خبریں

این آئی اے نے کیرل میں لو جہاد کے معاملوں میں جانچ  بند کی

این آئی اے کیرل میں لو جہاد کے 11 معاملوں کی جانچ کر رہی تھی۔ این آئی اے نے کہا ہے کہ ہمیں ایسے کوئی ثبوت نہیں ملے کہ ان معاملوں میں کسی لڑکے یا لڑکی سے زبردستی مذہب تبدیل کرایا گیا۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: کیرل میں این آئی نے  لو جہاد کے معاملوں میں یہ کہتے ہوئے جانچ بند کر دی کہ ان معاملوں میں لو تو ہے لیکن جہاد نہیں ہے۔ این آئی اے کے ایک افسر نے کہا کہ ہندوستان کا آئین تمام شہریوں کو  کسی بھی مذہب کو اپنانے اور ماننے کے بنیادی حقوق دیتا ہے۔ غور طلب ہے کہ این آئی اے ایسے معاملوں کی جانچ کر رہی تھی ، جس میں مسلم لڑکوں نے ہندو لڑکیوں سے شادی کی تھی۔ اس کے بعد لڑکیوں نے مذہب تبدیل کیا۔ پھر الزامات لگے کہ یہ جہادی دماغوں کی سازش ہے جس میں مسلم لڑکے محبت کے نام پر ہندو لڑکیوں کو ورغلا کر ان کا مذہب تبدیل کر وا رہے ہیں۔

ان الزامات کے بعد معاملے کی جانچ این آئی اے کو سونپ دی گئی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ؛اب این آئی نے ان میں سے تقریباً سبھی معاملوں کی جانچ بند کر دی ہے۔ ہندوستان ٹائمس کے مطابق؛ لو جہاد کے معاملوں کی جانچ سے جڑے ایک افسر نے نام نہ چھاپنے کی شرط پر بتایا کہ این آئی اے کو کوئی پختہ ثبوت نہیں ملے ہیں۔ ان معاملوں میں یہاں تک تو ٹھیک ہے کہ مسلم -ہندو لڑکے لڑکیوں کے بیچ لو میرج ہوئی ۔ یہ بھی صحیح ہے کہ مذہب تبدیل کیا گیا۔ لیکن یہ سب کسی مجرمانہ سازش کے تحت کیا گیا، اس کا ثبوت نہیں ملا ہے۔

 لہذا این آئی اے اب ان معاملوں میں آگے کوئی رپورٹ پیش کرے گی ، اس کے امکانات نہیں ہیں۔این آئی اے کے ایک افسر نے کہا،’ جہاں تک این آئی اے کا معاملہ ہے ، ہمارے لیے یہ معاملے بند ہو چکے ہیں۔ ہمیں ایسے ثبوت نہیں ملے ہیں کہ ان معاملوں میں کسی لڑکے یا لڑکی سے زبردستی مذہب تبدیل کرایا گیا۔ حالانکہ یہ صحیح ہے کہ مذہب تبدیل کرانے والوں میں ایک ہی گروپ کے زیادہ لوگ ملوث پائے گئے۔ یہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی )سے جڑے لوگ تھے، جو یا تو لڑکے یا لڑکی کو اسلام قبول کرنے میں مدد کر رہے تھے۔ لیکن ان پر مقدمہ چلانے لائق ثبوت نہیں ملے ہیں۔

غور طلب ہے کہ کیرل میں ہادیہ سے جڑا معاملہ لو جہاد کی مثال کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ہادیہ ہندو تھی جس نے شیفین نامی لڑکے سے شادی کے بعد اسلام قبول کر لیا تھا اور اپنا نام بدل کر ہادیہ کر لیا تھا۔ اس کے والد کی عرضی پر کیرل ہائی کورٹ نے اس شادی کو رد کر دیا تھا۔ اس بنیاد پر کہ یہ شادی زبردستی کرائی گئی ہے ۔ لیکن بعد میں سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو رد کر دیا تھا اور یہ بھی کہا کہ ایجنسی ہادیہ کے نکاح کی جانچ نہیں کر سکتی ۔ سپریم کورٹ نے یہ سوال بھی کیا تھا کہ کیا ہائی کورٹ بالغوں کی شادی کو رد کر سکتی ہے۔ واضح ہو کہ این آئی اے اسی طرح کے 11 معاملوں کی جانچ کر رہی تھی جن میں 89 کپل نے دوسرے مذہب کے لڑکے یا لڑکی سے شادی کی تھی۔