فکر و نظر

منی پور کا کُکی اسی طرح خوفزدہ ہے جس طرح نواکھلی کا ہندو تھا، لیکن کیا ملک میں کوئی گاندھی ہے

ہندوستان کی تاریخ میں نواکھلی کا تشدد اور مہاتما گاندھی کا وہاں رہ کر قیام امن  کے لیے کردار ادا کرنا دونوں ہی قابل ذکر ہیں۔ اگر منی پور میں واقعی امن قائم کرنا ہے، تو وہاں کسی مہاتما گاندھی کو جانا ہوگا۔

نواکھلی میں مہاتما گاندھی، پس منظر میں منی پور میں ابتدائی دور کا تشدد۔ (فوٹو بہ شکریہ: فوٹو ڈویژن، حکومت ہند اور ٹوئٹر)

نواکھلی میں مہاتما گاندھی، پس منظر میں منی پور میں ابتدائی دور کا تشدد۔ (فوٹو بہ شکریہ: فوٹو ڈویژن، حکومت ہند اور ٹوئٹر)

منی پور میں تازہ نسلی تصادم 2 مئی 2023 کو شروع ہوا۔ اس کے بعد سےوہاں سے لوٹ مار اور آگ زنی کی خبریں لگاتا رآرہی تھیں، لیکن بڑے پیمانے پر وحشیانہ جنسی تشدد بھی کیا جا رہا ہے، اس کی حقیقت 19 جولائی کو ایک ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ہی سامنے آئی۔ پھر جس طرح سےتین ماہ تک خاموش رہنے والے وزیر اعظم کو مجبوری میں اپنامنہ کھولنا پڑا اور وزیر اعلیٰ کو بھی کہنا پڑا کہ ہم مجرموں کے خلاف کارروائی کریں گے۔ یہ کچھ کچھ ایسا ہی تھا جیسے کہ نواکھلی میں ہونے والے تشدد کو اس وقت کے بنگال کے وزیر اعظم حسین سہروردی نے تب مانا، جب خودمہاتما گاندھی وہاں  جاکر بیٹھ گئے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے اپنے مشن  کی شروعات کی ۔

نواکھلی کے تشدد کو تقسیم ہند سے قبل کا سب سے وحشیانہ تشدد سمجھا جاتا ہے۔ اسے وہاں کی آل انڈیا مسلم لیگ کی حکومت کے اشارےپر ایک منصوبہ بند طریقے سے اکثریتی مسلمانوں کے ذریعے اقلیتی ہندوؤں کے خلاف کروایا گیا تھا۔ پاکستان کے مطالبے کے حوالے سے’ یوم راست اقدام’ یعنی ڈائریکٹ ایکشن ڈے کے محمد علی جناح کےاعلان کے ساتھ ہی کلکتہ (کولکاتہ) میں ہندوؤں کے خلاف تشدد، لوٹ مار اور قتل و غارت گری کا سلسلہ کئی دنوں تک  چلا تھا۔

کیونکہ یہ تشدد سرکاری تحفظ میں ہو رہا تھا، اس لیے انہیں بچانے والا بھی کوئی نہیں تھا۔ کانگریس کارکن بھی اپنے آپ کوبے بس محسوس کر رہے تھے۔ کسی بھی طرف سے سہار ا  نہ ملتا  دیکھ کر ہندوؤں نے اپنے آپ کو گروہوں کی شکل دی اور مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھا یا۔ لیگ یہ برداشت نہ کر سکی اور بدلہ لینے کے لیے نواکھلی  کے فسادات کا منصوبہ بنایا۔

نواکھلی چٹاگانگ ڈویژن کا ایک مسلم اکثریتی ضلع تھا۔ یہاں ہندو اقلیت زمیندار تھا اور اس کے پاس کافی زمین تھی۔ یہ فسادات کئی دنوں تک جاری رہے۔ یہ بات دہلی تک پہنچ تو  رہی تھی کہ وہاں بہت زیادہ مارکاٹ کے واقعات اور تشدد ہوئے ہیں، لیکن کوئی یہ نہیں بتا رہا  تھا کہ اصل میں ہوا کیا ہے۔

گاندھی اس سے بہت پریشان تھے۔ بنگال  کی سرکار کہہ رہی تھی کہ کچھ نہیں ہوا۔ سب  ٹھیک ہے۔ کلکتہ میں بیٹھے کانگریسی لیڈروں کو بھی کچھ پتہ نہیں تھا۔ آخرکار ایک دن باپو نے شام کی دعائیہ میٹنگ میں کہا کہ کانگریس صدر کو وہاں جانا چاہیےپھر چاہے وہاں جانے کے بعد انہیں اپنی جان ہی کیوں نہ دینی  پڑے۔ اور جے بی کرپلانی اگلے ہی دن وہاں کے لیے روانہ ہو گئے۔ ان کے ہمراہ ان کی اہلیہ سچیتا کرپلانی بھی تھیں۔

