ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلی کا اثر سندربن میں سب سے زیادہ ہے۔ سطح سمندر کے بلند ہونے، سائیکلون اور طوفان وغیرہ سے کھیتی کی بربادی کے بعد ماہی گیری پر انحصار زیادہ ہو گیا ہے۔ ایسے میں ان خواتین کا مطالبہ ہے کہ یہاں جنگلات کے حقوق کا قانون لاگو کیا جائے اور ماہی گیری کے حق کو بھی اس میں شامل کیا جائے۔
بہار اسمبلی میں مانسون اجلاس کے دوران وزیر اعلیٰ نتیش کمار ریزرویشن کے موضوع پر بول رہے تھے، تبھی راشٹریہ جنتا دل کی ایم ایل اے ریکھا پاسوان نے مداخلت کرنے کی کوشش کی تو وہ اپنا آپا کھو بیٹھے۔
کچھ مظاہرین کا کہنا ہے کہ 11 مارچ کو شہریت ترمیمی ایکٹ کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد سے ہی اتر پردیش پولیس ہر روز ان کے گھر چکر کاٹ رہی ہے۔ پولیس حکام نے بھی تسلیم کیا ہے کہ ریاست میں امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے کچھ مظاہرین کے گھروں کے باہر پولیس تعینات کی گئی ہے۔
این سی ڈبلیو کے اعداد و شمار کے مطابق، خواتین کے خلاف جرائم کی سب سے زیادہ 16109 شکایتیں اتر پردیش میں درج کی گئیں۔ اس کے بعد دہلی کو 2411 اور مہاراشٹر کو 1343 شکایتیں موصول ہوئیں۔ عزت اور وقارکے حق کے زمرے میں سب سے زیادہ شکایتیں موصول ہوئیں جن میں گھریلو تشدد کے علاوہ ہر طرح سے ہراساں کرنا بھی شامل ہے۔ ان کی تعداد 8540 تھی۔
پی آر ایس لیجسلیٹیو ریسرچ کے مطابق، حالیہ اسمبلی انتخابات میں چھتیس گڑھ واحد ریاست ہے جہاں 20 فیصد سے زیادہ خواتین ایم ایل اے منتخب ہوئی ہیں۔ یہاں کل 90 ایم ایل اے میں سے 19 خواتین نے کامیابی حاصل کی ہے۔
راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، تلنگانہ اور میزورم کی 679 سیٹوں میں سے بی جے پی نے 643 اور کانگریس نے 666 سیٹوں کے لیے امیدواروں کا اعلان کیا ہے۔ ان میں سے بی جے پی نے صرف 80 خواتین امیدوار کھڑے کیے ہیں اور کانگریس نے 74 خواتین امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ 230 رکنی مدھیہ پردیش اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے 28 اور کانگریس نے 30 خواتین کو میدان میں اتارا ہے۔
یہ مبینہ واقعہ مدھیہ پردیش میں اجین کتاب میلے کے دوران پیش آیا۔ کتاب میلے میں ایک خاتون کا ہاتھ پکڑنے اور اس کا نمبر مانگنے کے الزام میں دائیں بازو کی ہندو تنظیم درگا واہنی کے ارکان نے ملزم کے ساتھ مار پیٹ کی۔ احمدیہ مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے اس شخص نے میلے میں ا سٹال لگا رکھا تھا۔ پولیس نے ملزم کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔
فلمی تاریخ دان نریش تنیجا کا ماننا ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیشہ ورانہ تربیت یافتہ خواتین بالی ووڈ کے ایسے شعبوں میں کارنامے دکھا رہی ہیں، جو ابھی تک صرف مردوں کے ہی کنٹرول میں ہوتے تھے۔ ان میں کیمروں کو سنبھالنا، ایڈیٹنگ جیسا مشکل اور صبر آزما کام اور حتیٰ کہ لائٹنگ میں بھی خواتین نے قدم جمائے ہیں۔
سال 2020 میں سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ایک درخواست میں مسلم خواتین کے مساجد میں داخلے پر مبینہ پابندی کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دینے کی ہدایت دینے کی گزارش کی گئی تھی۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے عدالت کو بتایا ہے کہ مسلم خواتین مسجد جانے کے لیے آزاد ہیں اور یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ وہاں نماز پڑھنے کے اپنے حق کا استعمال کرنا چاہتی ہیں یا نہیں۔
