 
	
	
	
	
کلکتہ کے حالیہ واقعے سے اردو کا بھی مقدمہ کمزور ہوتا ہے اور مسلمانوں کا بھی۔ مسلمانوں کے درمیان سول سوسائٹی کے استحکام کی ضرورت بطور خاص اس لیے بھی ہے کہ کوئی متبادل آواز ابھر سکے۔ مہذب دنیا مختلف خیالوں اور آوازوں سے ہی چل رہی ہے۔
	
	
		 
	
	
	
	
مغربی بنگال اردو اکیڈمی نے کچھ اسلامی تنظیموں کے احتجاج کے بعد ‘ہندی سنیما میں اردو کا کردار’ کے موضوع  پر جاوید اختر کی تقریب کو ملتوی کر دیا تھا۔ اب ‘اردو کلچر لندن’ اور ‘انجمن ترقی اردو یو کے’ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ  اردو اکیڈمی کی جانب سےاس طرح تقریب  کوملتوی کرنا جمہوری معاشرے کے لیے نیک فال نہیں ہے۔
	
	
		 
	
	
	
	
مغربی بنگال اردو اکادمی نے ‘ہندی فلموں میں اردو کا کردار’ سے متعلق اپنے چار روزہ جشن  کوملتوی کر دیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ کچھ اسلامی تنظیموں نے نغمہ نگار جاوید اختر کو تقریب میں مدعو کرنے کی مخالفت کی تھی۔ اب ریاستی حکومت کے تحت کام کرنے والی اکادمی نے’نامساعدحالات’ کا حوالہ دیتے ہوئے پورے پروگرام  کو ملتوی کر دیا ہے۔
	
	
		 
	
	
	
	
سیاست کی پیدا کی گئی خلیج ایک بھیانک مستقبل کا اشارہ ہے۔ اس صورتحال کا سبب ہندوتوا کی سیاست ہے۔ افسوس ہے کہ  مجھے آج کے  ہندوستان  میں جرمنی کا ماضی نظر آتا ہے۔ میں اور میرے عہد کی تخلیقی سرگزشت کی اس قسط میں پڑھیےمعروف فکشن نویس رحمٰن عباس کو۔
	
	
		 
	
	
	
	
میں ایک خوشحال ملک کا شہری ہوں اور معترف ہوں کہ یہ خوشحالی آپ کی بدولت ہے۔ آپ کے اقتدار سے پہلے یہ ملک دنیا کا سب سے غریب ملک تھا ۔لوگ زندہ درگور تھے۔ آپ نے ہمیں غربت ، جہالت اور ذلت کی دلدل سے آزاد کیا۔ میری طرح آپ کے لاکھوں پرستار ہیں۔ ایک اداکارہ تو آپ کی دیوانی ہے۔ اس نے بجا فرمایا ہے کہ ہم صحیح معنوں میں آپ کے اقتدار میں آنے کے بعد آزاد ہوئے ہیں ۔ آپ نے ہمیں آزادی، عزتِ نفس اور تاریخی افتخار سے آشنا کیا ہے۔
	
	
		 
	
	
	
	
اشعر نجمی کا ناول ‘کانگریس ہاؤس’ ایک بڑے سیاسی کھیل کو موضوع بناتے ہوئے جمہوریت کی ہوشیاری، ہوسناکی اور اس کی آمریت کے سارے بھید کھول دیتا ہے۔ مجموعی طور پر یہ ناول ہماری مٹی کا ہمزاد ہے، ہمارا ہمزاد ہے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ہمارے دکھوں کا اور ہمارے نفسی وجود کا ہمزاد ہے۔
	
	
		 
	
	
	
	
ٹام صاحب نے آسامی، بنگلہ، مراٹھی، ملیالم، ہندی، انگریزی، کنڑ اور اردو جیسی زبانوں میں سینکڑوں فلموں، ڈراموں اور ٹی وی سیریل میں کام کیا۔ لیکن اردو کے لیے ان کے دل میں ایک خاص جگہ تھی۔ وہ اردو بولنے، پڑھنے اور لکھنے میں بہت حساس تھے اور اردو کو اردو رسم الخط میں ہی پڑھنے  اور لکھنے کے  قائل تھے۔
	
