بلقیس بانو کیس کے 11 مجرموں کی رہائی پر ہماچل پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اور مرکزی وزیر سینئر بی جے پی لیڈر شانتا کمار نے کہا کہ گجرات حکومت کو اپنی غلطی کو سدھارنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ سزا سے ملی چھوٹ ان مجرموں کے اثرورسوخ کی حد کو ظاہر کرتی ہے اور ان کی طاقت کے بارے میں پتہ چلتا ہے کہ ان کے لیے قوانین میں تبدیلی کی گئی۔
بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے رشتہ داروں کے قتل کے 11 مجرموں کی قبل از وقت رہائی کے خلاف عرضی کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ ملزمین نے جو کیا، اس کے لیے ان کو سزا ملی۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ معافی کے حقدار ہیں اور کیا یہ معافی قانون کے مطابق دی گئی؟
داہود کے ڈی ایم کوسونپے گئے گئے میمورنڈم میں رندھیک پور کی مسلم کمیونٹی نے کہا ہے کہ وہ خوف کے مارے گاؤں چھوڑ کر جا رہے ہیں کیونکہ انہیں تحفظ،بالخصوص خواتین کی فکر ہے۔ جب تک ان ملزمین کی گرفتاری نہیں ہوتی وہ، واپس نہیں آئیں گے۔ 2002 کے فسادات میں رندھیک پورگاؤں میں ہی بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا تھا اور ان کے خاندان کوقتل کیا گیا تھا۔
ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات تو پہلے بھی ہوتے تھے اور فسادیوں کا چھوٹ جانا بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ فرق بس یہ ہے کہ عدالتوں سے مجرم ثابت ہونے اور سزائیں پانے کے بعد بھی انصاف کے عمل کو انگوٹھا دکھایا جا رہا ہے۔ ایک غیر محسوس طریقے سے20 کروڑمسلمانوں کو بتایا جا رہا ہے کہ یا تو وہ دوسرے درجہ کے شہری بننا منظور کریں یا کہیں اور چلے جائیں۔
سپریم کورٹ کی سابق جج سجاتا منوہر 2003 میں اس وقت نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کی رکن تھیں، جب کمیشن نے بلقیس بانو گینگ ریپ کیس میں مداخلت کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہم خواتین کو بااختیار بنانا چاہتے ہیں، لیکن ان کے تحفظ کو یقینی نہیں بناتے۔ یہ سزا معافی ان کے تحفظ کے سلسلے میں مثبت پیغام نہیں ہے۔
گجرات سے کانگریس کے تین مسلم ایم ایل اے نے صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کو خط لکھ کر اپیل کی ہے کہ وہ مرکزی وزارت داخلہ اور ریاستی حکومت کو 2002 کے بلقیس بانو گینگ ریپ کیس میں عمر قید کی سزا پانے والے 11 مجرموں کی رہائی کے ‘شرمناک فیصلے’ کو واپس لینے کی ہدایت دیں۔
سال 2002 کے گجرات فسادات کےدوران بالقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے سات افراد کے قتل کے11 مجرموں کی رہائی پر یونائیٹڈ اسٹیٹس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیئس فریڈم نے کہا ہے کہ یہ قدم انصاف کا مذاق ہے اور سزا سے بچنے کے اس پیٹرن کا حصہ ہے، جس کا ہندوستان میں اقلیت مخالف تشدد کے ملزم فائدہ اٹھاتے ہیں۔
پندرہ اگست کو گجرات کی بی جے پی حکومت نے اپنی معافی کی پالیسی کے تحت بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزاکاٹ رہے11 مجرموں کو رہا کر دیا تھا۔
سپریم کورٹ سے بلقیس بانو کیس میں11 مجرموں کی سزا کی معافی کو رد کرنے کی اپیل کرتے ہوئے سماجی کارکنوں سمیت ان دستخط کنندگان نے کہا کہ اس طرح کے فیصلے سے ہر اس ریپ متاثرہ کے حوصلے پست ہوں گے اور ان پر اثر پڑے گا جس کو انصاف کے نظام پر بھروسہ کرنے کو کہا جاتا ہے۔
