فکر و نظر

رویش کا بلاگ: کیا ہندی کے اخبارات بی جے پی-کانگریس کے ٹائپسٹ ہیں؟

اخبار نے وزیر اعظم کی تقریر کو اتنے ادب سے چھاپا ہے جیسے پورا اخبار ان کا ٹائپسٹ ہو گیا ہو۔2019 میں 2030 کی ہیڈلائن لگ رہی ہے۔ آخر کیوں اخبار چھپ‌کر آتا ہے، خبر چھپی ہوئی نہیں دکھتی ہے۔

فوٹو/بشکریہ : ٹوئٹر

فوٹو/بشکریہ : ٹوئٹر

گڈھا اتنا گہرا ہو گیا ہے کہ بات میں تلخی اور سختی کی اجازت مانگتا ہوں۔ آپ آج کا ہندوستان اخبار دیکھیے۔ پھر انڈین ایکسپریس دیکھیے۔ ایکسپریس کا پہلا صفحہ بتاتا ہے کہ ملک میں کتنا کچھ ہوا ہے۔ واقعات کے ساتھ صحافت بھی ہوئی ہے۔ ایکسپریس کے پہلے صفحے کی بڑی خبر ہے کہ بھوپین ہزاریکا کے بیٹے نے بھارت رتن لوٹا دیا ہے۔ رافیل ڈیل ہونے سے دو ہفتہ پہلے انل امبانی نے فرانس کی دفاعی افسروں سے ملاقات کی تھی۔ ہندوستان کا پہلا صفحہ بتاتا ہے کہ ہندوستان میں دو ہی کام ہوئے ہیں۔ ایک وزیر اعظم کی تقریر ہوئی اور ایک پرینکا کی ریلی ہوئی ہے۔

اخبار نے وزیر اعظم کی تقریر کو اتنے ادب سے چھاپا ہے جیسے پورا اخبار ان کا ٹائپسٹ ہو گیا ہو۔آپ دونوں اخباروں کو ایک جگہ رکھیں اور پھر پہلے صفحے کو باری باری سے دیکھنا شروع کیجئے۔ میرے پاس فی الحال یہی دو اخبار ہیں، آپ یہی کام کسی اور ہندی اخبار اور انگریزی اخبار کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ تب آپ سمجھ سکیں‌گے کہ کیوں میں کہتا ہوں کہ ہندی کا اخبار ہندی کے قارئین  کا قتل کر رہے ہیں۔ کیوں ہندی کے چینل آپ کی شہریت کے احساس  کو سن کر رہے ہیں۔

ہندوستان کی پہلی خبر کیا ہے۔ وزیر اعظم کی تقریر۔ 2030 تک دوسری اقتصادی طاقت بنیں‌گے۔ 2019 میں 2030 کی ہیڈلائن لگ رہی ہے۔تقریر کے پورے حصے کو ذیلی-عنوان لگاکر چھاپا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کہیں کچھ چھوٹ نہ جائے اور حضور ناراض نہ ہو جائیں اس لئے ایڈیٹر خود دری پر بیٹھ‌کر ٹائپ کئے ہیں۔ اس سال کے شروع ہوتے ہی وزیر اعظم سو ریلیوں کی یاترا پر نکل چکے ہیں۔ اس کے علاوہ یا اسی میں سو میں ان کے اس طرح کے پروگرام بھی شامل ہیں، یہ مجھے نہیں معلوم لیکن جو رہنما روز ایک تقریر کررہا ہو کیا اس کی تقریر اس طرح سے پہلی خبر ہونی چاہیے، کہ آپ ایک ایک بات چھاپیں۔

اس بات کا فیصلہ آپ قارئین کریں۔ اچھا لگتا ہے تب بھی اس طرح سے سوچیں۔ بغل کی دوسری خبر میں پرینکا کی خبر چھپی ہے۔ اس خبر میں بھی جی حضوری  ہے۔ جیسا کہ تمام ٹی وی چینلوں میں تھی۔ اندر کے ایک پورے صفحے پر پرینکا گاندھی کی خبر ہے۔ اس میں کچھ ہے نہیں۔صفحہ بھرنے کے لئے جبراً باکس بنائے گئے ہیں اور تصویریں چھاپی گئی ہیں۔

