یوگی آدتیہ ناتھ کے ایس آئی آر میں بے ضابطگیوں کے بارے میں بولنے والے ملک کے پہلے بھاجپائی چیف منسٹر بننے کو کچھ لوگوں نے اس سے پہلے دیگر وزرائے اعلیٰ کی جانب سے ایس آئی آر سے متعلق بے ضابطگیوں کی شکایتوں کی تصدیق کے طور پر دیکھا ہے۔ تاہم، کئی حلقوں میں یہ سوال پوچھا جانے لگا ہے کہ کیا یوپی میں ایس آئی آر میں ’کھیل‘ کرنے کے ارمانوں کے برعکس بی جے پی کو ہی بڑے نقصان کا ڈر ستانے لگا ہے؟
مغربی بنگال میں ایس آئی آر کے تحت الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کی گئی مسودہ ووٹر لسٹ ریاست میں طویل عرصے سے جاری سیاسی بیانیہ کو چیلنج کرتی ہے۔ اعداد و شمار ثابت کرتے ہیں کہ جنہیں ‘باہری’ کہا جاتا ہے، وہ دراصل سب سے زیادہ عرصے سے آباد ‘ٹھوس’ اور حقیقی شہری ہیں۔
منگل کو مغربی بنگال کے چیف الیکٹورل آفیسر نے ایس آئی آر کے تحت ریاست کی ڈرافٹ ووٹر لسٹ سے حذف کیے گئے ناموں کی فہرست جاری کی۔ اس میں سے 5,820,898 پہلے سے رجسٹرڈ ووٹر کے نام مختلف وجوہات -موت، ٹرانسفر، ڈپلی کیشن، گمشدگی اور دوسری وجوہات کی بنا پر ہٹائے گئے ہیں۔ متاثرہ لوگ 15 جنوری تک اپنے دعوے اور اعتراضات درج کر سکتے ہیں۔
لوک سبھا میں منگل کو انتخابی اصلاحات پر بحث شروع ہوئی۔ اس دوران اپوزیشن نے 12 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں جاری ایس آئی کارروائی آر کی خامیوں کو اجاگر کیا۔ بحث کے دوران اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن کمیشن پر غیر جانبداری کے فقدان کا الزام لگایا اور بیلٹ پیپر سے انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا۔
دہلی سمیت کئی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں جاری ایس آئی آر عمل کے درمیان، دہلی بی جے پی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس عمل کے پس پردہ اسلامو فوبک پوسٹ شیئر کرنے کے الزام لگ رہے ہیں۔ زمینی سطح پر ایس آئی آرسے متعلق انسانی اور انتظامی مسائل مسلسل سامنے آ رہے ہیں، لیکن بی جے پی اس پوری کارروائی کو محض ‘دراندازوں کو ہٹانے’ کی مہم کے طور پر پیش کر رہی ہے۔
پارلیامنٹ کا سرمائی اجلاس سوموار کو شروع ہوا ہے، جس میں اپوزیشن جماعتوں نے ایس آئی آر، دہلی بم بلاسٹ کے بعد قومی سلامتی، اور بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی جیسے مسائل پر بحث کا مطالبہ کیا۔ دریں اثنا، وزیر اعظم نریندر مودی نے اپوزیشن کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پارلیامنٹ میں ڈراما نہیں ڈیلیوری ہونی چاہیے۔ نعروں کے لیے پورا ملک خالی پڑا ہے۔
کانگریس کی جانب سے بہار میں ایس آئی آر کے بعد ووٹروں کی تعداد میں 3 لاکھ اضافے کے بعد ‘ووٹ چوری’ کا الزام لگانے پر الیکشن کمیشن نے کہا کہ یہ اضافہ 10 اکتوبر تک موصول ہونے والے نئے ووٹر فارموں کی وجہ سے ہوا ہے۔ کمیشن کے مطابق، قواعد کے تحت نئے ووٹروں کو نامزدگی کی آخری تاریخ سے 10 دن پہلے تک شامل کیا جا سکتا ہے۔
بہار اسمبلی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں 20 اضلاع کی 122 سیٹوں کے لیے ووٹنگ جاری ہے۔ دریں اثنا، الیکشن کمیشن کو انتخابی اعداد و شمار میں مبینہ ہیرا پھیری اور سیاسی تعصب کے الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کیونکہ اس نے ابھی تک پہلے مرحلے میں ڈالے گئے ووٹوں کی کل تعداد اور جنس کے لحاظ سے ووٹرز کی تفصیلات جاری نہیں کی ہے۔
کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے ایس آئی آر ووٹ چوری کو چھپانے اور اسے ادارہ جاتی بنانے کا عمل ہے۔ وہیں، تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے کہا کہ ایس آئی آر کا فارم الجھن اور پیچیدگیوں سے بھرا ہوا ہے، اور عجلت میں اس کو کرنےسے ووٹروں کا نام ہٹنے کا خطرہ ہے۔