بلقیس بانو ریپ کے11 قصورواروں کی سزا کو معاف کرنے والی سرکاری کمیٹی میں شامل رہےگودھرا سے بی جے پی ایم ایل اے سی کے راؤل جی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ رہا کیے گئے مجرم اس جرم میں شامل تھے یا نہیں اور یہ ممکن ہے کہ انہیں پھنسیایاگیاہو۔
بلقیس بانو گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے قتل کے 11 قصورواروں کی سزا کو معاف کرنے والی کمیٹی کے چار ارکان بی جے پی سے وابستہ تھے، جن میں دو ایم ایل اے کے علاوہ سابق کونسلر اور گودھرا کیس کے گواہ مرلی مول چندانی شامل ہیں۔ اس کیس میں ان کی گواہی کو عدالت نے جھوٹا قرار دیا تھا۔
بلقیس بانو کی وکیل کی طرف سے جاری ایک بیان میں انہوں نے گجرات حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کے مجرموں کی قبل از وقت رہائی کے فیصلے کو واپس لے اور انہیں بلا خوف وخطر امن و امان کےساتھ رہنے کا حق واپس دے۔ انہوں نے یہ بھی سوال کیا ہے کہ کیا ایک عورت کو ملے انصاف کا انجام یہی ہے؟
ساورکر نے اپنی کتاب ‘6 گورو شالی ادھیائے ‘ میں ریپ کو سیاسی ہتھیار کے طور پر جائز ٹھہرایا تھا۔ آزاد ہونے کے بعد ایک مجرم نے کہابھی کہ ان کو ان کے سیاسی نظریے کی وجہ سے سزا دی گئی۔ وہ شاید یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہوں کہ انھوں نے کوئی جرم نہیں کیا تھا، صرف ساورکر کے سیاسی نظریے کی پیروی کی تھی ۔
گجرات حکومت نے اپنی معافی کی پالیسی کے تحت ان 11 لوگوں کی رہائی کی اجازت دی ہے۔ ان سب کو سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے 2002 کے گجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے سات افراد کے قتل کا مجرم قرار دیا تھا۔
راجیو کمار ستمبر 2020 سے الیکشن کمشنر کے طور پر الیکشن کمیشن سے وابستہ تھے۔ 12 مئی کو وزارت قانون نے نئے چیف الیکشن کمشنر کے طور پر ان کے نام کا اعلان کیا تھا۔ وہ سشیل چندر کی جگہ سنبھالیں گے، جو 14 مئی کو ریٹائر ہوئےہیں۔
ویڈیو: گجرات کے وڈگام سے کانگریس کے حمایت یافتہ آزاد ایم ایل اے جگنیش میوانی کو آسام پولیس نے مبینہ طور پر وزیر اعظم نریندر مودی سے متعلق ایک ٹوئٹ کے سلسلے میں گرفتار کیا تھا۔ اس معاملے میں ضمانت پر رہا ہونے کے بعد میوانی نے وزیر اعظم کو نشانہ بنایا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی سے متعلق ایک ٹوئٹ کی وجہ سے گرفتار کیے جانے کے بعد رہا کیے گئے ایم ایل اے جگنیش میوانی نے کہا کہ ان کے خلاف درج معاملے گجرات اسمبلی انتخابات سے پہلے انہیں ‘بدنام’ کرنے کی ‘ منصوبہ بند سازش’ تھی۔ انہوں نے اسے ’56 انچ کی بزدلانہ کارروائی’ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی گرفتاری کے پیچھے پی ایم او میں بیٹھے کچھ ‘گوڈسے بھکت’ تھے۔
ویڈیو: حالیہ دنوں میں ملک میں فرقہ وارانہ تشدد اور کشیدگی کے واقعات کے تناظر میں سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس دیپک گپتا سے دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
گجرات سے ایم ایل اے جگنیش میوانی کو وزیر اعظم مودی کی تنقید کرنے والے ایک ٹوئٹ سے متعلق معاملے میں ضمانت ملنے کے فوراً بعد آسام پولیس کی ایک خاتون ملازم سے مبینہ طور پر چھیڑ چھاڑ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
گجرات کے وڈگام سے ایم ایل اے جگنیش میوانی کو مبینہ طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کی نکتہ چینی کرنے والے ٹوئٹ کے سلسلے میں ضمانت ملنے کے فوراً بعد 25 اپریل کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا تھا۔ الزام ہے کہ جب وہ سینئر پولیس افسران کے ساتھ گوہاٹی سے کوکراجھار جا رہے تھے تو انہوں نے خاتون افسر کے ساتھ مارپیٹ کی۔
