Indira Gandhi

اوپر (بائیں سے دائیں): اندرا گاندھی، راجیو گاندھی اور وی پی  سنگھ، نیچے (بائیں سے دائیں): پی وی نرسمہا راؤ، اٹل بہاری واجپائی اور منموہن سنگھ۔ تصاویر؛ وکی میڈیا کامنس ۔ السٹریشن: دی وائر

اور دہلی کو تخت کا وارث مل گیا، نیرجا چودھری کی کتاب میں پاور گلیاروں سے متعلق دلچسپ واقعات …

پیش نظر کتاب کی مصنف نیرجا چودھری کا نام صف اول کے ان صحافیوں میں لیا جاتا ہے، جو سیاسی نبض پرکھنا جانتے ہیں اور ان کی رپورٹس، تجزیوں کے بین السطور میں سیاست کے اونٹ کی کروٹ کا اندازہ ہوتا رہتاہے۔ 491 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں انہوں نے اندرا گاندھی سے لے کر منموہن سنگھ کے ادوار اور ان کے کام کرنے کے اسٹائل کا احاطہ کیا ہے۔ ایک انٹرویو میں جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے مودی کو کیوں نظر انداز کیا؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ان کے ارد گرد کے افراد نے ان سے تعاون کرنے سے گریز کیا اور وہ فی الحال آن ریکارڈ نہیں آنا چاہتے۔

اندرا گاندھی اور نریندر مودی۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/ پی آئی بی)

اندرا گاندھی نریندر مودی جتنی ’خوش قسمت‘ ہوتیں، تو انہیں ایمرجنسی کی ضرورت نہ پڑتی !

اندرا گاندھی اگر نریندر مودی کی طرح ایمرجنسی کے بغیرہی ویسے حالات پیدا کر کے جمہوری اور آئینی اداروں کو تنزلی کی راہ پر گامزن کر سکتیں، توبھلا وہ ایمرجنسی کا اعلان کیوں کراتیں؟

(فوٹو بہ شکریہ: اسکرین گریب)

وہ رہنماؤں کی دشمنی کے نہیں، آپسی تعاون اور لین–دین کے دن تھے

اس وقت ہماری سیاست میں اس قدر تنزلی نہیں آئی تھی کہ سیاست دان اپنے حریفوں کو دشمن کی طرح دیکھتے، دشمنوں کی طرح ان کی لعنت ملامت کی جاتی یا ان کو نیچا دکھانے کی کوشش میں اپنے آپ کو ان سےبھی نیچے گرا لیا جاتا۔

رضوان اللہ، فوٹو:دی وائر

کلکتہ کا کولاژ بنانے والے رضوان اللہ ہمارے درمیان نہیں رہے…

رضوان اللہ کے اوراق مصور میں کلکتہ بھی ہے اور دلی بھی— اس سے ہمیں کلکتہ کے کل، آج اور کل کے بارے میں بہت سی معلومات ملتی ہیں اور دلی کے دل کا حال معلوم ہوتا ہے۔’اوراق مصور‘ کلکتہ کا کولاژ ہے اور اس میں شبدوں سے جو چترکاری کی گئی ہے، وہ تصویریں انتہائی حسین ہیں … اس میں فکر، معانی اور لفظیات کا حسن سمٹ آیا ہے۔

اندرا گاندھی اور نریندر مودی۔ (فوٹوبہ شکریہ : وکی میڈیا کامنس/پی آئی بی)

ایمرجنسی کے سیاہ دن بنام اچھے دن …

جمہوریت کو اپنےٹھینگے پر رکھے گھوم رہے لٹھیتوں کے اس دور میں46 سال پہلے کی ایمرجنسی کے 633 دنوں پر خوب ہائےتوبہ مچائیے،مگر پچھلے 2555 دنوں سے بھارت ماتا کی چھاتی پر چلائی جا رہی غیر اعلانیہ ایمرجنسی کی چکی کے پاٹوں کونظرانداز مت کریے۔

فوٹو بہ شکریہ: Nehru Memorial Library

جواہر لعل نہرو کی نظر میں آریا کون تھے؟

انہیں آزادی بہت عزیز تھی۔ وہ آج کے ہندوستانیوں (جو ان کی اولاد ہیں)کی طرح نہیں تھے، جنہیں آزادی کی اہمیت کا احساس کافی دیر سے ہوتا ہے۔ آریائی لوگوں کو موت منظور تھی، مگر بے عزتی اور غلامی کسی بھی صورت میں قبول نہیں تھی۔