کلکتہ پہنچ کر کانگریس صدر نے ہاتھ کھڑے کر دیے کہ نواکھلی تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ فسادیوں نے تمام سڑکیں کاٹ دی ہیں۔ ڈر کے مارے وہ ان کے ساتھ نہیں گئے۔ کرپلانی سہروردی سے ملے تو ان کا کہنا وہی تھا– وہاں حالات ٹھیک ہیں۔ وہاں جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پھر بھی کسی طرح دونوں  میاں بیوی وہاں پہنچے اور پھر معلوم ہوا کہ وہاں بڑی تعداد میں ہندوؤں کا قتل عام ہوا ہے۔ لاشوں سے گاؤں کےگاؤں، راستے کے راستے اٹے پڑےتھے۔ ہندوؤں کو ان کے گھروں سے نکال کر ان کے گھروں پر قبضہ کر لیا گیا تھا۔ سب کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ لڑکیوں کااغوا، ریپ اور جنسی تشدد کے علاوہ ان کا مذہب تبدیل کرکے اپنے خاندانوں میں شادیاں کروا دی گئی تھیں۔ مندروں کو توڑ  دیا گیا تھا۔ زمینداروں کے ہلوں کو آگ لگا دی گئی تھی اور بیلوں کو مار کر ان کا گوشت پکا کر کھالیا گیا تھا۔

اگر کہیں ہندو خود کو بچانے میں کامیاب بھی ہو گئے تھے تو وہ اتنے خوفزدہ تھے کہ دو تین خاندان اور ان کے جانور ایک ہی کمرے میں اکٹھے رہ رہے تھے۔ سب بھوکے پیاسے۔ کئی دنوں سے۔ کوئی باہر نہیں نکلتا تھا۔ ایک بھی پولیس یا انتظامی افسر اور ملازم وہاں نہیں تھا۔ تین دنوں  تک حالات کا جائزہ لینے کے بعد جے بی کرپلانی دہلی واپس آگئے۔ لیکن سچیتا کرپلانی وہیں رہ گئیں۔

کیوں؟

اس لیے کہ جب دونوں نے واپس جانے کا فیصلہ کیا تو کچھ ہندو جے بی کے پاس آئے اور کہا کہ آپ چلے جائیے، لیکن اس ماں کو ہمارے پاس رہنے دیجیے۔ ان کی بے بسی  دیکھ کر دونوں کو چپی لگ گئی اور پھر سچیتا چھ ماہ تک وہیں رہیں۔ جب گاندھی 7 نومبر کو وہاں آئے تو وہ وہیں تھیں۔

تبدیلی مذہب کو چھوڑیں تو، منی پور میں کُکی برادری اور خواتین کے خلاف تشدد کی کہانی بھی اسی طرح کی ہے۔ 2 مئی کو وہاں نسلی تشدد شروع ہوا۔ اسی دن سے خواتین پر جنسی تشدد بھی شروع ہوا۔ لیکن وزیر اعلیٰ، مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ، وہاں کی گورنر جو ایک خاتون ہی  ہیں، امن کمیٹی، فوجی افسران، کسی نے غلطی سے بھی یہ نہیں کہا کہ وہاں خواتین پر تشدد ہو رہا ہے اور نہ ہی اسے روکنے کی کوئی کوشش کی۔

کیا مانا جائے؟ سہروردی کہتے رہے کہ سب ٹھیک ہے۔ اور یہاں؟ جو کچھ ہو رہا ہے ہونے دو۔

مئی میں خواتین پر تشدد کے واقعات یکے بعد دیگرے پیش آئے۔ خاص طور پر کُکی ایریا چوڑاچاند پور میں۔ ان کے خلاف اکثریتی میتیئی کمیونٹی کے لوگوں کی طرف سے منظم جنسی تشدد کیا گیا۔ گینگ ریپ۔بھیڑ میں۔ریپ  کی شکار کُکی خواتین کے بیانات کے مطابق، ہجوم میں شامل میتیئی خواتین بھی ہجوم کو جنسی تشدد کے لیے اکسا رہی تھیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ 4 مئی کو یہ جھوٹی خبر پھیلائی گئی کہ چوڑا چاند پور میں میتیئی خاتون کے ساتھ کُکی مردوں نے ریپ کیا ہے۔ 5 مئی کو انسپکٹر جنرل آف پولیس نے اس کی تردید کی۔ جس لڑکی کا نام لیا جا رہا تھا اس کے باپ نے بھی تردید کی۔ لیکن تب تک بھیڑ پاگل ہو چکی تھی۔ ایسے میں پولیس اور انتظامیہ کی ذمہ داری  ہوتی ہے کہ وہ عوام کو اعتماد میں لے کر امن قائم کرے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔

جن دو خواتین کا ویڈیو وائرل ہوا ہے ان کا کہنا ہے کہ خود پولیس انہیں گاؤں سے باہر لائی اور کچھ دور جانے کے بعد انہیں ہجوم کے حوالے کر دیا۔ ان میں سے ایک خاتون کے شوہر نے 18 مئی کو تھانے میں شکایت درج کرائی، لیکن کچھ نہیں ہوا۔ 72 دنوں کے بعد جب یہ ویڈیو وائرل ہوا تو پولیس کو (مجبوراً) اس میں نظر آنے والے نوجوانوں کو گرفتار کرنا پڑا۔

آگے بڑھنے سے پہلے یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بنیادی طور پر جو دو برادریاں اپنے مفادات کے لیے لڑ رہی ہیں، ان میں سے ایک کُکی–زومی برادری ہے۔ یہ قبائلی ہے، عیسائی ہے اور پہاڑ پر رہتی ہے۔  میتیئی ہندو ہیں، دولت مند ہیں، ان کا اقتدار میں بڑا حصہ ہے اور وادی میں رہتے ہیں۔ اب وہ خود کو قبائلی قرار دینے کا مطالبہ کر  رہے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ اسے بھی قبائلیوں کی  زمین خریدنے کا حق مل جائے گا۔

یہ کُکی اور دیگر قبائلی برادریوں کی ایک بڑی تشویش ہے۔ کیونکہ اس سے وہ اور طاقتور ہوجائیں گے۔ ویسے بھی دونوں برادریوں کے درمیان مفادات کا ٹکراؤ بہت پرانا ہے۔ یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہاں  کےوزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ بھی میتیئی ہی  ہیں۔ وہ چاہتے تو کم از کم خواتین کے حوالے سے اپنی برادری کو روکنے کے لیے اپنے اثر و رسوخ  کااستعمال کر سکتے تھے، لیکن اگر بات ہندو قوم پرستی کی ہے تو پھرتو چھوٹ دینی ہی تھی اور وہ دی جا رہی ہے۔  کمبخت ویڈیو نہ آتا تو وزیراعظم اب بھی خاموش ہی رہتے۔ اس لیے اب جو بولے بھی تو راجستھان اور چھتیس گڑھ کو ساتھ میں  گھسیٹ لیا۔

کہا جا رہا ہے کہ منی پور میں ہوئے تشدد نے ملک کو شرمسار کر دیا ہے۔ غلط۔ شرمسارتوہمارے وزیر اعظم نے ہمیں کیا ہےجنہیں  نسلی فسادات کے تحت جان بوجھ  کرکیے جانے والے جنسی تشدد اور روزمرہ کے ریپ میں  فرق کرنا نہیں آتا۔ بیرین سنگھ اور ان کے بیان کسی بھی حساس شہری کے خون  کوکھولا دینے والے ہیں۔

وزیر اعظم سے لے کر وزیر اعلیٰ تک جب سب خاموش تھے اور گورنر کا انفارمیشن سسٹم بھی سوشل میڈیا ہی تھا تو پھر قومی کمیشن برائے خواتین کی چیئرپرسن کی کیا بساط کہ وہ منی پور کی پولیس انتظامیہ سے پوچھ گچھ کرے۔ان کے پاس منی پور کی  دو خواتین اور منی پور ٹرائبل ایسوسی ایشن، جس کا ہیڈکوارٹر بیرون ملک ہے، نے 12 جون کو ہی آن لائن خط لکھ کر ان ساری وارداتوں  کی جانکاری  دےدی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ کمیشن خواتین کے وقار، آئینی اور انسانی حقوق کا محافظ ہے۔ اس لیے فریاد بھی کی گئی تھی کہ  وہ ان تمام واقعات کا از خود نوٹس لیتے ہوئے کارروائی کرے اور اگر ممکن ہو تو ایک انکوائری بھی بٹھائے۔ لیکن انہیں  کمیشن کی طرف سے اس میل کی رسید تک نہیں ملی ۔

لیکن جیسے ہی ویڈیو منظر عام پر آیا کمیشن کی چیئرپرسن ٹوئٹ کرنے سے خود کو روک نہیں پائیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میل دیکھ کر وہ اپنے نمائندوں کو موقع پر بھیج کر معاملے کی تحقیقات کرواتیں۔ اگر ٹوئٹ  سےتشدد پر قابو پایا جاسکتا تو مرکزی حکومت وہاں بڑی تعداد میں مرکزی فورسزکو نہ بھیجتی۔ یہ کہنا ضروری ہے کہ کمیشن کی چیئرپرسن ریکھا شرما نے وہاں کے لوگوں کا اعتماد جیتنے اور انہیں قیام امن کی بحالی میں شامل کرنے کا ایک اچھا موقع گنوا دیا۔