گجرات کے وڈگام سے ایم ایل اے جگنیش میوانی کو مبینہ طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کی نکتہ چینی کرنے والے ٹوئٹ کے سلسلے میں ضمانت ملنے کے فوراً بعدہی ایک خاتون پولیس اہلکار کے حوالے سے سنگین الزامات لگاتے ہوئے آسام پولیس نے ایک بار پھر […]
جگنیش میوانی گجرات کے بناسکانٹھا ضلع کی وڈگام سیٹ سے آزاد ایم ایل اے کے طور پر منتخب کیے گئے تھے۔ وہ حال ہی میں کانگریس میں شامل ہوئے ہیں۔ گجرات پردیش کانگریس کمیٹی نے میوانی کی گرفتاری کو ‘غیر جمہوری اور غیر قانونی’ قرار دیا ہے۔ پارٹی ترجمان نے کہا کہ انہوں نے صرف نقطہ نظر رکھا ہے کہ وزیراعظم امن و امان کی اپیل کر سکتے ہیں۔ اگر وزیر اعظم دنیا میں کہیں اور اس کی اپیل کر رہے ہیں تو وہ اپنے ملک کے لیے ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟
گجرات، بہار، مہاراشٹر، کیرالہ، مغربی بنگال اور اڑیسہ سے متعلق یہ سی اے جی رپورٹ حال ہی میں متعلقہ اسمبلیوں میں پیش کی گئیں، جن میں صوبوں کی اقتصادی حالت اور دیگر پروجیکٹ پر کیے گئے کام اور ان کی صورتحال کے بارے میں جانکاریاں دی گئی ہیں۔
گجرات بی جے پی کی جانب سے پوسٹ کیے گئے کارٹون سے ڈرنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم ماضی میں بھی ایک خاص مذہبی اقلیت کے خلاف اس طرح کی فتنہ انگیزی کے شاہد ہیں اور اس بات سے بھی واقف ہیں کہ اس کا انجام کیاہوتا ہے۔
دینک بھاسکر کی تفتیش میں سامنے آیا ہے کہ مرکزی حکومت کی پالیسی کے تحت چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کو سستے داموں میں فروخت کیے جانے والے کوئلے کو ریاستی حکومت کی طرف سے مقرر کردہ ایجنسیوں نے کئی گنا زیادہ قیمت پر دوسری ریاستوں کے تاجروں کوفروخت کیا اور دستاویزوں میں فرضی طریقے سے دکھایا گیا کہ یہ کوئلہ اسٹیک ہولڈرز کو ملا ہے۔
گجرات کےشہرسورت میں12 سے 22 دسمبر کےدرمیان‘ٹیسٹ آف انڈیا’ریستوراں میں‘پاکستان فوڈ فیسٹیول’ ہونا تھا۔ابھی تک اس سلسلے میں کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا ہے۔ بجرنگ دل کے کارکنوں نے بتایا کہ ریستوراں کے مالک نے معافی مانگ لی ہے۔
سری نگرواقع شری مہاراجہ ہری سنگھ ہاسپٹل کو پی ایم کیئرس فنڈ سے تین کمپنیوں نے 165 وینٹی لیٹرس دیے تھے، جس میں سے کوئی بھی کام نہیں کر رہا ہے۔ ان تین میں سے دوکمپنیوں پر وینٹی لیٹر کے معیار کو لےکر پہلے بھی سوال اٹھ چکے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ اس یونین ٹریٹری کی جانب سے ان وینٹی لیٹرس کی مانگ نہیں کی گئی تھی۔
پنجاب ومغربی بنگال حکومت نے اس فیصلےکی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ وفاقی نظام پر حملہ اور صوبوں کے دائرہ اختیار میں دخل دینا ہے۔ پہلے بی ایس ایف کو پنجاب، مغربی بنگال اور آسام میں بین الاقوامی سرحد سے 15 کیلومیٹر کےدائرے میں کارروائی کا اختیار تھا، اب وزارت داخلہ نے اسے بڑھاکر 50 کیلومیٹر کر دیا ہے۔
جے این یو اسٹوڈنٹ یونین کے سابق صدر اور سی پی آئی رہنما کنہیا کمار کے ساتھ گجرات سے آزاد ایم ایل اے جگنیش میوانی بھی کانگریس سے جڑ گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ایم ایل اے ہونے کے باعث کچھ تکنیکی باتوں کے مدنظر وہ کچھ وقت کے بعدرسمی طور پر پارٹی کی رکنیت لیں گے۔