کامریڈ سَرین

کامریڈ سَرین؛ آپ کو آخری لال سلام …

دو تین سال کے تھے جب کسی بیماری میں ان کی آنکھیں چلی گئیں۔پی ایچ ڈی میں انھوں نے ہندوستان اور افریقی مملک میں نابینا افراد کے حالات، مسائل اور حکومتی سہولیات اور قانونی تحفظات وغیرہ کا تقابلی مطالعہ کیا تھا۔ اس تحقیق نے انھیں ہندوستان میں نابینا افراد کی محرومیوں اور مسائل کا ماہر محقق بنا دیا اور بعد میں اپنی زندگی کا ایک حصہ انھوں نے نابینا افراد کو حقوق دلوانے اور قانون بنوانے کی جدوجہد میں صرف کیا۔

ایل یوایم ایس مںا ہونے والے کانفرنس کا پوسٹر،بہ شکریہ : ٹوئٹر/@AU_Qasmi

پاکستان میں بنگلہ دیش کی آزادی کے ذکر پر بندش

حال ہی میں پاکستان کی لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں بنگلہ دیش کے پاکستان سے الگ ہونے کی پچاسویں سالگرہ پر ہونے والی ایک پانچ روزہ کانفرنس کو منسوخ کر دیا گیا۔ اس بارے میں پاکستان کے صحافی وسعت اللہ خان کا نظریہ۔

WhatsApp Image 2021-02-09 at 22.39.58 (1)

مودی کے آندولن جیوی اور سلوا جڈوم کی طرز پر نئے سائبر جنگجو

ویڈیو: وزیر اعظم نریندر مودی نے حال ہی میں راجیہ سبھا میں ایک نئی اصطلاح کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ پچھلے کچھ وقت سے ملک میں ایک نئی برادری‘آندولن جیوی’ سامنے آئی ہے۔ یہ پوری ٹولی آندولن کے بنا جی نہیں سکتی اور یہ آندولن سے جینے کے لیے راستے ڈھونڈے رہتے ہیں۔ اس پرعارفہ خانم شیروانی کا نظریہ۔

Screen-Shot-2021-02-09-at-9.06.41-PM

’کسانوں کو فخر ہے کہ وہ ’آندولن جیوی‘ ہیں‘

ویڈیو:مرکز کے نئے زرعی قوانین کی مخالفت کر رہے سنیکت کسان مورچہ نے سوموار کو وزیر اعظم نریندر مودی کے ‘آندولن جیوی’ والےبیان پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کسانوں کی توہین ہے۔تحریکوں کی وجہ سے ہندوستان کو نوآبادیاتی اقتدارسے آزادی ملی اور انہیں فخر ہے کہ وہ ‘آندولن جیوی’ ہیں۔

نریندر مودی۔ (فوٹوبہ شکریہ narendramodi.in)

سال 1974 میں نریندر مودی نے آندولن جیویوں کو سرکار کے خلاف سڑکوں پر اتارا تھا…

وزیر اعظم نریندر مودی نے سوموار کو راجیہ سبھا میں کہا کہ کچھ وقت سےملک میں ایک نئی جماعت پیدا ہوئی ہے، آندولن جیوی- وکیلوں،طلبا، مزدوروں کی تحریک میں نظر آئیں گے،کبھی پردے کے پیچھے، کبھی آگے۔ یہ پوری ٹولی ہے جو آندولن کے بنا جی نہیں سکتے اور آندولن سے جینے کے لیے راستے ڈھونڈے رہتے ہیں۔

اندرا گاندھی (فوٹو : رائٹرس)

آر کے دھون:جنہوں نے اندرا گاندھی کو نماز پڑھوا دی تھی…

اندرا گاندھی کے دورِ اقتدار میں وہ ایسی شخصیت تھے، جس کا سامنا کیے بنا اندرا گاندھی تک کسی کی رسائی ممکن نہ تھی۔اندرا گاندھی پر دھون کا کتنا اثر تھا، یہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ 1980 کے نصف اواخر میں انہوں نے وزیر اعظم کو نماز تک پڑھوا دی۔

