دھوکہ دہی سےہونے والے تبدیلی مذہب کو روکنے کے لیےمرکز اور ریاستوں کو کڑی کارروائی کرنے کی ہدایت دینے کی گزارش کرنے والی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ ہم پورے ملک کے لیے فکر مند ہیں۔ اگر یہ آپ کی ریاست میں ہو رہا ہے تو یہ برا ہے۔ اگر نہیں ہو رہا ہے تو اچھی بات ہے۔ اسے سیاسی ایشو نہ بنائیں۔
اتر پردیش کےگورکھپور شہر میں میاں بازار، مفتی پور، علی نگر، ترکمان پور، اسماعیل پور، رسول پور، ہمایوں پور نارتھ، داؤد پور، قاضی پور خرد جیسے مسلم ناموں والے وارڈوں کے نام کو بدل دیا گیا ہے ۔ مثال کے طور پر اب الہٰی باغ کو بندھو سنگھ نگر، اسماعیل پور کوصاحب گنج اور ظفربازار کو آتمارام نگر کے نام سے جانا جائے گا۔
مغربی بنگال کے بی جے پی ایم ایل اے اور ریاست میں حزب اختلاف کے رہنما شبھیندو ادھیکاری نے کہا ہے کہ وزیر داخلہ امت شاہ نے پارلیامنٹ ہاؤس میں ایک میٹنگ کے دوران انہیں یقین دلایا کہ شہریت ترمیمی قانون سے متعلق ضوابط کووڈ 19ٹیکہ کاری کی احتیاطی خوراک کے مکمل ہونے کے بعد تیار کیے جائیں گے۔
ویڈیو: بی جے پی شہریت قانون یعنی سی اے اے پر ہندوستانیوں کو مزیدبیوقوف نہیں بنا سکے گی۔ افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے ہندوؤں اور سکھوں کے تحفظ کی باتوں اور دعووں کے بیچ مودی حکومت کے قول و فعل کےتضاد کو اجاگر کر رہے ہیں ساحل مرلی مینگھانی۔
گراؤنڈ رپورٹ: ایودھیا میں زیر تعمیر رام مندر میں متوقع رش سےنمٹنے کے لیے سڑک توسیع کےمنصوبوں پر کام جاری ہے۔ مندر کے آس پاس کےعلاقوں میں برسوں سے چھوٹی دکانوں پر پوجا کا سامان وغیرہ فروخت کر نے والے دکانداروں کو ڈر ہے کہ کہیں سرکاری بلڈوزر ان کی روزی روٹی کو بھی نہ کچل دے۔
ویڈیو: اتر پردیش کی لکھنؤ سینٹرل سیٹ سے کانگریس نےسی اے اے تحریک کے دوران جیل جانے والی سماجی کارکن صدف جعفر کواپنا امیدوار بنایا ہے۔ جعفر کو سی اے اے مخالف مظاہروں کا فیس بک لائیو کرنے کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔ اسکول ٹیچر اور سماجی کارکن سے لیڈر بنیں صدف سے عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
گراؤنڈ رپورٹ: اسمبلی انتخاب کے اعلان سے ٹھیک پہلے اتر پردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت نے جھانسی ریلوے اسٹیشن کا نام بدل کر ‘ویرانگنا لکشمی بائی’ کر دیا تھا، جس کی وجہ سے جھانسی کے لوگ خوش نہیں ہیں۔حتیٰ کہ خود کو حکومت اور بی جے پی کا حامی بتانے والے بھی اس کو غلط کہہ رہے ہیں۔
اتر پردیش میں اسمبلی انتخاب میں ابھی تقریباً پانچ مہینے باقی ہیں،لیکن سیاسی سرگرمیاں تیز ہو چکی ہیں۔ کابینہ میں تبدیلی سے لےکرسیاسی پارٹیوں کے گٹھ جوڑ تک دیکھنے کو مل رہے ہیں۔لیکن صوبے کی عوام کیا بدلاؤ چاہتی ہے یا موجودہ نظام میں ان کا بھروسہ بنا ہوا ہے؟
گئو کشی کے ملزم کی ضمانت عرضی کو خارج کرتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ کے جج شیکھر کمار یادو نے کہا کہ جب گائے کی فلاح ہوگی،تبھی ملک کی ترقی ہوگی۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ سائنسدانوں کا خیالتھا کہ گائے واحد جانور ہے، جو آکسیجن لیتی اور چھوڑتی ہے۔
یہ معاملہ اتر پردیش کے سیتاپورضلع کا ہے، جہاں پچھلے سال جولائی میں مبینہ گئو کشی کے الزام میں عرفان، رحمت اللہ اور پرویز کو گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب الہ آباد ہائی کورٹ نے اتر پردیش سرکار کے ذریعےاین ایس اےکے استعمال پر سوال اٹھایا ہے، جو صوبےکو بنا الزام یاشنوائی کے گرفتاری کا اختیار دیتا ہے۔