الیکشن کمیشن نےبتایا ہے کہ اب گوا، پڈوچیری، چھتیس گڑھ، گجرات، کیرالہ، مدھیہ پردیش، اتر پردیش، راجستھان، مغربی بنگال، تمل ناڈو، انڈمان اور نکوبار جزائر اور لکشدیپ میں ایس آئی آر کرایا جائے گا۔ آسام کو اس عمل سے باہر رکھا گیا ہے۔ بنگال، تمل ناڈو اور کیرالہ کے ساتھ ساتھ آسام میں بھی اگلے سال اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔
کانگریس ایم پی اور لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے جمعرات کو ایک پریس کانفرنس میں چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار پر سنگین الزامات لگائے۔ مختلف دستاویزات دکھاتے ہوئے انہوں نے الزام لگایا کہ ملک بھر میں ووٹر لسٹ سے بڑے پیمانے پر ناموں کو حذف کیا جا رہا ہے اور الیکشن کمیشن ایسا کرنے والوں کو بچا رہا ہے۔
الیکشن کمیشن نے حق اطلاعات قانون کے تحت پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں 2003 کے بہار ایس آئی آر کی کاپی فراہم کرنے سے انکار کردیا۔ اس کے بجائے، اس نے انتخابی ریاست میں جاری موجودہ عمل کے لیے جون 2025 کے آرڈر کا لنک دے دیا ہے۔
الیکشن کمیشن کا یہ بیان کہ 1 لاکھ پولنگ بوتھ کی سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھنے میں 273 سال لگیں گے، بیل گاڑی کے دور کی یاد دلاتا ہے۔ کیا کمیشن نہیں جانتا کہ ڈیٹا اینالیٹکس میں ہندوستان نے کتنی ترقی کرلی ہے؟
مہاراشٹر کے پالگھر کےنالاسوپارہ اسمبلی حلقہ کی 39 سالہ سشما گپتا کا نام ووٹر لسٹ میں چھ بار درج ہے، اور ہر اندراج کا ایک الگ ای پی آئی سی نمبر ہے۔ یہ خبر ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے ووٹر لسٹ میں کئی تضادات کی نشاندہی کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی بہارایس آئی آر کو لے کربھی کئی سوال اٹھ رہے ہیں۔
بہار میں ووٹر لسٹ پر نظر ثانی کو لے کر سپریم کورٹ میں بحث شہریت ثابت کرنے کے معاملے پر مرکوز ہوگئی ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق، اس کوشہریت کا ثبوت مانگنے کا اختیارہے۔ لیکن وزارت داخلہ ایسے دستاویزوں کی فہرست نہیں دے پا رہا ہے جو شہریت کو ثابت کرتے ہوں۔
بہار کے بھوجپور ضلع کے آرہ اسمبلی حلقہ کے 41 سالہ منٹو پاسوان کو الیکشن کمیشن نے ایس آئی آر مہم کے تحت جاری کی گئی ڈرافٹ ووٹر لسٹ میں مردہ قرار دے دیا تھا۔ 12 اگست کو پاسوان سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔
سوموار کو اپوزیشن لیڈروں نے بہار ایس آئی آر کے خلاف پارلیامنٹ ہاؤس سے الیکشن کمیشن کے دفتر تک مارچ نکالا تھا۔ اس دوران راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں قائدحزب اختلاف ملیکارجن کھڑگےاور راہل گاندھی سمیت اپوزیشن کے ارکان پارلیامنٹ کو دہلی پولیس نے حراست میں لیا۔
کانگریس کے رکن پارلیامنٹ اور لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف راہل گاندھی نے انتخابات کے دوران ووٹر لسٹ میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے اپنے الزامات کا اعادہ کرتے ہوئے ایک ریلی میں کہا کہ الیکشن کمیشن کو اپوزیشن لیڈروں کو دھمکی دینے کے بجائے مشین ریڈ ایبل فارمیٹ ووٹر لسٹ دستیاب کرانی چاہیے اور سی سی ٹی وی فوٹیج کوضائع نہیں کرنا چاہیے۔
راہل گاندھی نے مہادیو پورہ اسمبلی حلقہ کی ووٹر لسٹ میں فرضی پتے، ڈپلیکیٹ ووٹر اور’ووٹ چوری’ کے الزام لگاتے ہوئے الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ اب یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ گاندھی یا کسی دوسرے اپوزیشن لیڈر کے ساتھ زبانی جمع خرچ کرنےکے بجائے ان الزامات کا جائزہ لے اور واضح جواب دے۔
