حال ہی میں سامنے آئے ایک وائرل ویڈیو میں دہلی پولیس کے سب انسپکٹر منوج تومر کو شہر کے اندرلوک علاقے میں مکی جامع مسجد کے قریب نماز ادا کرنے والے لوگوں کو لات مارتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ اس واقعہ سے پیدا ہونے والے غم و غصے کے درمیان انہیں معطل کر دیا گیا تھا۔
کیا واقعی سڑکوں پر ہر طرح کی مذہبی تقریبات پر پابندی لگا سکتے ہیں؟ پھر تو بیس منٹ کی نماز سے زیادہ ہندوؤں کی سینکڑوں مذہبی تقریبات متاثر ہونے لگ جائیں گی، جو کئی دنوں تک جاری رہتی ہیں۔ پابندی لگانے کی بے چینی سڑکوں کے انتظام کو بہتر بنانے کی خواہش بالکل نہیں ہے، بلکہ ایک کمیونٹی کے تئیں تعصب اور زہر اگلنے کی ضد ہے۔
گجرات کے احمد آباد شہر کے ایک پرائیویٹ اسکول میں بیداری پروگرام کے تحت ہندو طلبا سے مبینہ طور پر نماز پڑھنے کے لیے کہے جانے کے بعد ہندو دائیں بازو کے کارکنوں نے احتجاج کیا تھا۔ اسکول نے معافی مانگتے ہوئے کہا ہے کہ اس پروگرام کا مقصد صرف طلبا کو مختلف مذاہب کے بارے میں بیدار کرنا تھا۔
مین پوری کے رہنے والے موہت یادویوپی روڈ ویز میں کنڈکٹر کے طور پر کام کرتے تھے۔ گزشتہ جون میں دو مسافروں کو نماز پڑھنے دینے کے لیے بس روکنے کے دعوے والے ایک ویڈیوکے سامنے آنے کے بعد انہیں اور بس ڈرائیور کوبرخاست کر دیا گیا تھا۔ اہل خانہ کے مطابق موہت ذہنی دباؤ میں تھے۔ اتوار کو ان کی لاش ریلوے ٹریک پر ملی۔
گزشتہ جون میں جلگاؤں ضلع کلکٹر کی جانب سے من مانے ڈھنگ سے ایک حکم نامہ جاری کرنے کے کچھ دنوں بعدمسلم کمیونٹی کو 800 سال پرانی جمعہ مسجد میں نماز ادا کرنے سے روک دیا گیا تھا۔
مہاراشٹر کے جلگاؤں ضلع کے ایرنڈول تعلقہ میں واقع جمعہ مسجدوقف بورڈ کی جائیدادکے طور پررجسٹرڈ ہے، جس کے بارے میں دائیں بازو کے شکایت کنندہ کا دعویٰ ہے کہ یہ ہندو عبادت گاہ کی جگہ پر بنائی گئی تھی۔ کلکٹر کی جانب سے دفعہ 144لاگو کرتے ہوئے احاطے میں نماز پڑھنے پر پابندی عائد کرنے کے احکامات پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
معاملہ کانپور کا ہے۔ گزشتہ ہفتے عید کے موقع پر عیدگاہ کے باہر سڑک پر بغیر اجازت نماز ادا کرنے کے الزام میں بجریا، بابو پوروا اور جاجمئو تھانوں میں الگ الگ ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔ اس سے ناراض آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن نے کہا کہ انہیں مذہب کی بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
سال 2020 میں سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ایک درخواست میں مسلم خواتین کے مساجد میں داخلے پر مبینہ پابندی کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دینے کی ہدایت دینے کی گزارش کی گئی تھی۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے عدالت کو بتایا ہے کہ مسلم خواتین مسجد جانے کے لیے آزاد ہیں اور یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ وہاں نماز پڑھنے کے اپنے حق کا استعمال کرنا چاہتی ہیں یا نہیں۔
