مضامین اور کتابوں میں نورانی حوالہ جات سے اپنے دلائل کی عمارت اتنی مضبوط کھڑی کر دیتے تھے کہ اس کو ہلانا یا اس میں سیندھ لگانا نہایت ہی مشکل تھا۔ وہ اپنے پیچھے ایک عظیم ورثہ چھوڑ کر گئے ہیں، جس کے لیے صدیوں تک ان کا شکریہ ادا کیا جائے گا۔
وفاتیہ: نورانی کے علم و تحقیق کا دائرہ بہت وسیع تھا، جس کا ادراک ان کی تصنیفات سے بخوبی ہوتا ہے۔ دراصل، چین اور پاکستان کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات، جموں و کشمیر کا سوال، ہندوستانی آئین، برطانوی آئینی تاریخ، قانون، حیدرآباد، اسلام، انسانی حقوق، سیاسی مقدمے، جدوجہد آزادی، بابری مسجد اور ہندوتوا وغیرہ ایسے موضوعات ہیں، جو ان کے تبحر علمی کے وقیع اور گراں قدرحوالے کہے جا سکتے ہیں۔
گزشتہ 10-11 فروری کوجمہوریت کانفرنس میں سول سوسائٹی کے سو سے زائد ارکان، سابق نوکر شاہ، میڈیا پروفیشنل اور ماہرین تعلیم نے شرکت کی۔ ان میں جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ، کانگریس کے سینئر لیڈر سلمان خورشید، منیش تیواری، سی پی آئی (ایم) لیڈر سیتارام یچوری اور ایم پی کپل سبل بھی شامل تھے۔
شکیل رشید لکھتے ہیں: گلزار اعظمی کی موت سے جو ‘خلا’پیدا ہو گیا ہے، بھرنے کا کام شروع ہوگیا، یا شروع کر دیا گیا، ذرا انتظار نہیں کیا گیا۔ لیکن ایک سوال یہ تو اٹھتا ہی ہے کہ کیا فوری طور پر تبدیلیاں ضروری تھیں ؟ کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ گلزار صاحب نے جن افراد کو مامور کر رکھا تھا مرکز کو اُن پر اعتبار نہیں تھا، یا مرکز انہیں کام کا نہیں سمجھ رہا تھا ؟ یہ اہم سوال ہیں۔ ابھی مزید سوال سامنے آئیں گے جب جمعیتہ علماء مہاراشٹر کے صدر کا انتخاب ہوگا۔ایک بات یہ بھی کہ؛ مولانا محمود مدنی کا کوئی تعزیتی بیان یا مراسلہ میری نظر سے نہیں گزرا، کیوں؟
سوشلسٹ ذہنیت کے گلزار اعظمی نے نوے سال کی عمر پائی جس میں سے انہوں نے پینسٹھ سال جمعیۃ علماء میں گزارے اور ان ایام میں ان کا شیوہ صرف مظلوموں اور بے قصوروں کی داد رسی کرنا ہی تھا۔
اعظمی کی نگرانی میں جمعیۃ علماء ہند ایک سماجی اور مذہبی تنظیم سے قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم میں بدل گئی۔
دیکھنا ہوگا کہ جب روس، یوکرین اور مغربی ممالک کے درمیان ترکیہ ایک ثالث اور مذاکرات کار کی شکل میں کردار ادا کر کے مغرب کی ضرورت بن چکا ہے، تو کیا ایسے وقت میں یورپی ممالک واقعی اس کو 27رکنی طاقتور اقتصادی اور سیاسی یونین کا حصہ بننے میں مدد کریں گے؟
شاہد اعظمی کی طرح احتشام بھی کورٹ روم کے اندر اور باہرانصاف کی لڑائی کے لیے پرعزم تھے۔مظلوموں کے لیے لڑنے کی خواہش، ہندوتوا عناصر کا مقابلہ کرنے کی ہمت اور مسلمانوں کے ساتھ ہی دیگرکمزور طبقات کے خلاف ہونے والے مظالم کے سامنے سینہ سپر ہونے کی جرأت نے انھیں اقتدار میں بیٹھے لوگوں اور ان کے اتحادیوں کی آنکھ کا کانٹا بنا دیا تھا۔
اگر دیکھا جائے تو پولیس سربراہ کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے کشمیر میں نسبتاً امن و امان قائم کروانے میں کامیابی حاصل کی ہے کچھ غلط نہیں ہے۔ مگر یہ قبرستان کی پر اسرار خاموشی جیسی ہے۔خود ہندوستان کے سیکورٹی اور دیگر اداروں میں بھی اس پر حیرت ہے کہ کشمیریوں کی اس خاموشی کے پیچھے مجموعی سمجھداری یا ناامیدی ہے یا یہ کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے۔