کیا بہترین نامہ نگاروں اور وسائل سے لیس کسی اخبار کو پہلی خبر کے طور پر یہی دینا چاہیے کہ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں لفظ بہ لفظ کیا-کیا کہا؟ ایک ریلی کی جھانکی چھاپ‌کر صفحہ بھرنا چاہیے؟ جس خبر میں تفصیل  ہونی چاہیے وہ مختصر ہے، جس کو مختصر ہونا چاہیے اس میں بےکار  کی تفصیل ہے۔ خبروں کو اس طرح سے چھاپا جاتا ہے کہ چھپ جانے دو۔ کسی کی خاص نظر نہ پڑے۔ گھساکر کہیں ٹھونسا کر چھاپ دو۔ آپ خود بھی دیکھیں۔ پرینکا گاندھی کے کوریج کو۔ ٹی وی اور اخبار ایک ساتھ گڈھے میں نظر آئیں‌گے۔ کچھ چھاپنے کو ہے نہیں، باکس اور فوٹو لگاکر اور جھانکیاں سجاکر صفحہ بھرا گیا ہے۔ کیا ہندی کا میڈیا واقعی ہندی کے قارئین  کو فالتو سمجھنے لگا ہے؟

کیا ہندوستان اخبار کے پہلے صفحے پر انڈین ایکسپریس کی طرح بھوپین ہزاریکا کے بھارت رتن لوٹانے کی خبر نہیں ہونی چاہیے تھی؟ ان کے بیٹے نے شہریت ترمیم بل کی مخالفت میں یہ ایوارڈ لوٹا دیا ہے۔ اس کے بغل میں رافیل ڈیل کی خبر ہے، وہ ہندوستان کیا ہندی کے ایک آدھ اخباروں کو چھوڑ کرکوئی چھاپنے یا لکھنے کی ہمت نہیں کر سکتا۔آپ ایکسپریس کے سشانت سنگھ کی خبر دیکھیے۔ رافیل ڈیل کے اعلان سے دو ہفتے پہلے انل امبانی نے فرانس کے دفاعی افسروں سے ملاقات کی تھی۔ رافیل پر سی اے جی کی رپورٹ پیش ہوگی اس اطلاع کو ہندوستان نے جگہ دی ہے۔ لیکن آپ نے سوچا کہ اخباروں کے پاس وقت ہوتا ہے، قابل نامہ نگار ہوتے ہیں پھر کیوں ہندی کے اتنے بڑے اخبار کے پاس رافیل جیسے معاملے پر آزادانہ  رپورٹنگ نہیں ہے؟

ویڈیو: کیا یہ ہندی صحافت کا ’بھکتی کال‘ہے؟

یہ مثال کیوں دی؟ کل ہی آدھی رات کو لکھا کہ نیوز چینلوں میں گراوٹ اب گڈھے میں دھنس گئی ہے۔ چینل اپنی خبروں کو کتر کتر کر سیاق سے کاٹ رہے ہیں جس کے نتیجے میں ان کی شہریتی احساس جانکاری اور نظر سے محروم ہورہی  ہے۔ ہندوستان جیسا اخبار بھی وہی کر رہا ہے۔ میری باتوں کو لےکر جذباتی ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ سختی سے سوچیے کہ یہ کیا اخبار ہے، آپ کیوں اس اخبار کو پڑھتے ہیں، پڑھتے ہوئے اس سے آپ کو کیا ملتا ہے؟ یہی سوال آپ اپنے گھر آنے والے کسی بھی ہندی اخبار کو پڑھتے ہوئے کیجئے۔ ہندی کے نیوز چینل اور اخبار  پبلک اسپیس میں نالہ بہا رہا ہے۔ آپ نالہ کو مت بہنے دیں۔

آخر ہندی کی صحافت اس موڑ پر کیسے پہنچ گئی؟ کیا ہندی کا اخبار بی جے پی اور کانگریس کے ٹائپسٹ ہیں؟ کیا ان کے یہاں صحافی نہیں ہیں؟ کیوں ہندوستان جیسا اخبار میں پہلے صفحے پر اس کی اپنی خبر نہیں ہے؟ کیا ہندوستان اخبار کے قاری ہونے کے ناطے آپ کو پتہ چلتا ہے کہ رافیل معاملے میں کچھ ہوا ہے۔ کیا ہندوستان اخبار کے قاری ہونے کے ناطے آپ جان سکے کہ آسام میں کیا ہو گیا کہ بھارت رتن کا انعام لوٹا دیا گیا ہے۔

