فکر و نظر

کیا اس وقت رام مندر ہندوؤں کی مذہبیت کو ظاہر کر رہا ہے؟

ایودھیا کو ہندوستان کی ، یا کہیں کہ ہندوؤں کی مذہبی راجدھانی کے طور پر قائم کرنے کے لیے سرکار کی سرپرستی میں مہم چل رہی ہے۔ 22 جنوری 2024 کو لوگوں کے ذہنوں میں 26 جنوری یا 15 اگست سے بھی بڑا اور اہم دن بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔

ایودھیا میں زیر تعمیر رام مندر۔ (تصویر بہ شکریہ: شری رام جنم بھومی تیرتھ ٹرسٹ)

ایودھیا میں زیر تعمیر رام مندر۔ (تصویر بہ شکریہ: شری رام جنم بھومی تیرتھ ٹرسٹ)

پورے ہندوستان میں ہندوؤں میں مذہبیت ایک متعدی بیماری کی طرح پھیل چکی ہے۔ اس کا منبع راشٹریہ سویم سیوک سنگھ ہے لیکن اس کے جراثیم اخبارات، ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم سے پھیلائے جا رہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اور حکومتیں جوش و خروش سے اپنے تمام وسائل استعمال کر کے اس وبائی مرض کو پھیلا رہی ہیں۔

مذہبیت کے بارے میں اس طرح سے منفی انداز میں بات کرنے پر کوئی اعتراض کر سکتا ہے۔ مذہبیت کے پھیلاؤ کا موازنہ متعدی بیماری کے پھیلاؤ سے کرنے پر بھی اعتراض کیا  جا سکتا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ کیا مذہبی ہونا برا ہے۔ لیکن یہ واضح ہے کہ ہم یہاں جس مذہبیت کی بات کر رہے ہیں وہ روحانی سکون بخشنے والی مذہبیت نہیں ہے حالانکہ اس سے گمان یہی ہوتا ہے۔

مذہبیت میں ہم ایک ایسی طاقت کا تصور کرتے ہیں جو خودسے بڑی اور ماورا ہے، جو ہماری زندگی کا مالک ہے۔ یہ مذہبیت ہمیں کسی حد تک عاجزی سکھاتی ہے اور یہ احساس بھی دلاتی ہے کہ ہم ہر چیز کا فیصلہ نہیں کرتے، ہمارا بہت کچھ ہمارے اختیار سے باہر ہے۔ تو یہ سوچ ہمیں عاجزی کے ساتھ ساتھ صبر کرنا بھی سکھاتی ہے۔ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ خدا کی مرضی ہے، اس یقین سے ہمیشہ پستی نہیں آتی بلکہ منفی حالات میں زندہ رہنے کے لیے حوصلہ ملتا ہے۔ وہ یقین کو زندگی سے ختم نہیں ہونے دیتا۔ صبر کے ساتھ مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کی ہمت دیتا ہے۔

لیکن ہم جس مذہبیت کی بات کر رہے ہیں، وہ یہ نہیں ہے۔ یہ پچھلی نسل سے اگلی نسل میں منتقل ہونے والا عقیدہ یا یقین نہیں ہے۔ یہ ایک منظم طریقے سے منصوبہ بندی کے ساتھ پھیلائی جانے والی مذہبیت ہے۔ اس کے جواب میں یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ جسے مذہبیت کی فطری شکل قرار دیا جا رہا ہے وہ اتنی بھی فطری نہیں ہے۔ آخر یہ بھی کسی نہ کسی طریقے سے منظم اور منصوبہ بند ہے۔

مذہبی تجربہ طرز عمل، افکار اور رسومات کے ذریعے پیدا ہوتا ہے اور اس کے عمل کو ہم مذہبیت کہتے ہیں۔ خاندان ایسا کرتا ہے اور معاشرہ بھی۔ گھر میں ہونے والی پوجا اور دیگر مذہبی تقریبات کے ذریعے یہ مذہبیت منظم اور منتقل ہوتی ہے۔ کچھ خاص مذہبی مواقع یا تاریخیں ہیں جن میں اجتماعی تقریبات ہوتی ہیں۔ یہ سب کچھ ہمیں اتنا ہی فطری لگتا ہے جتنا کہ دن یا رات۔ لیکن اگر خاندان یا برادری مسلسل ایسا نہ کرے تو پھر کسی کے لیے مذہبی ہونا ناممکن ہو جائے گا۔

