خبریں

دہلی فسادات: ’جیل میں عمر خالد کے 1000 دن، مزاحمت کے بھی ہزار دن ہیں‘

جے این یو کے سابق طالبعلم عمر خالد نے سال 2020 میں شمال–مشرقی دہلی میں ہونے والے فسادات سے متعلق ایک معاملے میں جیل میں ایک ہزار دن پورےکر لیے ہیں۔ خالد کو دہلی پولیس نے ستمبر 2020 میں گرفتار کیا تھا اور ان پر یو اے پی اے اور آئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت الزام لگائے گئے ہیں۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

نئی دہلی:متعدد طالبعلموں، شہری حقوق کے کارکنوں اور میڈیاسے وابستہ افراد عمر خالد کی حمایت میں اظہاریکجہتی کے لیے جمعہ (9 جون) کو دہلی کے پریس کلب میں جمع ہوئے۔ واضح ہو کہ جے این یو کے سابق طالبعلم عمر خالد نے سال 2020 میں شمال–مشرقی دہلی میں ہونے والے فسادات سے متعلق ایک معاملے میں جیل میں ایک ہزار دن پورے کر لیے ہیں۔

ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق، اس اجتماع کا مقصد ‘جمہوریت، اختلاف رائے اور سینسرشپ’ کےموضوع پر تبادلہ خیال کرنا تھا، یہاں مقررین نے اس  بات پر زور دیا کہ خالد کے 1000 دنوں کی قید مزاحمت’ کےبھی  1000 دن ہیں۔

شروعات میں یہ پروگرام  گاندھی پیس فاؤنڈیشن میں ہونا تھا، لیکن اس کو تبدیل کرنا پڑا کیونکہ کارکنوں نے الزام لگایا کہ پولیس نے وینیو مینیجرزپر بکنگ  کورد کرنے کا دباؤ ڈالاتھا۔

قابل ذکر ہے کہ خالد کو دہلی پولیس نے سال 2020 میں گرفتار کیا تھا اور ان پر یو اے پی اے اورآئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت الزام لگائے گئے ہیں۔

پولیس کا دعویٰ ہے کہ خالد شمال–مشرقی دہلی میں ہونے والے فسادات کے ماسٹر مائنڈ تھے۔ فسادات میں 53 لوگوں کی موت ہو گئی تھی اور 700 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

پریس کلب میں منعقد پروگرام کے دوران راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے رہنما اور راجیہ سبھا ایم پی  منوج جھا نے کہا، ‘ایک ہزار دنوں میں قید اور مزاحمت دونوں شامل ہیں۔ عمر خالد کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ شدید گرمی کے باوجود سینکڑوں لوگ یہاں جمہوریت کی حفاظت کے لیےجمع ہوئے۔

انہوں نے کہا، یہ اظہاریکجہتی صرف عمر کے لیے نہیں ہے، بلکہ ہر سیاسی قیدی کے لیے ہے۔ یہ شعور کی جنگ ہے۔ غالب شعور آج مرکزی دھارے میں ہے، جبکہ حاشیے پر پڑے طبقات کے شعور کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔

سینئر صحافی رویش کمار نے کہا کہ خالد جیسے لوگوں کے لیے انصاف کے دروازے کا راستہ بہت لمبا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ خالد کی قید کے صرف 1000 دن نہیں ہیں، بلکہ ہندوستانی عدالتی نظام کے لیے شرمندگی کے بھی 1000 دن  ہیں۔

یہاں خالد کے والد ایس کیو آر الیاس بھی موجود تھے، جنہوں نے کہا کہ جیل کی چاردیواری کی  قید ان کے بیٹے کی ہمت کو پست نہیں کر سکی۔

انہوں نے کہا،کیا جیل کے 1000 دنوں  نے ان کے بیٹے کی خود اعتمادی  کو کم کیا ہے، کیا اس کے دوستوں کے جوش و جذبے کو کم کیا ہے؟بالکل نہیں۔ جب میں ان تمام لوگوں کو دیکھتا ہوں جوعدالتی شنوائی  کے دوران جیل میں رہے تو مجھے ان کے چہروں پر ایک خود اعتمادی  نظر آتی ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ کسی مقصد سے ہی جیل میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان کا بیٹا ملک اور جمہوریت کی جنگ لڑ رہا ہے۔

الیاس نے مطالبہ کیا کہ ان کے بیٹے، شرجیل امام، خالد سیفی، شفا الرحمان اور دیگر تمام ‘سیاسی قیدیوں’ کو رہا کیا جائے۔

پروگرام کی جگہ کے تنازعہ پر سپریم کورٹ کے وکیل شاہ رخ عالم نے کہا کہ دہلی پولیس کی مداخلت کے بعد اس کو رد  کر دیا گیا تھا۔

انہوں نے دعویٰ کیا،’ہمیں بتایا گیا تھا کہ دہلی پولیس نے پہلے ونییو مینیجر کو نوٹس دیا تھا کہ بکنگ ردکر دی جائے۔ انہوں نے ایسی کسی دفعہ کا ذکر نہیں کیا جس کے تحت آرڈر دیا گیا تھا۔

خالد کے والد الیاس نے کہا کہ جب فسادات ہوئے تو خالد دہلی میں نہیں تھے، لیکن پولیس نے اس کی بے گناہی کے ثبوت کے طور پر اس کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔

دریں اثنا،آر جے ڈی ایم پی جھا نے سیڈیشن کے قانون پر بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

انہوں نے کہا، لاء کمیشن اب سفارش کر رہا ہے کہ سیڈیشن کے قانون کے تحت مزید سخت سزا دی جانی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں کو سی بی آئی اور ای ڈی نشانہ نہیں بنا سکتے ان کے خلاف  اختلاف رائے کو کچلنے کے لیےیو اے پی اے  کے تحت مقدمہ درج کیا جائے گا۔

جے این یو کے پروفیسر ایمریٹس پربھات پٹنایک نے کہا کہ خالد کی مسلسل حراست صرف ایک ذاتی المیہ نہیں ہے بلکہ ایک صلاحیت کا ‘سماجی نقصان’ ہے۔

انہوں نے کہا، گاندھی نوآبادیاتی دور میں کبھی بھی دو سال سے زیادہ جیل میں نہیں رہے۔ ایک بار میں نہروسب سے طویل عرصے تک 1041 دن جیل میں رہے۔ عمر اب ایک ہزار دن سے جیل میں ہیں۔

صحافی رویش کمار، مصنفہ اروندھتی رائے، کارکن شبنم ہاشمی، پلاننگ کمیشن کی سابق رکن سیدہ حامد نے اس تقریب میں شرکت کی۔

معلوم ہو کہ خالد کو گزشتہ دسمبر میں بہن کی شادی میں شرکت کے لیے 8 دنوں کی  ضمانت ملی تھی۔ خالد کی طویل قید پر عالمی اداروں، حقوق کی تنظیموں اور دنیا بھر کے مفکرین کی جانب سے بڑے پیمانے پر تنقید کی گئی ہے۔