سری نگر کے گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول کےسینئر لیکچرار ظہور احمد بھٹ ایک وکیل بھی ہیں۔ گزشتہ 23 اگست کو وہ آرٹیکل 370 کو کمزور کرنے کے مرکز کے فیصلے پر سپریم کورٹ میں جاری معاملے میں درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہوئے تھے۔ ایک سرکاری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ان کے طرز عمل کی انکوائری زیر التوا ہے، انہیں فوری اثر سے معطل کر دیا گیا ہے۔
نئی دہلی: جموں و کشمیر کے محکمہ تعلیم نے آرٹیکل 370 کو کمزور کرنے کے مرکزی حکومت کے فیصلے پر سپریم کورٹ میں جاری کیس میں پیش ہونے کے لیے سری نگر کے ایک ٹیچر (سینئر لیکچرار) کو ان کی ملازمت سے معطل کر دیا ہے۔
دی انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، ظہور احمد بھٹ جو ایک وکیل بھی ہیں، بدھ (23 اگست) کو اس کیس میں درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہوئے تھے۔ حکومت کے پرنسپل سکریٹری (اسکول ایجوکیشن) آلوک کمار کے ذریعے جمعہ (25 اگست) کو جاری کردہ ایک حکم نامے میں بھٹ کو ‘قصوروار ‘ قرار دیا گیا ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے، ’سرینگر کے جواہر نگر کے گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول میں سیاسیات کے سینئر لیکچرار ظہور احمد بھٹ کے طرز عمل کی انکوائری زیر التوا ہے۔ انہیں جموں و کشمیر سی ایس آر، جموں و کشمیر گورنمنٹ ایمپلائز (کنڈکٹ) رولز 1971 کے اہتماموں کی خلاف ورزی پر فوری اثر سے معطل کر دیا گیا ہے۔’
حکم کے مطابق، ‘معطلی کی مدت کے دوران قصوروار، ڈائریکٹر اسکول ایجوکیشن جموں کے دفتر سے منسلک رہے گا۔’
جموں میں سکول ایجوکیشن کے جوائنٹ ڈائریکٹر سباح مہتہ کو ظہور کے طرز عمل کی تحقیقات کے لیے انکوائری افسر مقرر کیا گیا ہے۔
دی ہندو کے مطابق، جب ظہور احمد بھٹ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تو انہوں نے کہا تھا، ‘میں جموں و کشمیر میں ہندوستانی سیاست پڑھاتا ہوں۔ 2019 سے اس خوبصورت آئین کے بارے میں پڑھانا میرے لیے بہت مشکل ہو گیا ہے۔ جب طلبا پوچھتے ہیں کہ کیا ہم 2019 کے بعد جمہوریت ہیں تو جواب دینا مشکل ہوتاہے۔ 4 اگست کو اس وقت کے گورنر ستیہ پال ملک کی طرف سے دی گئی یقین دہانی کے باوجود کہ دفعہ 370 کو منسوخ نہیں کیا جائے گا، آدھی رات کو کرفیو لگا دیا گیا اور سابق وزرائے اعلیٰ کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔’
انہوں نے کہا تھا کہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا گیا تھا اور سابقہ ریاست کو ‘ہندوستانی آئین کی اخلاقیات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے’ دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔
ظہور نے مزید کہا تھا، ‘یہ جمہوریت کے لوگوں کے حق کے خلاف تھا، کیونکہ جموں کشمیر اور لداخ کے لوگوں کی رضامندی کو مدنظر نہیں رکھا گیا تھا۔ یہ قدم تعاون پر مبنی وفاقیت اور آئین کی بالادستی کے خلاف تھا۔’
انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔
Categories: خبریں