آخر ہندی صحافت کے ان ستونوں میں اتنا تنگی کیسے آ گئی ہے؟ اس ادارے کے صحافی بھی تو سوچیں۔ اگر وہ اس طرح سے وسائل کو اپنی کاہلی سے پانی میں بہا دیں‌گے تو ایک دن خطرہ انہی پر آئے‌گا۔ میں نہیں مانتا کہ وہاں قابل لوگ نہیں ہوں‌گے۔ ضرور لکھنے نہیں دیا جاتا ہوگا۔ سب اوسط کام ہی کریں اس لئے اخبار ایک فارمیٹ میں کسا دکھتا ہے۔ اخبار چھپ‌کر آتا ہے، خبر چھپی ہوئی نہیں دکھتی ہے۔

آپ کہیں‌گے کہ میں کون ہوتا ہوں شیخی بگھارنے والا۔ ہم ٹی وی والے ہیں۔ میں ٹی وی کے بارے میں اسی بے رحمی سے لکھتا رہتا ہوں۔ ہندی کے بھلے پچاس طاقت ور چینل ہو گئے ہیں مگر کسی کے پاس ایک خبر اپنی نہیں ہے جو اثر چھوڑے۔ میں چاہتا ہوں کہ ایک قاری کے طور پر ہندی کے میڈیا اداروں کی اس گراوٹ کو پہچانیں۔ اتنی اوسط صحافت آپ کیسے جھیل لیتے ہیں۔ کیا آپ کو احساس ہے کہ یہ آپ کے ہی مفادات کے خلاف ہے؟ مدیر کی اپنی مجبوری ہوگی، کیا آپ کی بھی اوسط ہونے کی مجبوری ہے؟

آخر ہندی کے کئی بڑے اخبار کسی ٹائپسٹ کے ٹائپ کئے کیوں لگتے ہیں، کسی صحافی کے لکھے ہوئے کیوں نہیں لگتے ہیں؟ پورے پہلے صفحے پر اخبار کی اپنی کوئی خبر نہیں ہے۔ نامہ نگاروں کے نام مٹا دینے کےجاگیر دارانہ رجحان ابھی بھی برقرار ہیں۔ نام ہے اسپیشل کراسپانڈنٹ اور خبر وہی جس میں خاص کچھ بھی نہیں۔ ہندی اخباروں کا تجزیہ نہیں ہوتا ہے۔ کرنا چاہیے۔ دیکھیے کہ خبروں کو لکھنے کی کیسی تہذیب تیار ہو چکی ہے۔ لگتا ہی نہیں ہے کہ خبر ہے۔ کوئی ڈٹیل نہیں۔ جہاں پروپیگنڈہ کرنا ہوتا ہے وہاں سارا ڈٹیل ہوتا ہے۔ وزیر اعظم مودی کی تقریر کو لےکر جو پہلی خبر بنی ہے اس کو بھرنے کے لئے یہاں تک لکھا گیا ہے کہ وزیر اعظم کو کہاں پہنچنا تھا اور تکنیکی وجہوں سے کہاں پہنچے۔ ہیلی کاپٹر کہاں اترا اور کار کہاں پہنچی۔

مجھے پتہ ہے جواب میں کیا جواب آئے‌گا۔ فرق نہیں پڑتا۔ مگر ایک اخبار کے اوسط سے بھی نیچے گرنے کی تکلیف ایک قاری کے طور پر کہنے کا حق رکھتا ہوں۔ ہندی کی صحافت آپ کے آنکھوں کے سامنے ختم کی جا رہی ہے۔ میں یہ بات اخبار کے لئے نہیں کہہ رہا ہوں۔ آپ کے لئے کہہ رہا ہوں۔ چینل اور اخبار آپ کو ختم کر رہے ہیں۔ اخبار پڑھنے سے پڑھنا نہیں ہو جاتا ہے۔ اخبار کو بھی الگ سے پڑھنا پڑتا ہے۔ کیونکہ اسی میں لکھا ہوتا ہے آپ کو اندھیرے میں دھکیل دینے کا مستقبل۔