اس طرح مذہبیت  کے عمل سے مذہبیت حاصل کی جاتی ہے۔ پھر بھی سوال باقی ہے کہ ہم مذہبی کسے کہیں گے؟ کیا ایسی قائم شدہ روایات کے مطابق اصول و ضوابط پر ایمانداری سے عمل کرنے والے کو، ان کا علم رکھنے والے اور عمل کرنے والے کو، وہ مذہبی ہے؟ یا مذہبی ہونے کا مطلب کچھ اور ہے؟ کیا مذہب ہمیں زندگی کی کچھ اقدار فراہم کرتا ہے؟ کیا ان اقدار کی پیروی کرنا مذہبی ہونا ہے؟ وہ اقدار کیا ہیں؟

زندگی کی ان اقدار کی تلاش کے دوران یہ معلوم ہوتا ہے کہ تمام مذاہب عام طور پر ایک ہی قسم کی اقدار فراہم کرتے ہیں۔ ہندو اقدار ہوں یا عیسائی اقدار یا اسلامی اقدار یا یہودی اقدار، یا مختلف قبائلی برادریوں کی اقدار، ان میں مماثلت دیکھی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سب یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ تمام مذاہب کا جوہر ایک ہی ہے۔ اسے آسان طریقے سے بیان کرنا ہو تو کہہ سکتے ہیں کہ ، اچھا انسان بننا۔

یا اگرتلسی داس کو سنیں تو رحم مذہب کی بنیاد ہے اور غرور گناہ کی بنیاد ہے۔ یا یہ کہ حسن سلوک کرنا ہی  نیکی ہے اور ظلم کرنا گناہ ہے۔ جب تک جسم میں جان ہے رحم کے جذبے کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔ رحم یعنی ہمدردی۔ لہٰذا ہمدردی، خود سے آگے بڑھ کر دوسروں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی خواہش ، مذہبی ہونے کا مطلب ان تمام خصوصیات کو حاصل کرنا ہے۔ یا یہ کہ احسان کرنا ہی نیکی ہے اور ظلم کرنا گناہ ہے۔ مذہب جو فرض کرتا وہ یہ ہے۔ دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنا اور دوسروں کو تکلیف نہ دینا۔ اس میں دوسرا لفظ بہت اہم ہے۔ جو آپ جیسا نہ ہو، آپ میں سے نہ ہو، اس دوسرے کے ساتھ  آپ کا برتاؤ کیسا ہے،اسی سے طے ہوگا کہ آپ مذہبی ہیں یا نہیں۔

مذہب ہمیں پاکیزگی اور ناپاکی کا شعور بھی دیتا ہے۔ ہم اسے عام طور پر اپنے روزمرہ کے تجربات میں نہیں پاتے، اس لیے ہم خصوصی تجربات بھی تخلیق کرتے ہیں۔ تقدس کا احساس پیدا کرنے کے لیے خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے، ایسے مقدس مواقع یا دن ہیں جو باقی کیلنڈر سے مختلف ہوں گے، ایک مقدس سرزمین ہوتی ہے جو باقی زمینوں سے خاص ہوگی، چاہے وہ زیارت گاہ ہو ، مندر، مسجد، چرچ یا کسی درخت کا گھیرا یا گھر میں عبادت گاہ۔ وہ مقدس زمین جائے نماز بچھاکر کہیں بھی بنائی جا سکتی ہے جس پر آپ نماز ادا کر سکیں۔ مقدس پانی بھی ہوگا: چاہے وہ گنگا کا پانی ہو یا آب زمزم۔

میرے والد نے ابھی اپنے پڑوسی سے سنا ایک قصہ لکھا۔ وہ خود پاکستانی نژاد ہندو ہیں۔ ان کے ایک مسلمان پڑوسی بستر مرگ پر تھے۔ اپنے آخری لمحات میں انہوں نے آب زم زم کی خواہش کی۔ وہ نہیں تھا، پھر انہوں نے پوچھا کہ کیا گنگا کا پانی مل سکتا ہے؟ گاندھی نے کہا تھا کہ اگر گیتا کھو جائے  اور وہ اسے بھول جائیں، لیکن انہیں سرمن آن دی ماؤنٹ یاد ہو تو اتنے ہی روحانی سکون کا احساس ہوگا۔

پاکیزگی کے ساتھ ساتھ شان و شوکت کا احساس بھی مذہبی تجربے میں شامل ہے۔ ہمارے انسانی وجود سے باہر کسی عظیم ہستی کی عظمت۔ اس کے سامنےاپنے چھوٹے پن کا احساس۔ ایک مافوق الفطرت وجود کا تخیل جس کا احساس ہم حسی ذرائع سے کرتے ہیں۔ اپنے آپ کو اس عظیم طاقت کے ساتھ ضم کرنے کی خواہش مذہبی جذبات کا ایک حصہ ہے۔ دعا اور عبادت کرتے وقت ہم اس طاقت کے سامنے جھک جاتے ہیں۔ عبادت کے وقت ہم دنیاوی وقت سے ماورا رہتے ہیں۔