گجرات کے شہر وڈودرا میں مہاراجہ سیاجی راؤ یونیورسٹی کیمپس میں دو دن قبل نماز پڑھنے والےایک جوڑے کا ویڈیو سامنے آنے کے بعد دو طالبعلموں کے نماز پڑھنے کا ویڈیوبھی وائرل ہوگیاہے۔ وشو ہندو پریشد کے کارکنوں نے اس واقعہ کے پس پردہ سازش کا الزام لگاتے ہوئے یہاں گنگا جل چھڑک کر ہنومان چالیسہ کاپاٹھ کیا۔
الہ آباد کے تیج بہادر سپرو اسپتال میں نماز ادا کررہی ایک خاتون کے ویڈیو کے حوالے سے پولیس نے کہا کہ وہ بناکسی غلط کے ارادے کےاورکسی کی آمد ورفت میں رکاوٹ ڈالے بغیر اپنے مریض کی جلد صحت یابی کے لیے نماز ادا کر رہی تھیں۔ یہ جرم کے دائرے میں نہیں آتا۔
یہ واقعہ گزشتہ اتوار کو پیش آیا۔ مغربی بنگال کے کچھ لوگوں کا گروپ راجستھان کے اجمیر شریف جا رہا تھا۔ راستے میں اتر پردیش کے شاہجہاں پور میں وشو ہندو پریشد کے لوگوں نےانہیں مبینہ طور پر سڑک پر نماز پڑھتے ہوئے پایا تو ان سے کان پکڑ کر معافی منگوائی۔ اس واقعے کا ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔
ویڈیو: ملک میں جہاں ایک طرف عوامی مقامات پر نماز ادا کرنے پر مسلمانوں کو جیل رسید کرنے سے لے کر کھلے میں نماز پر پابندی لگائی جا رہی ہے وہیں دوسری طرف ساون کے مہینے میں کانوڑ لا رہے نوجوانوں اور خواتین پر ہیلی کاپٹرسے پھول برسائے جا رہے ہیں، کیا ہندوستانی مسلمان دوسرے درجے کے شہری بنتے جا رہے ہیں؟ اس موضوع پر دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کا نظریہ۔
ویڈیو: حالیہ دنوں میں دیکھنے میں آیا ہے کہ عوامی طور پر نماز ادا کرنے کو ‘جرم’ قرار دیا جا رہا ہے، اور ہندوتوا تنظیمیں اس کی مخالفت کر رہی ہیں ۔دی وائر ایکسپلین کے اس ایپی سوڈ میں ہم اس سیاسی تناظر پر بات کرنے کی کوشش کررہے ہیں جس کے تحت عوامی طور پر نماز ادا کرنے کو ‘جرم’بنا دیا گیا ہے اور یہاں یہ سمجھنے کی کوشش بھی گئی ہے کہ کیا ہندوستانی قانون میں اس کے خلاف کسی طرح کی کارروائی کی کوئی بنیاد ہے؟
اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا نے لکھنؤ میں گزشتہ ہفتے کھلے لولو مال میں نماز پڑھنے کے مبینہ واقعہ کے حوالے سے شکایت درج کرائی ہے۔ مال انتظامیہ نے بھی نماز ادا کرنے والے نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کر ائی ہے۔ مہاسبھا کا الزام ہے کہ مال میں 70 فیصد مرد ملازمین مسلمان ہیں اور 30 فیصد خواتین ملازمین ہندو کمیونٹی سے ہیں۔ ایسا کرکے انتظامیہ لو جہاد کو فروغ دے رہی ہے۔
سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں علی گڑھ کے ورشنی ڈگری کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر ایس آر خالد کالج کیمپس کے باغیچے میں نماز ادا کرتے نظر آ رہے ہیں۔ کالج ترجمان نے بتایاکہ بی جے وائی ایم کی جانب سے پروفیسر کے خلاف نظم و ضبط اور امن وامان کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کرنے کے بعد اس معاملے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہے۔