ویڈیو: اتر پردیش میں2022 میں ہونے والےانتخابات سے پہلےاپوزیشن پارٹی کانگریس اور سماجوادی پارٹی متحرک ہو گئی ہیں۔ کانگریس صوبے میں نظم ونسق کو مدعا بناکر انتخابی میدان میں جانے کی تیاری کر رہی ہے۔ وہیں جب وزیر اعظم نریندر مودی وارانسی میں یوگی سرکار کی تعریف کر رہے تھے، اس وقت سماجوادی کارکن بڑھتی مہنگائی کے خلاف پورے صوبے میں احتجاج کر رہے تھے۔ دونو پارٹیاں انتخاب کے مرکز میں عام لوگوں سے جڑے مدعوں کو لانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
آسام میں ایک کتاب کے اجرا کے دوران آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت نے بدھ کو کہا کہ آزادی کے بعد ملک کے پہلےوزیر اعظم نے کہا تھا کہ اقلیتوں کا دھیان رکھا جائےگا اور اب تک ایسا ہی کیا گیا ہے۔ ہم ایسا کرنا جاری رکھیں […]
وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے گزشتہ دنوں گورکھپور کے دو کمیونٹی ہیلتھ سینٹرکو گود لینے کا اعلان کیا تھا۔ قیام کے کئی سالوں بعد بھی یہاں نہ مناسب تعداد میں طبی عملہ ہیں، نہ ہی دیگر سہولیات۔المیہ یہ ہے کہ دونوں اسپتالوں میں ایکسرے ٹیکنیشن ہیں، لیکن ایکسرے مشین ندارد ہیں۔
اسمبلی انتخابات سے کچھ مہینے پہلے اتر پردیش بی جے پی میں‘سیاسی عدم استحکام’کا انفیکشن شروع ہو گیا، جس کے مرکزمیں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ہیں۔ بی جے پی-آر ایس ایس کے رہنماؤں کے غوروخوض کے بیچ سوال اٹھتا ہے کہ حالیہ دنوں میں ایسا کیا ہوا کہ انہیں یوپی کا میدان فتح کرنااتنا آسان نہیں دکھ رہا، جتنا سمجھا جا رہا تھا۔
اتر پردیش کی سیاست کو لےکربی جے پی کے باربار ‘سب کچھ ٹھیک ہے’کہنے کے باوجود کچھ بھی ٹھیک نہ ہونے کے اندیشےختم ہوتے نظر نہیں آ رہے۔
ویڈیو: اتر پردیش کے گورکھپور واقع گورکھ ناتھ مندر سے لگے ایک درجن سے زیادہ گھروں کو ہٹاکر وہاں مبینہ طور پر مندر کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے پولیس فورس کی تعیناتی کو لےکر ہنگامہ مچا ہوا ہے۔متاثرین کاالزام ہے کہ دباؤ میں ان سے دستخط کروائے گئے، جبکہ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ سب نے بنا دباؤ کے دستخط کیے ہیں۔ اس مدعے پر گورکھپور نیوزلائن ویب سائٹ کے مدیر منوج سنگھ سے مکل سنگھ چوہان کی بات چیت۔
ویڈیو:اتر پردیش کے گورکھپورواقع گورکھ ناتھ مندر کے آس پاس کے ایک درجن سے زیادہ گھروں کو ہٹاکر مبینہ طور پر مندر کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے پولیس فورسز کی تعیناتی کو لےکر وہاں ہنگامہ مچا ہوا ہے۔متاثرین کا الزام ہے کہ دباؤ میں ان سے ایک کاغذ پر دستخط کروائے گئے اور پوری جانکاری نہیں دی گئی۔ وہیں انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ تمام لوگوں نے بنا دباؤ کے دستخط کیے ہیں۔
گراؤنڈ رپورٹ: گزشتہ دنوں گورکھپورانتظامیہ پرگورکھ ناتھ مندر کے پاس زمین کےحصول کے لیےیہاں کے کئی مسلم خاندانوں سے زبردستی ایک کاغذ پردستخط کروانے کا الزام لگا ہے۔ کئی خاندانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نےدستخط تو کر دیےہیں،لیکن وہ اپنا گھر نہیں چھوڑنا چاہتے۔
