تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن ہاہو نے تہران میں ہنیہ پر حملہ کرکے ایک تیر سے کئی شکار کیے ہیں۔ ایک تو امریکی ایما پر ہو رہی جنگ بندی مذاکرات کا بیڑا غرق کردیا، دوسرا ایران اور مغربی ممالک کے درمیان جوہری معاہدہ پر از سر نو مذاکرات کا راستہ فی الحال بند کردیا اور اسی کے ساتھ اپنے لیے اقتدار میں برقرار رہنے کا جواز بھی فراہم کردیا۔
بیروت میں ہندوستانی سفارت خانے نے تمام ہندوستانی شہریوں کو ملک کے غیر ضروری سفر سے گریز کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ اس کے علاوہ لبنان میں مقیم ہندوستانیوں سے اپنی نقل و حرکت محدود رکھنے اور محتاط رہنے کو بھی کہا گیا۔
ایران کے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے مطابق، تہران میں حماس کے سرکردہ رہنما اسماعیل ہنیہ کے گھر پر حملہ کیا گیا، جس میں ہنیہ اور ان کے ایک سکیورٹی گارڈ بھی مارے گئے۔
غزہ کے مکینوں کو راحت کی چند سانسیں لینے کا موقع ملا ہے۔ مگر کب تک؟ جب تک فلسطین کے مسئلہ کا کوئی پائیدار حل عمل میں نہیں لایا جائےگا، تب تک جنگ بندی عارضی ہی رہےگی۔ پائیدار حل ہی میں اسرائیل کی سلامتی بھی ہے۔
فلسطین میں جاری تنازع کو پچاس سے زیادہ دن ہو چکے ہیں، اور اب تک 12000 سے زائد فلسطینی عوام شہید ہوچکے ہیں،لیکن ابھی تک چند ممالک نے ہی فلسطینیوں کی حالت زار پر لب کشائی کی ہے اور ان میں سے بھی صرف ایک ملک یعنی جنوبی افریقہ نے واضح طور پر اسرائیل کے خلاف سفارتی اقدامات کیے ہیں، اور اسرائیلی جارحیت کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔
انٹرویو: فلسطینی لیڈر حنان عشراوی کہتی ہیں کہ اسرائیل آج غزہ کے ساتھ جو کچھ کر رہا ہے، وہ کئی دہائیوں سے کر رہا ہے۔ حالیہ اور تازہ حملوں سے قبل غزہ پر پانچ حملوں میں ہزاروں فلسطینی مارے گئے تھے۔یہ ایک منظم دہشت گردی ہے، جو اسرائیل نے برپا کر رکھی ہے۔
مغربی ایشیا میں جاری تنازعہ نے ایک بار پھر خطے میں تنازعات کے اہم ثالث کے طور پر قطر کا دوبارہ ابھرنا دیکھا ہے۔ گزشتہ ہفتے قطر نے حماس سے دو امریکی یرغمالیوں کی رہائی میں امریکہ کی مدد کی تھی اور امید کی جارہی ہے کہ اس تنازعہ کو ختم کرانے میں بھی قطر کوئی ممکنہ کردار ادا کرسکتا ہے۔
انٹرویو: حماس کے نائب سربراہ موسیٰ ابو مرزوق کہتے ہیں کہ ہم ایک آزادی کی تحریک ہیں جو مغربی ممالک کے حمایت یافتہ قبضے کے خلاف لڑ رہے ہیں، اور ہم صرف آزادی چاہتے ہیں۔ جس طرح ہندوستان نے برطانوی قبضے کو مسترد کر کے آخر کار اسے نکال باہر پھینکا، ہم بھی ویسی ہی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کیا 1857 کی جنگ جس میں ہزاروں افراد مارے گئے نا جائز تھی؟ اگر وہ جائز تھی اور اس کا دفاع کیا جا سکتا ہے، تو ہماری جدو جہد بھی جائز ہے۔ اگر کوئی اس وقت کہتا کہ یہ عظیم قربانیاں ہم نہیں دینا چاہتے، تو آج تک برصغیر پر برطانیہ قابض ہوتا۔