مذہبی ہونے کا ایک مطلب یہ ہے کہ نیکی اور گناہ میں مسلسل فرق کیا جائے۔ نیکی کیا ہے اور گناہ کیا ہے، اس کا شعور ہمارے طرز عمل کو طے کرتاہے۔

خوشی کا احساس بھی مذہب سے وابستہ ہے۔ لیکن یہ دنیاوی خوشی سے مختلف قسم کی خوشی ہے۔ اسی لیے مذہبی لوگ تفریح کو ترک کرنے والی چیز سمجھتے ہیں۔

ابھی ہم مذہبیت کی جس  لہر کو  اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، یا جسے متعدی بیماری کی طرح پھیلتے ہوئے دیکھ رہے ہیں،کیا وہ  ان تجربات کا نتیجہ ہے؟ اس کا جواب ہم جانتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے دیکھ لیں کہ اسے کیسے نشر کیا جا رہا ہے۔

دہلی میں عام آدمی پارٹی کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ہر منگل کو ہر وارڈ میں سندرکانڈ اور ہنومان چالیسہ کا پاٹھ کیا جائے گا۔ اتر پردیش کی حکومت نے بڑے پیمانے پر احکامات جاری کیے ہیں کہ 22 جنوری کو ایودھیا میں بن رہے رام مندر میں رام کی مورتی کی پران-پرتشٹھا سے پہلے اور بعد میں انتظامیہ یہ اہتمام کرے گی کہ ہر گلی، گاؤں اور شہر کے ہر حصے میں بھجن -کیرتن، رام مندر رتھ، کلش یاترا وغیرہ منعقد کیے جائیں اور ان سب کی ادائیگی سرکاری خزانے سے کی جائے۔

کرناٹک کی کانگریس حکومت نے 22 جنوری کے موقع پر ریاست بھر کے مندروں میں آرتی وغیرہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ گجرات، مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ اور آسام کی حکومتیں بھی 22 جنوری کو ایک خاص دن کے طور پر تقریبات کا اہتمام کر رہی ہیں۔ اس دن تقریباً تمام مقامات پر شراب اور گوشت کی فروخت پر پابندی ہوگی۔ گوا کی بی جے پی حکومت نے اس دن سرکاری تعطیل کا اعلان کیا ہے لیکن دوسری ریاستوں کی طرح شراب پر پابندی نہیں لگائی ہے۔ کئی ریاستوں سے خصوصی ٹرینیں چلائی جائیں گی تاکہ رام کے بھکت ایودھیا جا سکیں۔

ہندوستان کے وزیر اعظم نے  22 تاریخ کو ایودھیا کے نئے رام مندر میں مرکزی یجمان کی اہلیت ثابت کرنے کے لیے ‘رسم’ شروع کر دی ہے۔ وہ ایک مندر کے صحن میں پونچھالگاتے ہوئے دیکھے گئے۔ مکر سنکرانتی کے دن اپنی اونچائی سے کم اونچائی والی گایوں کو گلا پکڑ کر چارہ کھلاتے ہوئے ان کی تصاویر ان کی کاشی، ویشنو دیوی کی تصاویر کے ساتھ انہیں ہندوستان کے پہلے ہندو شہنشاہ کے طور پر قائم کرنے کی مہم میں مددگار ہیں۔ یہ کرتے ہوئے ان کے چہرے پر ان تصویروں کے حوالے سے خود اعتمادی دیکھی جا سکتی ہے۔ ان  کے وزیر قدیم زمانے کے بادشاہوں کے وزیروں کی طرح گائے کو چارہ کھلاتے اور جھاڑو لگاتے نظر آرہے ہیں۔

یہ کہنا مشکل ہے کہ پہلے کے ہندو راجا مندروں کا طواف کرتے ہوئے یا مذہبی رسومات ادا کرتے ہوئے کتنا وقت صرف کرتے تھے۔

ایودھیا کو ہندوستان کی ، یا کہیں کہ ہندوؤں کی مذہبی راجدھانی کے طور پر قائم کرنے کے لیے سرکار کی سرپرستی میں مہم چل رہی ہے۔ 22 جنوری 2024 کو لوگوں کے ذہنوں میں 26 جنوری یا 15 اگست سے بھی بڑا اور اہم دن بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔

اس کے پھیلاؤ کو ہندو دنیا میں ایک عالمی وبا کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ امریکہ میں ہندو 22 جنوری کے استقبال کے لیے کار ریلیاں، دیوالی وغیرہ کا اہتمام کر رہے ہیں۔