گزشتہ28 مئی کو مرکزی حکومت نے 13اضلاع میں رہ رہے افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان کے غیرمسلموں سے ہندوستانی شہریت کے لیےدرخواست طلب کرنے سےمتعلق نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔ انڈین یونین مسلم لیگ کی جانب سے مانگ کی گئی ہے کہ جب تک سی اے اے کے آئینی جواز کوچیلنج دینے والی عرضی عدالت میں زیرالتواہے تب تک مرکز کو شہریت سے متعلق نئے فیصلے پر روک لگانے کی ہدایت دی جائے۔
مرکز کی مودی حکومت نے ایک نوٹیفکیشن جاری کرکے گجرات، چھتیس گڑھ، راجستھان، ہریانہ اور پنجاب کے 13اضلاع میں رہ رہے افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان کے ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور عیسائی کمیونٹی کے لوگوں کو ہندوستانی شہری کے طور پررجسٹر کرنے کی ہدایت دی ہے۔
یوگی حکومت کا یہ حکم ایسے وقت میں آیا ہے جب ہندوستان کے اکثرصوبوں کے ساتھ ساتھ اتر پردیش بھی کووڈ 19کے متاثرین کی بڑھتی تعداد اورعلاج کی کمی سے متاثرہے اور صوبے کی طبی سہولیات پر سوال اٹھ رہے ہیں۔
یوپی سرکار کی جانب سے گزشہ تین سالوں میں درج قومی سلامتی قانون کے 120معاملوں پر الہ آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا ہے، جن میں آدھے سے زیادہ معاملے گئو کشی اورفرقہ وارانہ تشدد سے متعلق تھے۔ انڈین ایکسپریس کے مطابق کورٹ نے فرقہ وارانہ معاملوں سے متعلق تمام حبس بے جا کی عرضیوں کو سنتے ہوئے این ایس اےکو رد کر دیا۔
یوگی حکومت کی ایک اہم نشانی یہ ہے کہ اس نے میڈیا کو چپ کرانے کے لیے ایف آئی آر اور دھمکیوں کا سہارا لیا ہے۔ ان کے غیر مہذب تبصرے کا ویڈیو شیئر کرنے کے بعد دی گئی ایف آئی آر کی دھمکیاں اسی بات کی تصدیق […]
پولیس اور عدالت کے ریکارڈزدکھاتے ہیں کہ این ایس اے لگانے کے معاملوں میں ایک ہی طرز کی پیروی کی جا رہی تھی، جس میں پولیس کی جانب سےالگ الگ ایف آئی آر میں اہم جانکاریاں کٹ پیسٹ کرنا، مجسٹریٹ کے دستخط شدہ ڈٹینشن آرڈر میں دماغ کا استعمال نہ کرنا، ملزم کو متعینہ ضابطہ مہیا کرانے سے انکار کرنا اور ضمانت سے روکنے کے لیے قانون کا لگاتار غلط استعمال شامل ہے۔
اتر پردیش میں میرٹھ ضلع کے تھانہ سردھنا علاقے کا معاملہ۔ گزشتہ یکم اپریل کو دسویں میں پڑھنے والی طالبہ کو گاؤں کے ہی چار نوجوانوں نے اغوا کرکےگینگ ریپ کیا تھا۔ اہل خانہ کا الزام ہے کہ ملزمین نے ریپ کے بعد زہر پلایا تھا۔ وہیں پولیس کہہ رہی ہے اس کے پاس سے سوسائیڈ نوٹ ملا ہے اس لیے یہ خودکشی ہے۔
بی جے پی نے آسام میں نوجوانوں کو دو لاکھ سرکاری نوکری دینے کا وعدہ کیا ہے اس کے تحت 31 مارچ 2022 تک ایک لاکھ نوکریوں دی جائیں گی۔
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وی گوپال گوڑا نے ایک پروگرام میں کہا کہ اس وقت ہندوستانی شہری شدید بحران سے گزر رہے ہیں اور قانون کی حکومت کو داؤ پر لگا دیا گیا ہے۔ شہریت کا مسئلہ خوفناک ہو گیا ہے۔
شہریت قانون کی مخالفت کا مرکز رہےآسام میں27 مارچ سے تین مرحلوں میں انتخابات ہیں اور سی اے اےمخالف مظاہروں سےابھرنےوالی جماعتوں کے ساتھ اپوزیشن پارٹیوں کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر ریاست میں سی اے اے کو نافذنہیں ہونے دیں گے۔