مصر نے مغربی ایشیا میں جاری تنازع میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور غزہ میں جاری انسانی بحران کا حل تلاش کرنے کی کوشش میں قاہرہ امن سربراہی اجلاس کی میزبانی کی، لیکن اس کا نتیجہ جیسا کہ امید کی جارہی تھی کچھ زیادہ خوش آئند نہیں رہا اور نہ ہی اس میں کوئی حکمت عملی وضع کی گئی۔
اسرائیلی سفیر ناؤر گیلون نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں ہندوستان ہماری بھرپور حمایت کر رہا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ وہ حماس کو ہندوستان میں دہشت گرد تنظیم قرار دے۔ انہوں نے حماس کے خلاف انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں اسرائیل کی حمایت کرنے پر ہندوستان کا شکریہ ادا کیا۔
ہندوستان کی سفارت کاری دو کشتیوں پر سوار ہے۔ ایک طرف اسرائیل سے دوستی، تو دوسری طرف ترقی پذیر ممالک یعنی گلوبل ساؤتھ کی لیڈرشپ کا دعویٰ۔
حماس کی کارروائی نے دنیا کو حیرت زدہ کردیا، مگر اس خطے میں موجود صحافی، جو فلسطین کے قضیہ کو کور کررہے تھے، پچھلے ایک سال سے اس طرح کی کسی کارروائی کی پیشن گوئی کر رہے تھے۔ قالین کے نیچے لاوا جمع ہو رہا تھا۔ بس اس کے پھٹنے کی دیر تھی۔
غزہ میں اسرائیلی فوج کی کارروائی کے درمیان اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے کہا کہ یہ تو صرف شروعات ہے۔ وہ غزہ میں دہشت گرد گروپ حماس کو ‘تباہ’ کر دیں گے۔
ویڈیو: اسرائیل کے فلسطینیوں سےغزہ چھوڑنے کے بارے میں کہنے سے پہلے وہاں خوراک، پانی اور بجلی کی سپلائی روکی جا چکی تھی۔ اقوام متحدہ کے تباہ کن نتائج کے بارے میں انتباہ کے باوجود دنیا کے طاقتور ممالک اسرائیل سے جنگ بندی کا مطالبہ کیوں نہیں کر رہے ہیں؟ اس موضوع پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن اور دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند۔
اقوام متحدہ کے ایک ترجمان نے کہا کہ اگر اس طرح کے حکم نامے کو منسوخ نہیں کیا گیا، تو یہ پہلے سے جاری سانحہ کو ایک بڑی تباہی میں بدل سکتا ہے۔
حماس کی کارروائی عرب ہمسایوں اور بڑی طاقتوں کے لیے ایک سبق ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی دوڑ میں مسئلہ فلسطین کو نظر انداز کرکے انہوں نے ایک بڑی غلطی کی تھی۔
جہاں اسرائیلی علاقوں کے رکھ رکھاؤ اور تر قی کو دیکھ کر یورپ اور امریکہ بھی شرما جاتا ہے، وہیں چند فاصلہ پر ہی فلسطینی علاقوں کی کسمپرسی دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ سیاحو ں کو دیکھ کر بھکاری لپک رہے ہیں، نو عمر فلسطینی بچے سگریٹ، لائٹر وغیرہ بیچنے کے لیے آوازیں لگا رہے ہیں۔
یوم نکبہ: فلسطین-ہماری آنکھوں کے آگے گم ہوتے ہوئے ایک ملک کا نام ہے۔فلسطین کے زخم سے خون آہستہ آہستہ ٹپک رہا ہے۔ لیکن وہ ہماری روح کو نہیں چھوتا۔ ابھی جو لاکھوں فلسطینی جلاوطن ہیں، کیا ان کو اپنے ملک لوٹنے کا حق نہیں ہے؟ کیا ہم اسرائیل کے جھوٹ کو سچ مان لیںگے۔