کانگریس لیڈر اور لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے انتخابات کے دوران ووٹر لسٹ میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام لگایا ہے۔ انہوں نے مشین ریڈ ایبل فارمیٹ میں ووٹر لسٹ فراہم نہ کرنے پر بھی الیکشن کمیشن کو نشانہ بنایا اور حکمراں جماعت بی جے پی کے ساتھ ملی بھگت کا الزام لگایا۔
بہار میں ووٹر لسٹ کے اسپیشل انٹینسو ریویژن کے خلاف ‘انڈیا’ الائنس کے وفد نے بدھ کی شام الیکشن کمیشن سے ملاقات کی۔ وفد میں شامل اکثر رہنماؤں نےاس میٹنگ کو ‘مایوس کن’ اور ‘ناخوشگوار’ قرار دیا۔
بہار اسمبلی انتخابات سے پہلے الیکشن کمیشن نے ووٹر لسٹ پر اسپیشل انٹینسو ریویژن شروع کیا ہے۔ آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو نے کمیشن کی منشا پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ کیسی نظرثانی ہے، جہاں ہر ہفتے نئے آرڈر آتے ہیں اور پرانے آرڈر بدل دیےجاتے ہیں؟ کیا کمیشن خود ہی طے نہیں کر پا رہا ہے کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے؟
مہاراشٹر واقع تنظیم ووٹ فار ڈیموکریسی نے انتخابی عمل میں کچھ واضح خامیوں کی نشاندہی کرنے کے علاوہ تین اہم دعوے کیے ہیں، جو الیکشن کمیشن کے طریقہ کارپر سوال قائم کرتے ہیں۔
کچھ معاملوں میں ای وی ایم ووٹوں کی گنتی ای وی ایم میں ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد سے کم ہے۔ حالاں کہ، اس کے پیچھےکی وجوہات کو بیان کرنے کے لیے وضاحت پیش کی گئی ہے، لیکن بعض معاملوں میں شمار کیے گئے ووٹوں کی تعداد میں فرق متعلقہ سیٹ پر جیت کے مارجن کا تقریباً نصف ہے۔
پورے ہندوستان سےموصول ہونے والی خبریں بتا رہی ہیں کہ 2014 اور 2019 کا ‘مودی میجک’ اس بار ندارد ہے کیونکہ انتخابات لوک سبھا حلقہ اور ریاستی سطح پر لڑے گئے ہیں، جہاں بے روزگاری، مہنگائی اور دیہی بحران پورے ہندوستان میں یکساں اور بنیادی ایشو ہیں۔
اے ڈی آر اور کامن کاز کی درخواست پر الیکشن کمیشن کو ووٹروں کی تعداد سے متعلق فارم 17 سی کے ریکارڈ کو پبلک کرنے کی ہدایت دینے سے سپریم کورٹ کی جانب سے انکار اور کمیشن کے رویے کے حوالے سے پیدا ہونے والےشکوک و شبہات کے بارے میں سماجی کارکن انجلی بھاردواج اور دی وائر کے بانی مدیر ایم کے وینو سے تبادلہ خیال کر رہی ہیں میناکشی تیواری۔
الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اس انتخابی حلقہ کے اہم ووٹر، قبائلی گجر اور بکروال برادریوں کے لوگ اپنی سالانہ نقل مکانی کےلیے پیر پنجال کی پہاڑیوں کی طرف روانہ ہونے کو تیار ہیں۔ کمیشن کے اس فیصلے کو ‘بدقسمتی’ بتاتے ہوئے جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے الزام لگایا کہ یہ ‘خانہ بدوش گجر-بکروال آبادی کو ووٹ کے حق سے محروم کرنے کی سازش’ ہے۔ وہیں محبوبہ مفتی نے خبردار کیا کہ ووٹنگ ملتوی کرنے کی کسی بھی کوشش سے ‘الیکشن کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔’
وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی پارٹی کے رہنماؤں کی ہیٹ اسپیچ پر الیکشن کمیشن کی خاموشی سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے بی جے پی لیڈروں کو فرقہ وارانہ ماحول بنانے کی مکمل آزادی دے رکھی ہے۔
ابھی تک آس تھی کہ شاید اس بار بی جے پی ترقی اور مثبت ایجنڈہ کو لے کر میدان میں اترے گی، کیونکہ مسلمان والا ایشو حال ہی میں کرناٹک کے صوبائی انتخابات میں پٹ گیا تھا، جہاں ٹیپو سلطان سے لے کر حجاب وغیرہ کو ایشو بنایا گیا تھا۔ مگر ابھی راجستھان میں جس طرح کی زبان انہوں نے خود استعمال کی اور مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کی تو یہ طے ہوگیا کہ 2024 کے ترقی یافتہ ہندوستان کا یہ الیکشن پولرائزیشن اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا کر ہی لڑا جائے گا۔