آر جے ڈی ایم پی منوج جھا کو 23 اکتوبر کو لاہور میں انسانی حقوق کی معروف کارکن عاصمہ جہانگیر کی یاد میں ہونے والے ایک پروگرام میں مدعو کیا گیا تھا۔ جھا نے ان کی درخواست کو مسترد کیے جانے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزارت داخلہ سے منظوری مل گئی تھی، لیکن وزارت خارجہ نے سیاسی منظوری نہیں دی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے زیر حراست نابالغ افراد کی اصل تعداد کا تعین کرنا مشکل ہے اور جس طرح بچوں کے ساتھ پولیس اور نظم و نسق کے دیگر ادارے پیش آتے ہیں، اس سے ان کی ایک بڑی آبادی شدید نفسیاتی دباؤکا شکار ہو گئی ہے۔
آج جب ہمیں ایسے خطرات کا سامنا ہے جہاں ہم یقینی طور پر اپنی جمہوریت سے محروم ہو سکتے ہیں،تو یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہم اس بات پر یقین کریں کہ ہم اس تباہی سے اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں۔
سچر کمیٹی کی رپورٹ آنے کے پندرہ سال بعد کے ‘نیو انڈیا’ میں اقلیتی برادریوں بالخصوص مسلمانوں کے مسائل یا حقوق کے بارے میں بات کرنے کو اکثریت کے مفادات پر ‘حملہ’ سمجھا جاتا ہے۔ خود مسلمانوں کے لیے اب سب سے بڑا مسئلہ ان کی جان و مال کی حفاظت کا بن چکا ہے۔
ہندوستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے روز افزوں واقعات کے بارے میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے تبصرے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ان کے ہندوستانی ہم منصب ایس جے شنکر نے کہا کہ لوگوں کو ہمارے بارے میں رائے رکھنے کا حق ہے۔ ہمیں بھی ان کی لابی اور ووٹ بینک کے بارے میں رائے رکھنے کا حق ہے۔ ہم بھی امریکہ سمیت دیگر کے انسانی حقوق کی صورتحال پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔
امریکی وکیلوں کے ایک بین الاقوامی گروپ گورینیکا 37 نے یو ایس ٹریژری ڈپارٹمنٹ کے پاس جمع کرائی گئی ایک درخواست میں مطالبہ کیا ہے کہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ساتھ سابق ڈی جی پی اوم پرکاش سنگھ اور کانپور کےایس پی سنجیو تیاگی کےخلاف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی وجہ سے عالمی پابندیاں عائد کی جائیں۔
گزشتہ پانچ سالوں میں یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی بی جے پی حکومت نے خواتین، اقلیتوں اور اختلاف رائے کا اظہار کرنے والوں پر ہوئے جبر واستبدادکو نظر انداز کیا ہے یا اس عمل میں خود اس کا رول رہا ہے۔ اس صورتحال میں بھی ستم ظریفی یہ ہے کہ بی جے پی ریاست میں امن و امان کے خودساختہ ریکارڈ کو کامیابی کےطور پر پیش کر رہی ہے۔
دہشت گردی کے فرضی مقدمات میں پھنسے لوگوں کے لیے لڑنے والے سماجی کارکن اور رہائی منچ کے جنرل سکریٹری راجیو یادو اتر پردیش کے اعظم گڑھ سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے نریندر مودی حکومت کےدو ذمہ دارافرادقومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال اور چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت نے وسیع تر قومی مفاد کے نام پر قانون کی حکمرانی کی خلاف ورزی کو جائز ٹھہرانے کے لیے نئی تھیوری کی تشکیل کی کوشش کی ہے۔