دہلی وومین کمیشن کی چیئرپرسن سواتی مالیوال نے وہاں جانے کا اعلان کیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ مرکز اور بی جے پی کے ساتھ ان کے تعلقات کو دیکھتے ہوئے وزیر اعلیٰ اور مرکز کی رضامندی کے بغیرکیا وہ  وہاں کام کر پائیں گی؟

اب ذرا میڈیا کی طرف آتے ہیں۔ منی پور کے زیادہ تر بڑے اخبار اور ٹی وی چینلز میتیئی برادری سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ کُکی تشدد کے بارے میں زیادہ خبریں نہیں دے رہے ۔ سنگائی ایکسپریس اخبار نے تو انہیں ‘ایلین’ تک بتا دیا ہے۔ لیکن ملک بھر کے میڈیا کو بھی وہاں ہونے والے منظم جنسی تشدد کی جانکاری اس ویڈیو سے ہی  ملی۔ کیوں؟

دہلی کے ٹی وی چینلوں کی بات نہیں کرتے، انہوں نے تو اس کے بارے میں جاننے کے بعد بھی اس پر زیادہ بات کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ ایسا کر کے انہوں نے بتا دیا ہے کہ انارکی انہیں قبول ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا توایک آدھ کو چھوڑ کر ہر چینل پر پاکستان سے آئی  سیما کی لو اسٹوری نہیں چل رہی ہوتی۔ لیکن بڑے انگریزی اخبار، جن کا شمال–مشرق میں نیٹ ورک بھی ہے، اس تشدد کا پتہ کیوں نہیں لگا پائے؟

جنسی تشدد پر پہلی تفصیلی رپورٹ دی پرنٹ  نے 12 جولائی کو دی۔ اس سے قبل نیوز کلک ایک  جون کو لکھ چکا تھا۔ ایسے میں میڈیا کو بھی اپنے اندر جھانک کر دیکھنا  ہوگا۔

اب ایک بار پھر نواکھلی کی طرف آتے ہیں۔ اگر منی پور میں واقعی امن قائم کرنا ہے تو وہاں کسی مہاتما گاندھی کو جانا ہو گا۔ وہ اپنی پوری ٹیم کے ساتھ وہاں گئے تھے۔ تین مہینے وہاں رہے اور ننگے پاؤں پھرے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں کی پوری زمین یہاں کے لوگوں کے لیے شمشان بن گئی ہے۔ اس پر چپل پہن کر چلنا ان کی توہین ہو گی۔ میں ایسا نہیں کر سکتا۔ وہ حملہ آور مسلمانوں کے گھروں میں ٹھہرے ۔ انہیں ہندوؤں کے گھروں کو دوبارہ آباد کرنے کی تحریک دی۔ دونوں قوموں کے درمیان پھیلی ہوئی بداعتمادی اور نفرت کو دور کرکے انہیں گلے ملوایا۔ امن کمیٹیاں اور ریلیف کمیٹیاں قائم کی۔ جب سب بحال ہوگیا ، اس کے بعد ہی وہاں سے آئے۔

ہندوستان کی تاریخ میں نواکھلی کا تشدد اور گاندھی کا وہاں رہ کر قیام امن کے لیے کردار ادا کرنا دونوں ہی قابل ذکر ہیں۔ ہمیں اپنے ماضی سے سبق لینا چاہیے۔ منی پور کا کُکی آج اتنا ہی خوفزدہ ہے جتنا نواکھلی کا ہندو تھا۔ لیکن کیا مودی جی کے پاس کوئی گاندھی ہے؟

اور اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کیا وہ مرکزی اور ریاستی حکومت کی سرپرستی میں ہونے والے نسلی تشدد کو واقعی روکنا چاہتے ہیں۔ یہ اس بات سے طے ہوگا کہ اکثریتی تشدد کا ان کامقصد پورا ہوگیا ہے یا نہیں۔ ہاں سپریم کورٹ، جیسا کہ چیف جسٹس نے کہا ہے ،  مداخلت کرے تو الگ بات ہے۔ یا پھر  صدر کُکی خواتین کے دردوغم سے پگھل کر کچھ ہدایات جاری کردیں۔

(نیلم گپتا سینئر صحافی  ہیں اور گجرات ودیا پیٹھ، احمد آبادکی سابق ایڈجنکٹ پروفیسر ہیں۔)