اس خدشے کے پیش نظر کہ بھارتیہ جنتا پارٹی ہی کہیں بازی نہ مار لے جائے اور 22 جنوری ہی ہندو کیلنڈر کی پہلی تاریخ نہ بن جائے، دوسری سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما اپنے ہندو پن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

مکر سنکرانتی کے دن کانگریس پارٹی کے کئی لیڈر ایودھیا پہنچے اور وہاں ننگے بدن ، ان میں سے ایک اپنے جینوکی نمائش کرتے ہوئے سریو میں ڈبکی لگاتے ہوئے ہر زاویے سے اپنی تصویریں بنواتے رہے۔ اس دوران وہ پرجوش انداز میں رام سیتا کی جئے کے نعرے لگاتے رہے۔ یہ سب اتنا بدصورت، بھیانک اور سخت تھا کہ ان کے ویڈیو کو پورا دیکھنا مشکل تھا۔ اس کے بعد، ان میں سے ایک لیڈر نے اپنی ریاست ہریانہ میں اپنے گاؤں لوٹ کراور ایودھیا درشن کے لیے  گاؤں والوں سے آشیرواد لیتے ہوئے تصویریں بنوائیں۔

ہم سرکاری افسران اور پولیس افسران کو بھی سرعام اپنے ہندوپن کا اعلان کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ اندور کے میئر نے دکانداروں سے دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ وہ ایودھیا میں زیر تعمیر رام مندر کی نقل اپنی دکانوں میں رکھیں گے۔

اڑیسہ کے وزیر اعلیٰ نے پوری میں جگناتھ کے پری کرما پروجیکٹ کے لیے روزانہ 10 ہزار زائرین کو جمع کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے یہ کام 22 جنوری کی کاٹ لیے کیا ہے۔

تعلیمی اداروں میں 22 جنوری کے آس پاس پروگرام منعقد کیے جا رہے ہیں۔ کالجوں میں بڑی ٹی وی اسکرینیں لگائی جارہی ہیں تاکہ 22 تاریخ کو ایودھیا میں رام کی مورتی کی تنصیب سے متعلق مناظر دیکھے جاسکیں۔

تمل ناڈو، کیرالہ، بنگال اور بہار کو چھوڑ کر تقریباً ہر ریاست کی حکومتیں ہندوتوا کے انفیکشن کی محرک یا ذریعہ بن چکی ہیں۔ تمل ناڈو، کیرالہ، بنگال اور بہار اس دوڑ میں شامل نہیں ہیں، انہیں ہندو مخالف قرار دیا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ وہ لوگ جو 22 تاریخ کو ہونے والے پروگرام میں حصہ نہیں لے رہے ہیں انہیں ہندو مخالف کہا جا رہا ہے۔ کانگریس پارٹی کے لیڈروں نے 22 تاریخ کے دعوت نامے کو قبول نہیں کیا ہے۔

بی جے پی کو تو چھوڑیں، خود ان ہی کی اپنی پارٹی کے لیڈر ان پر لعنت بھیج رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کانگریس لیڈروں نے ایسا کرکے ہندوؤں کے جذبات کو مجروح کیا ہے۔ کانگریس کے کئی لیڈر کہہ رہے ہیں کہ وہ جائیں گے، اعلیٰ لیڈر جو چاہیں کریں۔

اگر اس پیش رفت کو دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں ایک بات پر متفق ہیں کہ ایودھیا کا رام مندر ہندو عقیدے کی علامت ہے۔ اس مندر کو تقریباً ہر کسی نے ہندوؤں کا سب سے اہم مذہبی مقام تسلیم کیا ہے۔ تو کیا اس وقت رام مندر ہندوؤں کی  مذہبیت کو ظاہر کر رہا ہے؟ کیا لوگ بھول گئے ہیں کہ یہ رام مندر سلسلہ وار فریب، جھوٹ اور جرم کی مدد سے بنایا گیا ہے۔ یہ روحانیت کی نہیں بلکہ ہندوتوا کے  اقتدار کی علامت ہے جسے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے بنایا ہے۔

یہ ہندوؤں کی روحانیت کی نہیں بلکہ ان کی اکثریت کی فتح کی یادگار ہے۔ یہ مذہبی اقتدار کا اعلان نہیں بلکہ سیاسی اقتدار کا اعلان ہے۔ یہ مندر مذہب کو پالیسی کے بجائے حکمت عملی میں بدل دیتا ہے۔ ان سب کے باوجود، کیا یہ مذہبی تجربہ بھی فراہم کرتا ہے؟

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)