مدھیہ پردیش کے ساگر میں واقع ڈاکٹر ہری سنگھ گور یونیورسٹی کا واقعہ۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے طلبا کو نوٹس جاری کیا ہےاور کہا ہے کہ وہ ایسی کسی بھی سرگرمی میں شامل نہ ہوں جس سے تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہوں اور کیمپس کے اندر فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہو۔
ویڈیو: دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند بتا رہے ہیں کہ کس طرح ہندو تہواروں کا استعمال فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے اور اقلیتوں کو الگ تھلگ کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
اتر پردیش میں متھرا کے نندمحل مندر میں مبینہ طور پر بنا اجازت نماز پڑھنے کے لیے سماجی تنظیم خدائی خدمت گار کے چار ممبروں کے خلاف دو نومبر 2020 کو کیس درج کیا گیا تھا۔
کچھ ہندتووادی گروپوں کے ذریعے سڑکوں پر نماز پڑھنے کے خلاف ہنومان چالسیہ پڑھنے کو کہا گیا تھا۔ اس پر علی گڑھ ضلع انتظامیہ نے یہ روک لگائی ہے۔ ہندو جاگرن منچ نے اس فیصلے کو لےکر علی گڑھ کےکلکٹر کو وارننگ دی ہے۔
بی جے وائی ایم کے صدر اوم پرکاش سنگھ کا کہنا ہے کہ ، جمعہ کی نماز کے لیے جی ٹی روڈ کو بند کردیا جاتا ہے ۔ اس کی وجہ سے مریضوں کی موت ہوجاتی ہے۔ لوگ وقت پر اپنے دفتر نہیں پہنچ پاتے ۔
پونے کے ایک جوڑے نے عدالت میں دائر عرضی میں عورتوں کو مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دینے کی گزراش کرتے ہوئے مسجد میں ان کے داخلے پر پابندی کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
مسجد کے امام نے اے ایس آئی اس فیصلے پر حیرانی کا اظہار کیا ہے۔وہیں اے ایس آئی کا کہنا ہے کہ وہ صرف سپریم کورٹ کی ہدایت پر عمل کر رہے ہیں۔
گروگرام میں اس سے پہلے بھی نماز پڑھنے کو لے کر تنازعہ ہوچکا ہے ،لیکن نئے معاملے میں تنازعہ مسجد میں ہونے والی اذان کو لے کر ہے۔
ہندوتوا وادی تنظیموں کی مانگ رہی ہے کہ یا تو یہاں نماز پڑھنے پر روک لگائی جائے یا پھر انھیں شیو چالیسا پڑھنے کی اجازت دی جائے۔
ہریانہ سے اس طرح کے ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر سامنے آئے،جس میں کچھ اینٹی سوشل لوگ کھلے میں نماز پڑھ رہے مسلمانوں کو ڈرا دھمکا کر بھگاتے دیکھے گئے۔
یونائیٹیڈ ہندو فرنٹ نے کہا؛اقوام متحدہ صرف 10 فیصد آبادی والے کمیونٹی کو اقلیتی کے خانے میں رکھتا ہے جبکہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی 22 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔
ملک کی سیکولر سیاست کی ان ‘متنازعہ‘ احاطوں پر اوڑھی گئی خاموشی نے ہندوتوا کے لئے راستہ آسان کر دیا ہے۔ آج کے وقت میں ہندوتوا کے سامنے کسی بھی قسم کا کوئی چیلنج نہیں ہے۔
جن گن من کی بات کے اس ایپی سوڈ میں سنیے ملک کے مختلف حصوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھانے کی کوششوں اور راہل گاندھی کے وزیر اعظم بننے کے بیان پر ونود دوا کا تبصرہ
گزشتہ جمعہ کو گڑگاؤں میں نماز کے دوران خلل ڈالنے والے شر پسند عناصر کو مقامی پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