریے سے ہے جس نے رام جنم بھومی تحریک کو جنم دیا۔ یعنی لڑائی آر ایس ایس کے ہندو راشٹر کے تصور سے ہے۔

2024 کے لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے بعد بی جے پی ہیڈ کوارٹر میں نریندر مودی۔ (تصویر بہ شکریہ: Facebook/@JagatPrakashNadda)

عوام نے فیصلہ سنا دیا ہے کہ انہیں وزیر اعظم کے طور پر کوئی شہنشاہ نہیں چاہیے

مودی نے اپنے ووٹروں سے مسلم مخالف مینڈیٹ مانگا تھا۔ انہوں نے یہ کہہ کر ڈرایا تھا کہ اپوزیشن پارٹی کانگریس ان کی جائیداد اور دیگر وسائل چھین کر مسلمانوں میں تقسیم کر دے گی۔ بی جے پی کو واضح اکثریت نہ ملنا اس بات کا اشارہ ہے کہ ہندوستان کو نفرت کی یہ سیاست قبول نہیں ہے۔

Illustration: Pariplab Chakraborty

لوک سبھا انتخابات اور ’دی ڈکٹیٹر‘ کی دوڑ

وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت انتخابات کے آغاز کے اعلان سے پہلے سرکاری اخراجات پر بڑے پیمانے پر انتخابی مہم چلا چکی ہے۔ اس طرح وہ اس ریس میں پہلے ہی دوڑنا شروع کر چکی تھی جبکہ اپوزیشن جماعتیں اس کے آغاز کے اعلان کا انتظار کر رہی تھیں۔

ایودھیا میں زیر تعمیر رام مندر۔ (تصویر بہ شکریہ: شری رام جنم بھومی تیرتھ ٹرسٹ)

کیا اس وقت رام مندر ہندوؤں کی مذہبیت کو ظاہر کر رہا ہے؟

ایودھیا کو ہندوستان کی ، یا کہیں کہ ہندوؤں کی مذہبی راجدھانی کے طور پر قائم کرنے کے لیے سرکار کی سرپرستی میں مہم چل رہی ہے۔ 22 جنوری 2024 کو لوگوں کے ذہنوں میں 26 جنوری یا 15 اگست سے بھی بڑا اور اہم دن بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔

دیوالی 2023 کے لیے سجائے گئے ایودھیا کا زیر تعمیر رام مندر۔ (تصویر بہ شکریہ: شری رام جنم بھومی تیرتھ ٹرسٹ)

بائیس جنوری 2024 ایک طرح سے سیاست کی حقیقت اور سچائی کا امتحان ہے

چار شنکراچاریوں نے رام مندر کی تقریب میں حصہ لینے سے انکار کر دیا ہے۔ انہوں نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ یہ کوئی مذہبی تقریب نہیں ہے، یہ بی جے پی کی سیاسی تقریب ہے۔ پھر یہ سادہ سی بات کانگریس یا دیگر پارٹیاں کیوں نہیں کہہ سکتیں؟

 (تصویر بہ شکریہ: وکی پیڈیا/دی وائر)

فصیح البیانی کا مطلب راست گوئی اور ایمانداری نہیں ہے

سی جے آئی کا انٹرویو یاد دلاتا ہے کہ اپنی باتوں میں فصاحت اور بلاغت پیداکرنا ایک فن ہے اور لوگ اس میں ماہر ہوسکتے ہیں، لیکن کیا وہ ایمانداری سے بول رہے ہیں؟ چالاک مقرر اپنے لیے ایک خاص پہلو کا انتخاب کرتے ہیں یا دیے گئے پہلو کے لیے دلائل اکٹھا کرتے ہیں۔ وہ یہ کہہ کر اس ذمہ داری سے خود کو بری نہیں کر سکتے کہ یہ خیال ان کا نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ انہوں نے اپنے لیے ایک خاص پہلو کا انتخاب کیا ہے۔

ایودھیا میں زیر تعمیر رام مندر۔ (تصویر بشکریہ: شری رام جنم بھومی تیرتھ ٹرسٹ)

کانگریس کی بزدلی کے بغیر رام مندر نہیں بن سکتا تھا …

کانگریس والے ٹھیک کہتے ہیں کہ ان کے بغیر رام مندر نہیں بن سکتا تھا۔ لیکن یہ فخر کی نہیں بلکہ شرم کی بات ہونی چاہیے۔ کانگریس کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ 1949 میں بابری مسجد میں سیندھ ماری یا کوئی نقب زنی نہیں ہوئی تھی، سیندھ ماری سیکولر ہندوستانی جمہوریہ میں ہوئی تھی۔