جس نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کو شہریوں کےانسانی حقوق کےتحفظ کے ساتھ خلاف ورزیوں پرنظر رکھنے کے لیےبنایا گیا تھا، وہ اپنے یوم تاسیس پر بھی ان کی خلاف ورزیوں کےخلاف آواز اٹھانے والوں پر برسنے سے گریز نہ کر پائےتو اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ اب مویشیوں کے بجائے انہیں روکنے کے لیے لگائی گئی باڑ ہی کھیت کھانے لگی ہے؟
قومی راجدھانی میں ہوئے سلسلےوار بم دھماکوں کے چھ دن بعد 19 ستمبر 2008 کو دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کے انسپکٹر موہن چند شرما کی قیادت میں سات رکنی ٹیم نے جنوبی دہلی کے جامعہ نگر علاقے میں واقع بٹلہ ہاؤس میں انڈین مجاہدین کے مبینہ دہشت گردوں کی تلاش میں چھاپہ مارا تھا۔ اس دوران انسپکٹر شرما شہید ہو گئے تھے۔
یوں تو بیٹیاں ماؤں کے بہت قریب ہوتی ہی ہیں،مگر سدھا بھاردواج کی بیٹی ہونا کوئی آسان نہیں۔ بنا کسی جرم کے ڈھائی سال سے زیادہ ہوئے ماں جیل میں ہے اور باہر مائشہ الگ لڑائی لڑ رہی ہے۔
کئی سال پہلےپاکستانی شاعرہ فہمیدہ ریاض نے لکھا تھا کہ ‘تم بالکل ہم جیسے نکلے،اب تک کہاں چھپے تھے بھائی۔ وہ مورکھتا وہ گھامڑ پن ، جس میں ہم نے صدی گنوائی، آخر پہنچی دوار تمہارے…ملک کے آج کے حالات میں یہ مصرعے سچ کے کافی قریب نظر آتے ہیں۔
ایک جمہوری معاشرہ کی بنیاد ہی اظہار رائے کی آزادی ہے، مگر کسی بھی مہذب سوسائٹی میں آزادی مطلق نہیں ہوسکتی ہے۔ اگر سوسائٹی میں کسی بھی طرح کا کنٹرول نہ ہو، تو کمزوروں کے حقوق پامال ہوں گے اور انارکی کی سی کیفیت پیدا ہوگی۔ ڈنمارک کے […]
مجھے پورا یقین ہے کہ شاہد یہ جان کر بہت خوش ہو ں گے کہ ان کی قربانی رائیگاں نہیں گئی ہے۔آج دس سال بعد بھی انہیں یاد رکھنے والوں کی تعداد میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ان سے متاثر ہوئے بنا رہنا ایک نہایت ہی مشکل کام تھا۔
این سی آر بی رپورٹ کے مطابق، 2015-2017 کے دوران بھی جیل میں صلاحیت سے زیادہ قیدی تھے۔اس مدت میں قیدیوں کی تعداد میں 7.4فیصد کا اضافہ ہوا،جبکہ اسی مدت میں جیل کی صلاحیت میں 6.8 فیصد کا اضافہ ہوا۔
مودی حکومت کشمیریوں کے خلاف ان سخت قوانین کا استعمال کر رہی ہے جو وہ عام ہندوستانی شہریوں پر نافذ کرنے کی ہمت بھی نہیں کر سکتی۔ سدھارتھ وردراجن بتا رہے ہیں کہ کیسے مودی حکومت کشمیر کے معاملے میں دستور ہند کی روح کے خلاف کارروائی کر رہی ہے۔
پروینہ آہنگر کا کہنا ہے کہ میڈیا ان کی دکھ بھری کہانیوں کو ‘فروخت’ کرتا ہے۔ ان کی دکھ بھری کہانی پڑھی بھی جاتی ہے لیکن کوئی ان کی مدد نہیں کرتا، کوئی ان کے بیٹے کو ڈھونڈھنے میں پہل نہیں کر تا ہے۔قابل ذکر بات یہ ہےکہ ہندوستان میں پروینہ کی جد و جہد سے کو ئی متاثر ہوا ہو یا نہیں لیکن عالمی سطح پر پروینہ کی آواز ضرور سنی گئی۔