دھوکہ دہی سےہونے والے تبدیلی مذہب کو روکنے کے لیےمرکز اور ریاستوں کو کڑی کارروائی کرنے کی ہدایت دینے کی گزارش کرنے والی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ ہم پورے ملک کے لیے فکر مند ہیں۔ اگر یہ آپ کی ریاست میں ہو رہا ہے تو یہ برا ہے۔ اگر نہیں ہو رہا ہے تو اچھی بات ہے۔ اسے سیاسی ایشو نہ بنائیں۔
جامع مسجد کی انتظامیہ کی جانب سے جمعرات کو مرکزی دروازوں پر لگائے گئے نوٹس میں کہا گیا تھاکہ مسجد میں لڑکیوں کا اکیلے یا گروپ میں داخلہ ممنوع ہے۔ اس فیصلے کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کے بعد مسجد کے شاہی امام سید احمد بخاری نے بتایا کہ لیفٹیننٹ گورنر سے بات چیت کے بعد اسے واپس لے لیا گیا ہے۔
بہارمیں کھگڑیا ضلع کے الولی بلاک کے پرائمری ہیلتھ سینٹر کا معاملہ۔ ضلع مجسٹریٹ نے معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ نیشنل وومین کمیشن نے نس بندی کرنے والے ڈاکٹروں کا لائسنس رد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
قومی دارالحکومت میں شردھا واکر کے ان کے لیو-ان پارٹنر آفتاب پونا والا کے ہاتھوں وحشیانہ قتل نے بہت درد اور غصہ پیدا کیا ہے۔ پولیس کا فرض ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ آفتاب کو اس بہیمانہ قتل کی سزا ملے۔ لیکن خواتین کے خلاف مزید تشدد کو روکنے کے لیے ہمیں ایک سماج کے طور پرکیا کرنا چاہیے؟
یوم آزادی کے موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے خواتین کی توہین سے چھٹکارا پانے کا عہد لینے کی بات کہنے پر کانگریس لیڈر پون کھیڑا نےان کا ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کے احترام کا عہد لینے کی سب سے زیادہ ضرورت اگرکسی کو ہے تو وہ اس شخص (وزیراعظم) کو ہے۔ سماجی کارکن کویتا کرشنن نے کہاکہ کیا نریندر مودی بتا سکتے ہیں کہ بلقیس بانو ان کی ‘ناری شکتی ‘ کا حصہ نہیں ہیں کیونکہ وہ مسلمان ہیں؟
حقوق نسواں کی علمبردارکملابھسین اپنی سادگی اور صاف گوئی سےکسی بھی مسئلہ کےاندرون تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی تھیں۔انہوں نے ماہرین تعلیم اورحقوق نسواں کے علمبرداروں کےدرمیان جس سطح کی عزت حاصل کی، وہ سماجی کارکنوں کے لیےعام نہیں ہے۔ان کے لیے وہ ایک آئی-کان تھیں،تانیثی ڈسکورس کو ایک نئے نظریے سے برتنے کی ایک کسوٹی تھیں۔
ہندوستان اورجنوب ایشیائی خطے میں تحریک نسواں کی علمبردار رہیں 75 سالہ کملا کا سنیچر کوانتقال ہو گیا۔ وہ صنفی مساوات ،تعلیم ، غریبی کے خاتمے،انسانی حقوق اور جنوبی ایشیا میں امن کے مسئلوں پر 1970 سے مسلسل سرگرم تھیں۔
معاملہ ناسک کا ہے، جہاں ایک ہندو خاتون کی مسلمان مرد سے شادی کا کارڈ وہاٹس ایپ پر لیک ہونے کے بعد کچھ لوگوں نے اسے ‘لو جہاد’ بتاتے ہوئے اس کی مخالفت کی۔ گھر والوں کی رضامندی سے شادی کی تقریب 18 جولائی کو ہونی تھی، لیکن اب اسے رد کر دیا گیا ہے۔