(تصویر بہ شکریہ: نیوز کلک/وکی میڈیا کامنز)

’نیوز کلک‘ کو عوام کو باخبر رکھنے اور خبردار کرنے کی سزا مل رہی ہے

حکومت کے جس قدم سے ملک کا نقصان ہو، اس کی تنقید ہی ملک کا مفاد ہے۔ ‘نیوز کلک’ کی تمام رپورٹنگ سرکاری دعووں کی پڑتال کرتی ہے، لیکن یہی تو صحافت ہے۔ اگرسرکار کے حق میں لکھتے اور بولتے رہیں تو یہ اس کا پروپیگنڈہ ہے۔ اس میں صحافت کہاں ہے؟

بی جے پی ایم پی رمیش بدھوری وزیر اعظم نریندر مودی کے ہمراہ۔ (تصویر بہ شکریہ: Twitter/@rameshbidhuri)

نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی مسلمانوں کے خلاف منظم طریقے سے یاوہ گوئی اور دشنام طرازی کے کلچر کو فروغ دے رہی ہے

بی جے پی کی تہذیب بد زبانی اور بدتمیزی کی تہذیب ہے۔ مخالفین اور مسلمانوں کی توہین کرکے انہیں یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ بی جے پی لیڈر کہلانے کےاہل ہیں۔ بدھوڑی اس کی تازہ ترین مثال محض ہیں۔

(السٹریشن : پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

آج کا ہندوستان 1938 کا جرمنی بن چکا ہے، یہ بار بار ثابت ہو رہا ہے

مظفر نگر کی معلمہ سے پوچھ سکتے ہیں کہ وہ طالبعلم کے لیے ‘محمڈن’ کی صفت کیوں استعمال کر رہی ہیں؟ وہ کہہ سکتی ہیں کہ ان کی ساری فکرمسلمان بچوں کی پڑھائی کے حوالے سے تھی۔ ممکن ہے کہ اس کااستعمال یہ پروپیگنڈہ کرنے کے لیےہو کہ مسلمان تعلیم کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہیں اور جب تک انہیں سزا نہیں دی جائے گی، وہ نہیں سدھریں گے۔

(السٹریشن: پری پلب کرورتی/ دی وائر)

پندرہ اگست 1947 کے ہندوستان کے مقابلے آج ملک میں کہیں زیادہ بٹوارہ ہے

ہندوستان میں جگہ جگہ دراڑیں پڑ رہی ہیں یا پڑ چکی ہیں۔ یہ کہنا بہتر ہو گا کہ یہ دراڑیں ڈالی جا رہی ہیں۔ ماضی کی تقسیم کو یاد کرنے سے بہتر کیا یہ نہیں ہوگا کہ ہم اپنے زمانے میں کیے جارہےسلسلے وار بٹوارے پر غور کر یں اور اسے روکنے کے لیے کچھ کریں؟

وزیر اعظم نریندر مودی تحریک عدم اعتماد پر لوک سبھا میں اپنی تقریر کے دوران۔ (اسکرین گریب بہ شکریہ: یوٹیوب/سنسد ٹی وی)

پی ایم کے خطاب پر بھلے تالیاں بجیں، عوام کو اپنے حکمراں کی شدید نرگسیت کے حوالے سے فکرمند ہونا چاہیے

افسوس کی بات تھی کہ ایک ایسے نازک وقت میں ایوان کے اندر سرکارکے لوگ ہنسی مذاق اور چھینٹا کشی کر رہے تھے، جب منی پور میں گزشتہ تین ماہ سے لاشیں دفن کیے جانے کا انتظار کر رہی ہیں۔ اتنی سنگدلی، بے رحمی اور بے حسی کے ساتھ کوئی معاشرہ کس قدر اور کب تک زندہ رہ سکتا ہے؟

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

اکثریت پسندی سے ہندوؤں کو وہ تکلیف کبھی نہیں ہو گی جو مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہوتی ہے

اکثریت پسندی (میجوریٹیرین ازم) کا جو مطلب مسلمانوں کے لیے ہے، وہی ہندوؤں کے لیے نہیں ہے ۔ وہ اس کی ہولناکی کو کبھی محسوس نہیں کر سکتے۔ مثلاً، ڈی یو کی صد سالہ تقریبات میں جئے شری رام سن کر ہندوؤں کو وہ خوف محسوس نہیں ہوگا، جو مسلمانوں کو ہو گا، کیونکہ انہیں یاد ہے کہ ان پر حملہ کرتے وقت یہی نعرہ لگایا جاتا ہے۔