سپریم کورٹ/ فوٹو: پی ٹی آئی

1984 سکھ مخالف فسادات: سپریم کورٹ نے 33 لوگوں کو ضمانت دی

سپریم کورٹ نے دہلی ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف دائر کی گئی عرضی پر یہ فیصلہ دیا ہے۔ اس سے پہلے نچلی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ نے ان لوگوں کو مجرم قرار دیا تھا اور پانچ سال جیل کی سزا سنائی تھی۔

priyanka2222

ٹھیک ہی ہے پرینکا کے انتخاب نہ لڑنے کا فیصلہ

اس لوک سبھا انتخاب میں کانگریس کسی بھی طرح 100 سیٹیں لانے کی جدوجہد میں لگی ہے۔ یہ اس کے لیے کسی جنگ سے کم نہیں ہے۔ 100 سے کم سیٹیں آنا گاندھی خاندان کے ان تین فرد کی کمزوری ظاہر کرےگا، جو کانگریس کے لیے دل و جان سے تشہیر کر رہے ہیں۔

لال کرشن اڈوانی(فوٹو بہ شکریہ: یوٹیوب)

کیا اڈوانی نے موجودہ بی جے پی کا موازنہ ایمرجنسی والی کانگریس سے کیا ہے؟

بی جے پی کے بانی نے مخالفین کو اینٹی نیشنل کہنے پر اعتراض کیا ہے، جو مودی-شاہ کی حکمت عملی اور مہم کا اہم حصہ رہا ہے۔ ایسا ہی کچھ لال کرشن اڈوانی نے 1970 کی دہائی کے وسط میں ایمرجنسی کے وقت جیل میں بند ہونے کے دوران بھی لکھا تھا۔

فوٹو : پی ٹی آئی

رام چندر گہا کا کالم: دلائی لاماکوبھارت رتن سے سرفراز کیا جانا چاہیے

ہندوستان کی عوام نے دلائی لاما سے محبت کی اور انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھا؛ بدلے میں یہی انہوں نے ہندوستانی عوام کو لوٹایا۔ دوسری طرف ہندوستان کی حالیہ حکومتوں نے، چین کے خوف سے انہیں لے کر محتاط رویہ اپنایا۔ جبکہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔

گجرات کے گاندھی نگر میں ہوئی ایک میٹنگ میں کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی (فوٹو : پی ٹی آئی)

مشرقی اتر پردیش میں کانگریس کے لئے کیا امکانات ہیں؟

مشرقی اتر پردیش میں شناخت کی سیاست سب سے زیادہ تلخ ہے۔ پٹیل، کرمی، راج بھر، چوہان، نشاد، کرمی- کشواہا وغیرہ کی اپنی پارٹیاں بن چکی ہیں اور ان کی اپنی کمیونٹی پر گرفت بےحد مضبوط ہے۔ کانگریس کو ان سب کے درمیان اپنے لئے کم سے کم 20 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرنا ہوگا تبھی وہ یوپی میں باعزت مقام پا سکتی ہے۔

PriyankaGandhi-PTI

کیا پرینکا اکیلے مودی اور یوگی کو روک پائیں گی ؟

کانگریس کئی سروے کرا چکی ہےجس سے یہ نتیجہ سامنے آیا ہے کہ اکیلی پرینکا ہی کانگریس کی انتخابی مہم میں جان پھونکنے کے لیے کافی ہیں۔ان کی حاضر جوابی اور طنزیہ جملے کانگریس کو وہ جوش و جذبہ دیں گے، جس کی آج سخت ضرورت ہے۔ اندرا گاندھی سے ملتی جلتی ان کی شباہت، پارٹی کیڈر؛ خصوصاً نوجوانوں کو متاثر و متحرک کرنے کی صلاحیت ان کو ایک جداگانہ پہچان دیتی ہیں۔

rk-dhawan_indiragandhi

کوری جذباتیت نہیں، حوصلے اور حکمت سے جیتی تھی اندرا نے 71 کی جنگ

پاکستان کو اس طرح کراری شکست سے دو چار کر دینے پر تب حزبِ اختلاف میں صفِ اول کے قائد اٹل بہاری واجپائی نے اندرا گاندھی کو ’ابھینو چنڈی دُرگا‘ کا لقب دیا۔ واجپائی کے ذریعہ دیے گئے اس لقب نے کانگریس کی وزیر اعظم کو ایک عظیم شخصیت کی شکل دینے میں نمایاں کردار ادا کیا۔

فوٹو بہ شکریہ: فیس بک / bjp.org

چھتیس گڑھ: حکومت نے اسکیموں سے دین دیال اپادھیائے کا نام ہٹایا

چھتیس گڑھ کی کانگریس حکومت نے مختلف اسکیموں کے نام سے دین دیال اپادھیائے کا نام ہٹاکر اسکیموں کا نام اندرا گاندھی، راجیو گاندھی اور بھیم راو امبیڈکر کے نام پر رکھ دیا ہے۔ بی جے پی نے اس پر اعتراض کیاہے۔