	
		 
	
	
	
	
سپریم کورٹ نے مہاراشٹر میں میونسپل  کے سائن بورڈ پر اردو کے استعمال کو چیلنج کرنے والی ایک عرضی کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا  کہ ‘قانون کی کسی بھی شق کے تحت اردو کے استعمال پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ مراٹھی اور اردو کو آئین ہند کے شیڈول آٹھ کے تحت یکساں مقام حاصل ہے۔’
	
	
		 
	
	
	
	
ڈاکٹر منموین سنگھ اپنے پیچھے ایک قابل فخر وراثت چھوڑ گئے جس پر ہندوستان کو فخر رہے گا۔
	
	
		 
	
	
	
	
کم لوگوں کو علم ہے کہ منموہن سنگھ نے بڑی سریلی آواز پائی تھی، وہ ‘لگتا نہیں ہے جی میرا’ اور امریتا پریتم کی نظم ‘آکھاں وارث شاہ نوں، کتھوں قبراں وچوں بول’ بڑی پرسوز آواز میں گاتے تھے۔ اردو زبان پر عبور رکھنے کے ساتھ ساتھ وہ اردو ادب اور شاعری کا بھی ستھرا ذوق رکھتے تھے۔
	
	
		 
	
	
	
	
تاریخ، ادب اور صحافت کے بامعنی امتزاج کو پیش کرتی یہ تحریریں آج کے ہندوستان اور مسلمان سے مکالمہ قائم کرتی ہیں اور اس سیاست کو سمجھنے میں بھی مدد کرتی ہیں جہاں ⸺کرسی⸺ کی بنیاد ہی نفرت اور تشدد پر ٹکی ہوئی ہے۔ جس کا واحد مقصد مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کو عام کرنا، اس رویے کو نارملائز کرنا اور اپنا الو سیدھا کرنا ہے۔
	
	
		 
	
	
	
	
معاملہ غازی آباد کے کراسنگ ریپبلک کی ایک رہائشی سوسائٹی کا ہے، جہاں محمد عالمگیر ایک فلیٹ میں اردو پڑھانے جاتے ہیں۔ منگل کو جب وہ سوسائٹی پہنچے تو ایک شخص نے ان سے سوال جواب شروع کر دیا اور بعد میں انہیں لفٹ سے باہر نکال دیا۔
	
	
		 
	
	
	
	
ملک کی یونیورسٹیاں، بالخصوص مرکزی یونیورسٹیاں، ایک طرح سے مرکزی حکومت کے ‘توسیعی دفاتر’ میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ کوئی بھی تعلیمی شعبہ انتظامیہ کے ‘فلٹر’ سے گزرے بغیر کسی قسم کی تقریب منعقد نہیں کر سکتا۔
	
	
		 
	
	
	
	
طلسم بمبئی، ایک پارسی مصنف کی اُردو میں لکھی ہوئی کتاب ہے، شہر کی سیر و سیاحت کے تعلق سے جہاں اُردو میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے، وہیں کسی بھی زبان میں شہر کے لیے ابتدائی رہنما کتابوں میں بھی اس کا نام لیا جا سکتا ہے۔
	
	
		 
	
	
	
	
پریم چند جب شہر جاتے گاؤں کی تلخیوں کو ساتھ لے جاتے، گھر گاؤں میں نہیں تھا ان کے دل میں تھا، جہاں رہتے گاؤں ان کے ساتھ رہتا، جب گاؤں میں رہتے تو شہر کی فضا ذہن کو گرفت میں لیے رہتی۔ اسکول کی عمارت ابھرتی، کتابوں کے جملے سرسراتے لیکن شہر کی تکلیف گاؤں کی تکلیف میں جذب نہیں ہوتی۔ ذہن دونوں جانب رہتا۔ دونوں طرف اذیتیں ہی تھیں۔ شہر اور گاؤں دونوں کے راستے دماغ میں ملتے تھے یہی ایک مرکز تھا۔
	
	
		 
	
	
	
	
ہمیں خیال آیا ‘اقبال’ عربی کا لفظ ہے۔ ہندوستان میں رہتے ہوئے عربی نام رکھنا کہاں کی حب الوطنی ہے۔ ہم نے اپنا نام ‘کنگال چند’ رکھ لیا۔ یہ نام ویسے بھی ہماری مالی حالت کی غمازی کرتا تھا۔ نہ صرف ہماری بلکہ ملک کی حالت کی بھی!
	