ویڈیو: ڈائریکٹوریٹ آف ریونیو انٹیلی جنس نے گجرات کے مندرا پورٹ سے 3000 کیلوگرام ہیروئن ضبط کی ہے۔بین الاقوامی بازار میں اس کی قیمت تقریباً21 ہزار کروڑ روپے بتائی جا رہی ہے۔ اس موضوع پر کیرل کے سابق ڈی جی پی این سی استھانا سے دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
پچھلی دہائیوں میں گجرات بی جے پی کامحفوظ ترین گڑھ رہا ہےاور آج کی تاریخ میں وہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کی آبائی ریاست ہے۔اگر وہاں بھی بی جے پی کو ہار کا ڈر ستا رہا ہے تو ظاہر ہے کہ اس نے اپنی ناقابل تسخیر امیج کا جو متھ پچھلے سالوں میں بڑی کوشش سے گڑھا تھا، وہ ٹوٹ رہا ہے۔
واقعہ گجرات کےآنند کا ہے،جہاں ایک خاتون نے اپنی شکایت میں کہا ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ سال میں تینوں ملزمین نے سازش کےتحت کئی بار ان کاریپ کیا، جبراً ان کی نجی تصویریں کھینچی اور انہیں لیک کرنے کی دھمکی دی۔
کھیڑا ضلع کے ماتر سے بی جے پی ایم ایل اےکیسری سنگھ سولنکی کو پولیس نے پاواگڑھ قصبے کے پاس ایک ریزارٹ میں چھاپےماری کے دوران پکڑا۔ گرفتار کیے گئے پچیس لوگوں میں سات خواتین ہیں۔حکام نے بتایا کہ سولنکی اوردیگر کو جوا کھیلتے ہوئے پایا گیا۔ ان کے پاس سےشراب کی بوتلیں بھی برآمد ہوئی ہیں۔
مارچ 2010 میں گجرات اے ٹی ایس نے 43 سالہ ایک این جی اوکارکن بشیر احمد بابا کو آنند سے گرفتار کیا تھا۔ ان پر دہشت گردی کا نیٹ ورک قائم کرنے اور 2002 کے فسادات سے ناراض مسلم نوجوانوں کوحزب المجاہدین کے لیے بھرتی کرنے کے لیےصوبے میں ریکی کرنے کا الزام لگایا تھا۔ الزام ثابت نہ ہونے پر گزشہ دنوں انہیں رہا کر دیا گیا۔
گجرات کےسورت شہر میں آئی ٹی سیل کے ساتھ کام کر رہے بی جے پی کے ایک ممبرنتیش ونانی کی گرفتاری کے بعد بی جے پی صدور اور مختلف وارڈوں کے جنرل سکریٹری نے سوشل میڈیا پر اپنے استعفیٰ کا اعلان کیا۔
بی جے پی نے دعویٰ کیا ہے کہ امریلی میں پارٹی چیف سی آر پاٹل سے متعلق ایک پروگرام کی تیاری کر رہے ان کے کارکنوں کو اے ایس پی ابھے سونی کے ذریعے پیٹا گیا۔ وہیں سونی کا کہنا ہے کہ انہوں نے کارکنوں سے صرف وہاں سے جانے کے لیے کہا تھا، کیونکہ رات بہت زیادہ ہو گئی تھی۔
سال2017 میں ای پی ڈبلیومیگزین میں چھپے ایک مضمون کو لےکر اڈانی گروپ نے اس کے اس وقت کے ایڈیٹر اورمضمون کے شریک قلمکار پرنجوئے گہا ٹھاکرتا کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا تھا۔ اب گجرات کی ایک عدالت نے ٹھاکرتا کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا ہے۔
ایچ ڈی ایف سی بینک کی وڈودرا برانچ کے منیجر نے اس کے لیے منتظمہ کمپنی رائٹر بزنس سروسز پرائیویٹ لمٹیڈ کے اسٹاف کے خلاف شکایت درج کرائی ہے۔کمپنی پر اکتوبر 2018 سے مارچ 2020 کے دوران یہ رقم نکالنے کاالزام ہے۔
گجرات 2002کے مسلم کش فسادات کے بعد سیکولر اور لبرل طاقتوں نے کانگریس کو اقتدار میں پہنچایا تھا، اس لیے کئی تنظیموں کا کہنا تھا کہ اس قتل عام میں ملوث سیاسی لیڈران بالخصوص نریندر مودی پر قانون کا شکنجہ کسنا چاہیے۔کئی مقتدر کانگریسی لیڈران بھی اس پر مصر تھے، مگر احمد پٹیل نے دلیل دی کہ مودی کا سیاسی طور پر مقابلہ کرنا چاہیے۔اس طرح ایک گجراتی نے دوسرے گجراتی کو قانونی شکنجہ سے بچاکر کئی سال بعد اس کے لیے وزارت اعظمیٰ کی کرسی تک پہنچنا آسان بنایا۔
احمد پٹیل کے انتقال کےبعد کانگریس کے پاس ایک بھی ایسارہنما نہیں ہے، جو اتحادی پارٹیوں سے یاعلاقائی طاقتوں سے بات کر سکے۔ احمد پٹیل کی اسی قابلیت کا فائدہ کانگریس اور سونیا گاندھی کو دو دہائیوں تک ملتا رہا۔