وزیر اعظم نریندر مودی کو نشانہ بناتے ہوئے شرومنی اکالی دل نے کہا کہ ہندوستان کو ایک خودمختار، سیکولر، جمہوری ملک کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وزیر اعظم کو کبھی بھی ایسا بیان نہیں دینا چاہیے جو ہندوستان کے لوگوں میں فرقہ وارانہ منافرت، باہمی شکوک و شبہات اور زہر پھیلاتے ہوں۔
راجستھان کے بانس واڑہ میں وزیر اعظم مودی کی تقریر کو ہزاروں شہریوں نے ‘خطرناک اور ہندوستان کے مسلمانوں پر براہ راست حملہ’ قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن سے کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ شہریوں نے کہا ہے کہ اس تقریر کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنے پر الیکشن کمیشن کی ساکھ اور خود مختاری کمزور ہوگی۔
ویڈیو: وزیر اعظم نریندر مودی نے راجستھان کے بانس واڑہ میں ایک انتخابی ریلی میں سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے ایک مبینہ بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر کانگریس اقتدار میں آتی ہے تو وسائل پر پہلا حق مسلمانوں کا ہوگا۔ لیکن کیا منموہن سنگھ نے سچ میں ایسا کہا تھا؟
راجستھان کے بانس واڑہ میں ایک انتخابی ریلی میں وزیر اعظم نریندر مودی نے مسلمانوں کو براہ راست نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اگر اپوزیشن کا اتحاد اقتدار میں آتا ہے تو عوام کی محنت کی کمائی ‘گھس پیٹھیوں’ اور ‘زیادہ بچے پیدا کرنے والوں’ کو دے دی جائے گی۔
الیکشن کمیشن نے 2 اور 3 اپریل کو ایکس کو ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کا حوالہ دیتے ہوئے کچھ پوسٹ ہٹانے کو کہا تھا۔ ان میں وائی ایس آر کانگریس، عام آدمی پارٹی، این چندر بابو نائیڈو اور بی جے پی لیڈر اور بہار کے نائب وزیر اعلیٰ سمراٹ چودھری کے پوسٹ شامل ہیں۔
عرضی گزار نے دلیل دی ہے کہ وی وی پی اے ٹی اور ای وی ایم کو لے کر ماہرین نے طرح طرح کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ قبل میں ای وی ایم اور وی وی پی اے ٹی ووٹوں کی گنتی کے درمیان مبینہ تضادات کے باعث یہ ضروری ہے کہ تمام وی وی پی اے ٹی پرچیوں کو احتیاط سے شمار کیا جائے۔
سابق آئی اے ایس افسر ای اے ایس سرما نے 22 مارچ کو الیکشن کمیشن آف انڈیا کو ایک خط لکھ کر شکایت کی تھی کہ وزیر اعظم نریندر نے اپنی تقریر میں ‘ہندو دھرم کی آستھا’ کے نام پر ووٹ مانگ کر ماڈل ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی ہے۔ کمیشن کی طرف سے انہیں ابھی تک کوئی ردعمل موصول نہیں ہوا ہے۔
ملک کی بائیں بازو کی تین جماعتوں – کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ-لیننسٹ) لبریشن نے الیکشن کمیشن کو بتایا کہ انہیں الیکٹورل بانڈ کے ذریعے کوئی چندہ نہیں ملا ہے۔
جمعرات کو ای سی آئی کی جانب سے شائع ڈیٹا ہمیں 2019 اور 2024 کے درمیان سیاسی جماعتوں کو چندہ دینے والے کارپوریشن، نجی کاروباری گھرانے اور افراد کی فہرست فراہم کرتا ہے، لیکن یہ اس بارے میں کوئی جانکاری نہیں دیتا ہے کہ کس پارٹی نے کس کمپنی سے حاصل بانڈ کو کیش کرایا۔
ایس بی آئی نے 5 مارچ کو عدالت عظمیٰ سے سیاسی جماعتوں کے ذریعے خریدے گئے یا کیش کرائے گئے تمام الیکٹورل بانڈز کی تفصیلات فراہم کرنے کے لیے 30 جون تک کا وقت مانگا تھا۔اس کے بعد سے پبلک سیکٹر کے اس سب سے بڑے بینک کے کام کاج کو لے کر کئی طرح کے سوال اٹھ رہے ہیں۔
اگر الیکشن کمیشن واقعی اپنی نئی ایڈوائزری کے حوالے سےسنجیدہ ہے تو اس کا خیر مقدم کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، اس کا جواب دیا جانا چاہیے کہ اس بار اس کی تعمیل کے لیے کون سا نیا نظام بنایا گیا ہے جن سے یقین ہو کہ پچھلی بار کی طرح اس بار کوئی جانبداری نہیں کی جائے گی؟