متنازعہ پولیس افسر آئی جی کلوری کو گزشتہ دنون اکانومک آفینس ونگ(ای او ڈبلیو)اور اینٹی کرپشن بیورو(اے سی بی)کی ذمہ داری دینے پر بھوپیش بگھیل حکومت کو تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ 15 ایم پی نے کلوری کے خلاف جانچ کے لیے سی ایم کو خط لکھا تھا۔
فوجی افسروں کی بیٹیوں کی طرف سے داخل عرضی میں کہا گیا ہے کہ پتھراؤ کرنے والوں کے خلاف سیلف ڈیفنس کے لئے کی گئی کارروائی پر بھی معاملے درج کئے جا رہے ہیں۔اس طرح کے واقعات کو لے کر وہ پریشان ہیں۔
آمر اور آمریت آنی جانی چیزیں ہیں؛ جبکہ جذبہ حریت و آزادی پائیدار اور مستحکم ہوتا ہے۔ نریندر مودی و امت شاہ کی آمرانہ گرفت میں آنے سے قبل ایک گجرات تھا۔ جیسے ہی یہ گرفت کمزور ہوگی؛ ایک نئے اور آزاد گجرات کا طلوع ہوگا۔ میں اسی گجرات کو دیکھنے اور (اس میں بولنے) کے انتظار میں ہوں۔
شاہد اعظمی کے ماضی کے بارے میں بہت کچھ لکھا پڑھا جاچکا ہے لیکن ان کی خدمات کی اصل اہمیت وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کے مقدمات انہوں نے اس وقت لڑنا شروع کئے تھے جب ان کے اہل خانہ اور دوست احباب بھی ان سے دور ہوگئے تھے۔
ایک پولیس افسرکے مطابق ،ملی ٹنٹ تنظیمیں اپنی حکمت عملی تبدیل کر رہی ہیں ۔ اس سے پہلے ملی ٹنسی میں شامل ہوئے ہر ایک ملی ٹنٹ کی تصویر جان بوجھ کر سوشل میڈیا پر وائرل کی جاتی تھی مگر اب سائیلنٹ یا چھپ کر ملی ٹنسی میں شمولیت کی حکمت عملی اپنائی جارہی ہے تاکہ نئے ملی ٹنٹ سیکورٹی راڈارسے محفوظ رہیں اور مختلف علاقوں میں نقل و حمل کرسکیں۔
سال 2018 کشمیر میں اس دہائی کا سب سے خونی اور تشدد آمیز سال ثابت ہوا ہے، جس میں کم سے250 ملیٹنٹ، 90 سکیورٹی اہلکار اور 50 سے زائد عام شہری ہلاک ہو گئے۔
جو عوام رام، گائے اور مندر کے جھانسے میں نہیں آئی وہ جنیو اور راہل کے گوتراور شیو پوجا کے جھانسے میں بھی نہیں آنے والی۔
ویڈیو: پاکستان کی مشہور شاعرہ اور قلم کار فہمیدہ ریاض کو یاد کر رہی ہیں یاسمین رشیدی۔
عدالت نے کہا،’ تمام چیزوں کا مذاق بنا دیا گیا ہے۔ کیا قیدیوں کے کوئی حقوق نہیں ہیں؟ مجھے نہیں معلوم کہ افسروں کی نظر میں قیدیوں کو انسان بھی مانا جاتا ہے یا نہیں۔‘
میں جانتا ہوں وہ بےقصور ثابت ہوکر جیل سے باہر آئیںگی۔ ان کی پوری زندگی کو دیکھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے ہم کوئی کہانی پڑھ رہے ہیں جس میں ایک سنت کو ظالم راجا ستاتا ہے۔
کشمیر تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ اس دوران جو نسل تیار ہوئی ہے اس کے زخموں پر مرہم لگانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ کشمیر میں عسکریت دم توڑ رہی ہے مگر یہ خیال کرنا کہ وہاں امن و امان ہوگیا ہے خود کو دھوکہ دینے کے سوا کچھ نہیں۔
جسٹس امیتاؤ رائے کی صدارت والی یہ کمیٹی خاتون قیدیوں سے متعلق معاملوں کو بھی دیکھےگی۔ سپریم کورٹ ملک کی 1382 جیلوں میں قیدیوں کی حالت سے متعلق مدعوں کی سماعت کر رہی ہے۔
گزشتہ 10 سالوں میں پولیس کو کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔یہ ابھی تک ثابت ہونا باقی ہے کہ 13 ستمبر کے بلاسٹ میں ان ملزموں کا ہاتھ تھا،جن کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