	
		 
	
	
	
	
منور رانا کی شاعری میں ماضی کی آہٹوں کے ساتھ آج کی تاریخ، تہذیب اور تصویر قید ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کی ذہنی ساخت اور انفرادی احساس کا روز نامچہ ہے جس میں ایک ایک لمحے کا حال درج ہے۔
	
	
		 
	
	
	
	
ملک بھر کے ادیبوں نے سال 2023 کے لیے دیے گئے ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ کے حوالے سے ‘نااہل جیوری’ کے ذریعےاس سال نامزد سینئر ادیبوں کی اہم تخلیقات کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا ہے۔ انہوں نے اکیڈمی میں اردو ایڈوائزری بورڈ کے کنوینر چندر بھان خیال کو فوراً برطرف کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے وزارت ثقافت سے مداخلت کی اپیل کی ہے۔
	
	
		 
	
	
	
	
شموئل احمد (1943-2022) کی نہ صرف اردو ادب پر بلکہ عالمی ادب پر بھی گہری نظر تھی۔ شموئل احمد جیسا بے باک اور نڈر افسانہ نگار بننا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ افسانے اور ناول لکھے جاتے رہیں گے لیکن شموئل جیسا شاید ہی کوئی دوسرا پیدا ہو۔
	
	
		 
	
	
	
	
کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدارمیا نے ریاست میں 23 دسمبر سے حجاب پر پابندی کے فیصلے کو واپس لینے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ بی جے پی لباس اور ذات پات کی بنیاد پر لوگوں اور سماج کو تقسیم کرنے کا کام کر رہی ہے۔ حجاب پر پابندی بسواراج بومئی کی قیادت والی پچھلی بی جے پی حکومت نے عائد کی تھی۔
	
	
		 
	
	
	
	
ڈاکٹر امام اعظم کی ادب دوستی،ادب نوازی اور ادبی فعالیت قابل رشک رہی۔انہیں اردو ادب سے والہانہ عشق تھا۔
	
	
		 
	
	
	
	
بک ریویو: ’استفسار‘ کا یہ شمارہ ثبوت ہے اس کے مدیران کی اہلیت اور محنت کا، اور اس یقین کا کہ نیر مسعود جیسے نقاد، محقق اور فکشن نگار پر وہ ایک ایسا بھرپور اورخصوصی شمارہ  نکال سکتے ہیں، جو  آنے والے دنوں میں طلباء کے لیے اور شائقین ادب کے لیے ریفرنس کا ایک قیمتی ذریعہ بن سکے۔
	
	
		 
	
	
	
	
قمر صدیقی لکھتے ہیں؛ ارتضیٰ نشاطؔ بنیادی طور پر حسیت اور عصری شعور کے شاعر ہیں۔ لیکن انھوں  نے عصری سچائیوں کو سپاٹ نہیں ہونے دیا۔ آج کے دور میں گم ہوتے انسانی رشتوں کی عظمت کو ارتضیٰ نشاط  نے اپنے شعری اسلوب میں زندہ کردیا ہے۔
	
	
		 
	
	
	
	
انٹرویو: ‘ زبان بچے گی تو اسکرپٹ بچے گا، زبان اگر زندہ ہے تو اسکرپٹ آپ سیکھ لیں گے۔ مجھے بنگلہ زبا ن خوبصورت لگتی تھی میں بولنا چاہتا تھا تو میں نے سیکھ لی…’ آج نامور شاعر اور نغمہ نگار گلزار کا یوم پیدائش ہے۔ اس موقع پر پیش ہے ان کے ساتھ زمرد مغل کی بات چیت۔
	
	
		 
	
	
	
	