بی جے پی خود کو خواتین کی فلاح و بہبود سے متعلق پارٹی کی حیثیت سے پیش کرنے کی کوشش کرتی ہے۔وزیراعظم اکثر مسلم خواتین کےطلاق کےقانون کو پاس کرنے کا حوالہ دےکر دعویٰ کرتے ہیں کہ اس سے مسلم خواتین کو بااختیار بنانے میں مدد ملی ہے۔مگر جس طرح اس قانون میں شوہر کو جیل میں بند کرنے کی بات کہی گئی ہے، مسلمان خواتین کے ایک بڑے طبقے کا ماننا ہے کہ یہ ان کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔
رام نگر میں ایک پروگرام کے دوران اتراکھنڈ کےوزیر اعلیٰ تیرتھ سنگھ راوت نے کہا کہ اگر لوگوں کو کووڈ 19کے دوران زیادہ راشن پانا تھا تو دو سے زیادہ بچہ پیدا کرتے۔ اسی پروگرام میں راوت نے کہا کہ ہندوستان 200 سال امریکہ کا غلام تھا اور اب کووڈ 19 نے اس کی طاقت کو بھی کم کر دیا۔
گجرات کے وزیر اعلیٰ وجئے روپانی نے گودھرا میں ایک انتخابی ریلی کے دوران کہا کہ ان کی سرکار ایک مارچ سے شروع ہو رہے ودھان سبھاسیشن میں لو جہاد کے خلاف قانون لانا چاہتی ہے تاکہ ہندو لڑکیوں کے اغوا اور تبدیلی مذہب کو روکا جا سکے۔
دہلی کے ایک وکیل نے بتایا کہ اتر پردیش کے ایٹہ ضلع واقع جلیسر کی خاتون کو ان کی مرضی سے مذہب تبدیل کرواکر شادی کروانے میں مدد کی تھی۔ ڈر کی وجہ سےجوڑا لاپتہ ہو گیاہے۔الزام ہے کہ ان کی تلاش میں اتر پردیش پولیس نے وکیل کی فیملی کے لگ بھگ دس لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔
یوگی آدتیہ ناتھ کا کہنا تھا کہ مسلم لڑکیاں خود ہی ہندو لڑکوں سے شادیاں کرکے بہ رضاو رغبت مذہب تبدیل کرتی ہیں۔
مدھیہ پردیش اور اڑیسہ کےتبدیلی مذہب کے انسداد سے متعلق قوانین میں کہیں بھی بین مذہبی شادی کا ذکر نہیں تھا اور نہ ہی سپریم کورٹ نے اس پر کوئی تبصرہ کیا تھا۔ ایسے میں اتر پردیش سرکار کا ایسا کوئی اختیار نہیں بنتا کہ وہ بنا کسی ثبوت یادلیل کے بین مذہبی شادیوں کو نظم و نسق کے سوال سے جوڑ دے۔
اگرہندوستان میں رہنے والے تمام 172ملین مسلمان بھی صرف ہندو لڑکیوں سے ہی شادیا ں کرتے ہیں، تو بھی 966ملین ہندوؤں کو اقلیت میں تبدیل نہیں کرسکتے ہیں۔
کرناٹک میں‘مورل پولیس’کا کام کرنے سے لےکر اتر پردیش کے مظفرنگر میں فسادات بھڑ کانے تک‘لو جہاد’کا راگ چھیڑ کر ہندو رائٹ ونگ تنظیموں نے اپنے کئی مقاصد کی تکمیل کی ہے۔
ایک طرف ہندوستانی آئین بالغ شہریوں کو اپنا شریک حیات منتخب کرنے کااختیار دیتا ہے، مذہب چننے کی آزادی دیتا ہے، دوسری طرف بی جے پی مقتدرہ حکومتیں آئین کی بنیادی قدروں کے برعکس قانون بنا رہی ہیں۔
ویڈیو: مبینہ لو جہاد کو لےکر اتر پردیش سرکار نے آرڈیننس کو منظوری دے دی ہے۔ اس کے تحت شادی کے لیے فریب، لالچ یا جبراًمذہب تبدیل کرائے جانے پر زیادہ سے زیادہ10 سال کی قیداور جرما نے کی سزا کا اہتمام ہے۔
بی جے پی لو جہاد کے راگ کو کیوں نہیں چھوڑ رہی؟وہ ہندوؤں میں خوف بٹھا رہی ہے کہ ‘ہماری’عورتوں کا استعمال کرکے ‘ودھرمی’اپنی تعداد بڑھانے کی سازش کر رہے ہیں۔ ‘ودھرمیوں’ کی تعداد میں اضافہ پریشانی کا سبب ہے۔ تعداد ہی طاقت ہے اور وہی برتری کی بنیاد ہے۔ اس لیے ایسی ہر شادی یا رشتے کی مخالفت کی جانی ہے، کیونکہ اس سے ‘ودھرمی’ کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔
اتر پردیش کے کانپور شہر میں کچھ رائٹ ونگ ہندو تنظیموں نے الزام لگایا تھا کہ مسلم نوجوان مذہب تبدیل کرانے کے لیے ہندو لڑکیوں سے شادی سے کر رہے ہیں۔ اس کے لیے انہیں دوسرے ملکوں سے فنڈ مل رہا ہے اور لڑکیوں سے انہوں نے اپنی پہچان چھپا رکھی ہے۔ اس کی جانچ کے لیے کانپور رینج کے آئی جی نے ایس آئی ٹی بنائی تھی۔