Umar-Khalid

اس ملک میں ہم مسلمانوں کو مجرم مان کر کارروائی کر رہے ہیں: پروفیسر اپوروانند

ویڈیو: جے این یو کے سابق طالبعلم عمر خالد نے شمال–مشرقی دہلی میں پھوٹنے والے 2020 فسادات سے متعلق ایک کیس میں جیل میں 1000 دن پورے کر لیے ہیں۔ حال ہی میں دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند نے ان کی رہائی کی حمایت اور مطالبہ کے لیے منعقدہ میٹنگ میں اپنے خیالات پیش کیے تھے۔

فلم دی کیرالہ اسٹوری  کا پوسٹر اور فلم کے پروڈیوسرز اور دیگر اداکار اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان سے ملاقات کر تے ہوئے۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

’دی کیرالہ اسٹوری‘ سے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈہ کے لیے دوسرے فلمسازوں کو تحریک ملے گی

‘دی کشمیر فائلز’کے بعد ‘دی کیرالہ اسٹوری’ کا بنایا جانا ایک سلسلے کی شروعات ہے۔ کم پیسوں میں، ناقص اداکاری اور ہدایت کاری کے باوجودصرف مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈے کی مدد سے اچھی کمائی کی جاسکتی ہے، کیونکہ ایسی فلموں کی تشہیر میں اب اسٹیٹ مشینری لگائی جاتی ہے اور بی جے پی کی پوری مشینری اس کے لیے کام کرتی ہے۔

(فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/@AkashvaniAIR)

’من کی بات‘ اسی طرح کی خود پسندی اور نرگسیت ہے جو اسٹالن یا ہٹلر کو تھی

بتایا جاتا ہے کہ سوویت یونین میں آپ اسٹالن کی آواز سے بچ نہیں سکتے تھے۔ اسٹالن کی آواز سڑکوں پر لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے آپ کا پیچھاکرتی تھی۔ ہٹلر نےسیلف پروپیگنڈے کے لیے ریڈیو کو کس طرح استعمال کیا، یہ ایک معروف حقیقت ہے۔ ہندوستان بھی اب ہٹلر اور اسٹالن کے راستے چل رہا ہے۔

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

اب ہندوؤں کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت ہے

اجتماعی تشدد یا نفرت کے علاوہ بغیرکسی تنظیم کےبھی بہت سے ہندوؤں میں دوسروں کے لیےنفرت ظاہر کرنے کی ہوس فحاشی کی حد تک پہنچ چکی ہے۔ان ہندوؤں میں ایسے ‘باکمال’ خطیبوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، جو کھلے عام تشدد کو فروغ دیتے ہیں۔ خطیبوں کے ساتھ ساتھ ان کے سامعین کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔

اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

عتیق احمد قتل: کیا ہمیں واقعی اس قتل پر بات نہیں کرنی چاہیے؟

مجرم کے حمایتی مجرم ہی ہو سکتے ہیں اور وہ ہیں۔ اسٹیٹ کے ذریعے سماج کے ایک حصے کو قتل کاساجھے دار بنا دینے کی سازش ہمارے لیے باعث تشویش ہے۔اس کے ساتھ ہی ہماری تشویش یہ بھی ہے کہ قانون کی حکمرانی کا مفہوم عوام کے ذہنوں سے غائب ہو گیا ہے۔

(السٹرین : پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

مسلمان اتنے ہی اور اسی طرح مسلمان ہو سکتے ہیں، جتنا اور جس طرح ہندوتوادی اجازت دیں !

اتر پردیش کی مرادآباد پولیس نے بجرنگ دل کے احتجاج اور دھمکی کے بعد ایک مسلمان کی اپنی نجی عمارت میں ہو رہی نماز تراویح کو بند کروادیا۔ کیا اب یہ حقیقت نہیں ہے کہ مسلمان یا عیسائی کا چین و سکون تب تک ہے جب تک آر ایس ایس کی تنظیمیں کچھ اور طے نہ کریں؟ کیا اب ان کی زندگی غیریقینی نہیں ہو گئی ہے؟

راہل گاندھی۔ (فوٹو بہ شکریہ: Facebook/@rahulgandhi)

راہل گاندھی پر حملے کا مطلب کیا ہے؟

راہل گاندھی آر ایس ایس کی سیاست کے خلاف بولتے رہے ہیں، اس لیے انہیں تباہ یا بے اثر کیے بغیر آر ایس ایس کا ہندوستان کو ایک اکثریتی ریاست میں تبدیل کرنے کا خواب مکمل نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی اور مرکزی حکومت ان پر پوری طاقت سے حملہ کر رہی ہے۔