پرینکا گاندھی (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

پرینکا گاندھی کا کرشمہ بھی یوپی میں کانگریس کو ہار سے نہیں بچا سکتا

ہندوستانی سیاست میں کرشمائی قیادت نے کئی کرشمے دکھائے ہیں، لیکن کسی بھی دور میں کرشمہ کے مقابلے زمینی فارمولے اور کمیونٹیز کی صف بندیاں زیادہ مؤثر رہی ہیں۔ فی الحال کانگریس کم سے کم یوپی میں تو ان دونوں مورچوں پر پچھڑتی نظر آ رہی ہے۔

Apporvanand

اپوروانند کی ماسٹر کلاس: 1984 معاملے میں سجن کمارکو سزا ،2002 کے ملزموں کو وارننگ؟

دہلی ہائی کورٹ نے 1984 کے سکھ مخالف فسادات میں 34 سال بعد کانگریس رہنما سجن کمار کو عمر قید کی سزا سنائی ہے ۔ لیکن انصاف ایک ہی خاندان کو ملا ہے ۔ کیوں انصاف کے لیے غیر معمولی کوشش کرنی پڑتی ہے اور ایک جمہوریت میں انصاف ملنا عام بات نہیں ہے ۔ کیاہم قاتل کے ساتھ رہنے کے عادی ہوگئے ہیں ؟ پروفیسر اپوروانند کی پہلی ماسٹر کلاس۔

علامتی فوٹو: پی ٹی آئی

1993،1984، 2002 کے فسادات میں اقلیتوں کو نشانہ بنانے میں سیاسی رہنماؤں اور پولیس کی تھی ملی بھگت: ہائی کورٹ

دہلی ہائی کورٹ نے کانگریس رہنما سجن کمار کو عمر قید کی سزا دیتے ہوئے کہا کہ انسانیت کے خلاف جرم اور قتل عام ہمارے گھریلو قانون کا حصہ نہیں ہیں۔ ان کمیوں کو ختم کرنے کی جلد سے جلد ضرورت ہے۔

فوٹو : سوشل میڈیا

آچاریہ کر پلانی کو ہمیں کیوں یاد کرنا چاہیے؟

1977 میں اندرا کی مخالفت میں کرپلانی نے یہ صاف کردیا تھا کہ اظہار رائےکی آزادی صرف دانشوروں کی ضرورت نہیں بلکہ غربا اور مظلوموں کی بھی اہم ضرورت ہے۔ وہ آمرانہ حکومت کے خلاف عوام کو سڑکوں پر احتجاج کے لیے آمادہ کرنےمیں بھی یقین رکھتےتھے۔

اندرا گاندھی (فوٹو : رائٹرس)

’ایمرجنسی‘اور’آپریشن بلیو اسٹار‘اندرا گاندھی کی سنگین غلطیاں : نٹور سنگھ

اپنی نئی کتاب میں کانگریس کے سینئر رہنما نٹور سنگھ نے لکھا ہے کہ اکثر اندرا گاندھی کو جابر بتایا جاتا ہے۔کبھی کبھار ہی یہ کہا گیا کہ وہ خوبصورت، باوقار اور شاندار انسان کے ساتھ ایک صاحب فکر ،انسانیت پرست اور پڑھنےوالی خاتون تھیں۔

فوٹو : اویناش چنچل

میں نے ایمرجنسی تو نہیں دیکھی ،لیکن …

ایک بات جو موجودہ حالات کو ایمرجنسی سے بھی زیادہ سنگین بناتی ہے وہ یہ کہ آج ملک کو تانا شاہی کے ساتھ ساتھ فسطائیت کا بھی سامنا ہے۔ فرقہ پرستی اپنے عروج پر ہے۔ مذہبی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف تشدد عام ہو گیا ہے۔ اس کے خلاف کوئی شنوائی نہیں ہے۔ مظلوم کو انصاف کی جگہ ذلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اندرا گاندھی۔  (فوٹو بشکریہ : وکیمیڈیا کامنس)

کیا کانگریس والے 1978 کی تاریخ 2019 میں دوہرا سکتے ہیں؟

اگر 1977 ہندوستان کی پہلی غیرکانگریسی حکومت کے اقتدار میں آنے کی وجہ سے ہندوستانی سیاست کا ایک بڑا پڑاؤ ہے تو 1978 کو اندرا گاندھی کو اس قوت ارادی اورسوچ کی وجہ سے یاد رکھا جانا چاہیے، جس کی بنا پر انہوں نے اپنی واپسی کی عبارت لکھی۔