سوسائٹی کے وہاٹس ایپ گروپ میں وہ خواتین عموماً گھرگرہستی سے جڑے مسئلے شیئرکیا کرتی تھیں۔ پتہ نہیں یہ کب اورکیسے ہوا کہ اپنی زندگی کےتمام مسائل کو چھوڑ کربالی ووڈ کی اقربا پروری کو ختم کرنا، سشانت سنگھ راجپوت کے لیے انصاف مانگنا اور عالیہ بھٹ کو نیست و نابود کر دینا ان عورتوں کا مقصد بن گیا۔
اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایف پی اےکی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2013 سے 2017 کے بیچ ہندوستان میں ہر سال تقریباً ساڑھے چار لاکھ بچیاں پیدائش کے وقت ہی لاپتہ ہو گئیں۔اندازے کے مطابق،سالانہ لاپتہ ہونے والی 12 سے 15 لاکھ بچیوں میں سے 90 فیصد سے زیادہ چین اورہندوستان کی ہوتی ہیں۔
ویڈیو: ہندوستانی فضائیہ میں ونگ کمانڈر رہیں انوما آچاریہ کو بی جے پی نے اتنامتاثر کیا کہ انہوں نے وزیر اعظم سے ملاقات کی اور پارٹی کے لیے کام کرنے کا فیصلہ کر لیا، لیکن کچھ عرصے میں ہی وہ پارٹی سے مایوس ہو گئیں۔ انوما آچاریہ کی مودی پرستار سے مودی نقاد بننے کی کہانی۔
میں نریندر مودی سے متاثر تھی، گجرات میں رہتے ہوئے میں نے اچھی سڑکیں، چھوٹی صنعتیں دیکھی تھیں، ان کی تعریف بھی سنی تھی۔ سیاست میں جانے کا سوچنے کے بعد میں نے بی جے پی سے رابطہ بھی کیا اور پارٹی کے لیے کام بھی کیا۔ لیکن گزشتہ کچھ سالوں میں رونما ہوئے واقعات نے وزیر اعظم مودی کے بارے میں میری رائے بدل کر رکھ دی۔
مرکزی وزارت داخلہ کے تحت آنے والا این سی آربی آئی پی سی اور خصوصی اور مقامی قانون کے تحت ملک میں جرائم کے اعدادوشمار کو جمع کرنے اور ا س کےتجزیہ کے لیے ذمہ دار ہوتا ہے۔
این سی آر بی کے اعداد و شمار کے مطابق،ریپ کے معاملوں میں سزا کی شرح 2018 میں گزشتہ سال کے مقابلے کم ہوئی ہے۔ 2017 میں سزا کی شرح 32.2فیصد تھی۔ نئی دہلی: حال ہی میں شائع این سی آربی کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق، […]
تلنگانہ انکاؤنٹرسڑک پر انصاف کرنے کی اس قابل نفرت سوچ کی سمت میں ایک بڑا قدم ہے، جو بڑی بے شرمی سے ریاست کے ذریعے خود انجام دیاگیا۔
عدالت نے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وی ایس سرپرکر کی رہنمائی میں جانچ کمیٹی کی تشکیل کی۔ کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ اس معاملے میں کوئی دیگر عدالت یا کوئی دیگر محکمہ تب تک جانچ نہیں کرے گا۔
ویڈیو: حیدرآباد ریپ پھر انکاؤنٹراور اناؤ کی ریپ متاثرہ کے قتل کے معاملے میں کس طرح سماج میں مجرموں کو پھانسی کی سزا کی مانگ اور ملک کے بڑے میڈیا اداروں کی ان مدعوں پر ہوئی رپورٹنگ پر سپریم کورٹ کی وکیل اونی بنسل،ہندوستان ٹائمس کےپالیٹیکل ایڈیٹر ونود شرمااور دی وائر کی سینئر ایڈیٹر رعارفہ خانم شیروانی سے بات کر رہے ہیں سینئر صحافی ارملیش۔
پنجاب کے وزیراعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ نے حیدر آباد انکاؤنٹر معاملے پر کہا کہ وہ قانون کے دائرے سے باہر پولیس کارروائی کی مخالفت کرتےہیں۔
دہلی ہائی کورٹ کے ریٹائر جج جسٹس آر ایس سوڈھی نے کہا کہ حیدر آباد میں خاتون ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے ملزمین کی پولیس انکاؤنٹر میں مارے جانے کی بات ہضم نہیں ہو رہی ۔ یہ حراست میں کیا گیا قتل ہے۔ قانون کہتا ہے کہ اس کی غیر جانبدارانہ جانچ ہونی چاہیے۔