قند مکرر؛ ناسخ کا نام آتے ہی کچھ ایسا معلوم  ہوتا ہے کہ حکومت کرنا اور لیڈری کرنا ناسخ کا پیدائشی حق تھا۔ ناسخ مفکر نہ سہی،حقیقی معنوں میں زبردست شاعر بھی نہ سہی اس کی تمام توجہ تمام کوشش اور تمام زندگی نذر فروعات  سہی لیکن وہ کسی ماحول ،کسی ملک ،کسی طبقے اور کسی زمانے میں ہوتا تو بھی اس کی ہستی غیر معمولی ما نی جاتی اور اس کی شخصیت کو نظر انداز کرنا آسان نہ ہو تا۔
	
	
		 
	
	
	
	
میراجی پراسراریت اور حیرت کے قائل تھے۔ ان کی شخصیت بھی ان کی شاعری کی طرح پراسرار تھی۔ وضع قطع، لباس اور باتوں سے تو وہ پراسرار نظر ہی آتے تھے وہ حرکتیں بھی کچھ ایسی کرتے  تھے کہ لوگ انہیں حیرت سے دیکھیں۔
	
	
		 
	
	
	
	
ایسا نڈر، سچا، محبت کرنے والا اور محبت کا گیت گانے والا اب کہاں سے آئے گا۔ کسی سے نہ دبنے والا، ہر شخص پر شفقت کرنے والا، زبان کا فیاض، شاعروں کا والی، غزل کا امام، ادب کاخدمت گزار۔ کیسی سچی بات ایک عزیز  نے کہی کہ سیاست کوئلہ کا کاروبار ہے جس میں سبھی کا ہاتھ اور بہتوں کا منھ کالا ہوتا ہے سوائے حسرت کے۔
	
	
		 
	
	
	
	
ایسی شاعری جس کی ہمہ وقت ضرورت محسوس ہو جس کی لذت، جس کا لطف کبھی کم نہ ہو جو ذہن کو مہمیز کرے۔ بہت معصوم، بہت پیاری ہوتی ہے جو شریانوں میں لہو کی طرح دوڑتی ہے، آنکھوں سے آنسو کی طرح ٹپکتی ہے۔ اکیلی رات میں چاند کا روپ دھار لیتی ہے۔ ایسی کیفیت کیفی اعظمی کی شاعری میں ہے جس کی ساحری میں، میں اب تک قید ہوں۔
	
	
		 
	
	
	
	
شعر کہنے کے شوق میں نئے لڑکے اور لڑکیوں نے اردو سیکھنا شروع کیا۔ بلکہ نئی اردو شاعری میں کئی اہم اور نمایاں نام  توایسے ہیں جن کی مادری زبان اردو نہیں ہے۔ 
	
	
		 
	
	
	
	
جنرل باڈی نہ ہونے کے باعث  این سی پی یو ایل کو اُردو کے فروغ کے لیے مختص بجٹ کا استعمال نہیں کیا جاسکا ہے۔ اس  سلسلے میں اُردو آبادی مرکزی حکومت کے ارادوں اور  نیت پر سوال اٹھا رہی ہے۔
	
	
		 
	
	
	
	
جو ش نے خود کو ”شاعر آخر الزماں کہلوانا پسند کیا تھا مگرحیف کہ وہ نہیں جانتے تھے اُن کے ساتھ ہی اُن کا زمانہ بھی ختم ہو جائے گا۔
	
	
		 
	
	
	
	
یوم پیدائش پر خاص: وقت پڑنے پر کانگریسیوں کا ساتھ بھی دیا ہے، سوشلسٹوں کا بھی، کمیونسٹوں کا بھی۔ وہ ہر ترقی پسند اور انقلابی پارٹی کے ساتھ ہے۔ مگر کسی پارٹی میں نہیں ہے۔ وہ دھرم، مذہب، ذات پات کے بندھنوں سے آزاد ہے۔ سامراج اور فرقہ پرستی کا دشمن ہے، عوام اور اشتراکیت کا ساتھی ہے۔ وہ یہ سب کچھ ہے۔ اسی لیے میرا دوست ہے۔ ایسا دوست جسے سچ مچ ہم دم کہا جا سکتا ہے۔ ورنہ ’دوست‘ تو بازار میں ٹکے سیر ملتے ہیں۔
	
	
		 
	
	
	
	
کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سپریم کورٹ کے اختلاف رائے  کے بعد ریاست کے پرائمری اور سیکنڈری ایجوکیشن کے وزیر بی سی ناگیش نے کہا کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار  رہے گا۔ ایسے میں ریاست کے تمام اسکولوں اور کالجوں میں کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ اور ضابطے میں کسی بھی مذہبی علامت کی گنجائش نہیں ہوگی۔
	
	
		 
	
	
	
	
سپریم کورٹ کی بنچ میں شامل جسٹس ہیمنت گپتا نے حجاب پر پابندی کے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر عرضیوں کو خارج کر دیا، جبکہ جسٹس سدھانشو دھولیا نے کہا کہ ہائی کورٹ نے غلط راستہ اختیار کیا اور حجاب پہننا بالآخر اپنی پسند  کا معاملہ ہے، اس سےکم  یا زیادہ  کچھ اور نہیں۔
	
	
		 
	
	
	
	
ہندی اور اُردو کا جھگڑا ایک زمانے سے جاری ہے۔ مولوی عبدالحق صاحب، ڈاکٹر تارا چند جی اور مہاتما گاندھی اس جھگڑے کو سمجھتے ہیں لیکن میری سمجھ سے یہ ابھی تک بالاتر ہے۔ کوشش کے باوجود اس کا مطلب میرے ذہن میں نہیں آیا۔ ہندی کے حق میں ہندو کیوں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔ مسلمان اُردو کے تحفظ کے لئے کیوں بے قرار ہیں؟—  زبان بنائی نہیں جاتی، خود بنتی ہے اور نہ انسانی کوششیں کسی زبان کو فنا کر سکتی ہیں۔ میں نے اس تازہ اور گرما گرم موضوع پر کچھ لکھنا چاہا تو ذیل کا مکالمہ تیار ہو گیا۔
	
	
		 
	
	
	
	
پیپلز یونین فار سول لبرٹیز نے کرناٹک میں مسلم طالبات کے درمیان حجاب بین کے فیصلے کے اثرات پر ایک اسٹڈی  کی ہے ، جس میں متعدد طالبات نے بتایاکہ انہیں کالج بدل کر مسلم اداروں میں داخلہ لیناپڑا، دوسری کمیونٹی کی طالبات کے ساتھ گفت وشنید محدود ہوگئی ، اور انہیں علیحدگی اور افسردگی کے احساس سے گزرنا پڑا۔
	
	
		 
	
	
	
	
بک ریویو: یہ کتاب،اس تہذیب میں سانس لیتی عورت کی زندگی،اس کے تجربات و محسوسات اور لسانی رنگ وآہنگ سب کو پیش کرتی ہے۔گویا حیدرآباد کی تاریخ، سیاست، تہذیب و ثقافت، سماجی صورتحال،لسانی اثرات، بالخصوص عورتوں کی زندگی یہاں متوجہ کرتی ہے۔
	
	
		 
	
	
	
	
 موضوع کے لحاظ سے یہ ناول جوائنٹ فیملی سے نیوکلیر فیملی تک کے اذیت ناک سفر کی داستان ہے۔پورا ناول پڑھنے کے بعد قاری کے ذہن میں بظاہر بے ترتیب لیکن نہایت بامعنی اورموضوع سے متعلق مناظر رقص کرنے لگتے ہیں۔ قاری تسلیم کرلیتا ہے کہ ہر برائی میں ایک اچھائی پوشیدہ ہوتی ہے اور یہ کہ اذیتوں کے بطن سے ہی نعمتیں جنم لیتی ہیں۔
	
	
		 
	
	
	
	
سپریم کورٹ کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی ہٹانے سے انکار کرنے کے ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے۔ سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ ہر کسی کو مذہب پر عمل کرنے کا حق ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ حق طے شدہ  یونیفارم والے اسکول میں بھی لاگو کیا جا سکتا ہے۔
	
	
		 
	
	
	
	
آج اُردوکے مایہ ناز شاعر فراق گورکھپوری کی  سالگرہ ہے۔ دی وائر اُردو کے قارئین کے لیے ایکسپریس نیوز کے شکریے کے ساتھ فراق صاحب کا انٹرویو پیش کیا جارہا ہے ۔یہ انٹرویوان کے انتقال سے چند روز قبل ان کی رہائش گاہ پر کیا گیا تھا۔