اتر پردیش سرکار نے کہا کہ ہے کہ ریاست میں ایک جنوری2011 یا اس کے بعد سے سڑکوں، گلیوںوغیرہ پر بنائے گئے مذہبی ڈھانچے یا تعمیراتی مقامات کو چھ مہینے کے اندرمنتقل کیا جائے یا اسے ہٹایا جائے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جان بوجھ کر نافرمانی کرنا ہائی کورٹ کے احکامات کی ہتک ہوگی،جس کو مجرمانہ ہتک مانا جائے گا۔
کانگریس رہنما گورو گگوئی نے شہریت قانون (سی اے اے)کو ووٹوں کے لیے سماج کو تقسیم کرنے والا بی جے پی کا سیاسی ہتھیار بتایا ہے۔ گگوئی نے کہا کہ اسمبلی انتخاب میں آسام کی پہچان اور ترقی دونوں داؤ پر ہیں۔ آسام میں پارٹی کے اقتدار میں آنے پرسی اے اے کو نافذ نہیں کرنے دیا جائےگا۔
آسام اسمبلی انتخابات سے پہلے ریاست میں مقتدرہ بی جے پی پر شہریت قانون پر بولنے سے بچنے کا الزام لگ رہا ہے، جبکہ سی اے اے مخالف تحریکوں سے نکلی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ اپوزیشن پارٹیاں اس کو بڑا مدعا بنانے میں لگی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر سی اے اے نافذ نہیں ہونے دیں گی۔
گجرات کے وزیر اعلیٰ وجئے روپانی نے گودھرا میں ایک انتخابی ریلی کے دوران کہا کہ ان کی سرکار ایک مارچ سے شروع ہو رہے ودھان سبھاسیشن میں لو جہاد کے خلاف قانون لانا چاہتی ہے تاکہ ہندو لڑکیوں کے اغوا اور تبدیلی مذہب کو روکا جا سکے۔
جنوری2019 میں ریاستی حکومت نے آوارہ گایوں کی دیکھ بھال کے لیے عارضی گئوشالائیں بنائی تھیں۔ اب باندہ ضلع کے کئی پنچایت کے سربراہوں نے وزیر اعلیٰ کو لکھا ہے کہ اپریل2020 کے بعد سے انہیں گائے کی دیکھ بھال کے لیے کوئی فنڈ نہیں دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے کئی جانوروں کی بھوک سے موت ہوچکی ہے۔
یوگی آدتیہ ناتھ کا کہنا تھا کہ مسلم لڑکیاں خود ہی ہندو لڑکوں سے شادیاں کرکے بہ رضاو رغبت مذہب تبدیل کرتی ہیں۔
مدھیہ پردیش اور اڑیسہ کےتبدیلی مذہب کے انسداد سے متعلق قوانین میں کہیں بھی بین مذہبی شادی کا ذکر نہیں تھا اور نہ ہی سپریم کورٹ نے اس پر کوئی تبصرہ کیا تھا۔ ایسے میں اتر پردیش سرکار کا ایسا کوئی اختیار نہیں بنتا کہ وہ بنا کسی ثبوت یادلیل کے بین مذہبی شادیوں کو نظم و نسق کے سوال سے جوڑ دے۔
اگرہندوستان میں رہنے والے تمام 172ملین مسلمان بھی صرف ہندو لڑکیوں سے ہی شادیا ں کرتے ہیں، تو بھی 966ملین ہندوؤں کو اقلیت میں تبدیل نہیں کرسکتے ہیں۔
کرناٹک میں‘مورل پولیس’کا کام کرنے سے لےکر اتر پردیش کے مظفرنگر میں فسادات بھڑ کانے تک‘لو جہاد’کا راگ چھیڑ کر ہندو رائٹ ونگ تنظیموں نے اپنے کئی مقاصد کی تکمیل کی ہے۔
ایک طرف ہندوستانی آئین بالغ شہریوں کو اپنا شریک حیات منتخب کرنے کااختیار دیتا ہے، مذہب چننے کی آزادی دیتا ہے، دوسری طرف بی جے پی مقتدرہ حکومتیں آئین کی بنیادی قدروں کے برعکس قانون بنا رہی ہیں۔
ویڈیو: مبینہ لو جہاد کو لےکر اتر پردیش سرکار نے آرڈیننس کو منظوری دے دی ہے۔ اس کے تحت شادی کے لیے فریب، لالچ یا جبراًمذہب تبدیل کرائے جانے پر زیادہ سے زیادہ10 سال کی قیداور جرما نے کی سزا کا اہتمام ہے۔
بی جے پی لو جہاد کے راگ کو کیوں نہیں چھوڑ رہی؟وہ ہندوؤں میں خوف بٹھا رہی ہے کہ ‘ہماری’عورتوں کا استعمال کرکے ‘ودھرمی’اپنی تعداد بڑھانے کی سازش کر رہے ہیں۔ ‘ودھرمیوں’ کی تعداد میں اضافہ پریشانی کا سبب ہے۔ تعداد ہی طاقت ہے اور وہی برتری کی بنیاد ہے۔ اس لیے ایسی ہر شادی یا رشتے کی مخالفت کی جانی ہے، کیونکہ اس سے ‘ودھرمی’ کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