وقف (ترمیمی) بل 2024 پر بنی جوائنٹ پارلیامانی کمیٹی میں شامل اپوزیشن پارٹی کے ارکان کا کہنا ہے کہ کئی ریاستی حکومتوں اور مختلف اسٹیک ہولڈرز نے ابھی تک کمیٹی کے سامنے اپنا موقف پیش نہیں کیا ہے، اس لیے مزید وقت دیا جانا چاہیے۔ کمیٹی کو سرمائی اجلاس میں ہی اپنی رپورٹ پیش کرنی تھی۔
نئی دہلی: وقف ترمیمی بل 2024 پر تشکیل دی گئی پارلیامنٹ کی جوائنٹ کمیٹی (جے پی سی) میں شامل اپوزیشن ارکان پارلیامنٹ نے سوموار (25 نومبر) کو لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا سے ملاقات کی اور اس کمیٹی کی مدت میں توسیع کی درخواست کی۔
انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق، اپوزیشن ارکان پارلیامنٹ کی جے پی سی کی مدت میں توسیع کی درخواست کے درمیان ذرائع نے اخبار کو بتایا کہ اس کمیٹی کے چیئرپرسن جگدمبیکا پال نے پہلے ہی 5 دسمبر تک رپورٹ پیش کرنے کا شیڈول تیار کر لیا ہے۔
وہیں، اپوزیشن ارکان نے سپیکر کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ کمیٹی کا پہلا اجلاس 22 اگست کو ہوا تھا اور اب تک صرف 25 اجلاس ہوئے ہیں۔ اس میں وہ ملاقاتیں بھی شامل ہیں جہاں مختلف ‘غیر متعلقہ’ تنظیموں اور افراد کی طرف سے خیالات پیش کیے گئے ہیں۔
اراکین نے لکھا کہ بہار، نئی دہلی اور اتر پردیش سمیت مختلف ریاستی حکومتوں نے ابھی تک کمیٹی کے سامنے اپنے خیالات پیش نہیں کیے ہیں اور مختلف اسٹیک ہولڈرز اب بھی اپنے خیالات پیش کرنے کے لیے وقت مانگ رہے ہیں۔
خط میں مزید کہا گیا ہے، ‘اس پر دھیان دیا جانا چاہیے کہ وقف ترمیمی بل ایک جامع قانون ہے، جس میں موجودہ قانون میں کئی بڑی تبدیلیاں شامل ہیں۔ یہ تبدیلیاں ہندوستان کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو متاثر کریں گی۔ اس لیے رپورٹ کو حتمی شکل دینے سے پہلے صرف تین ماہ کی مدت نہ صرف ناکافی ہے بلکہ اس کے نتیجے میں نامناسب سفارشات بھی ہو سکتی ہیں۔ مناسب مشاورت اور غور و خوض کے لیے کمیٹی کی مدت میں توسیع کی جانی چاہیے۔’
اپوزیشن ارکان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر عوام کو اظہار خیال کا مناسب موقع فراہم کیے بغیر بلوں پر بحث کی جاتی ہے تو اس سے قانون سازی کے عمل کی قانونی حیثیت متاثر ہوگی اور بدقسمتی سے اس سے پارلیامنٹ کے وقار پر برا اثر پڑے گا۔
معلوم ہو کہ مرکزی حکومت نے 8 اگست کو لوک سبھا میں وقف (ترمیمی) بل 2024 پیش کیا تھا۔ پیش کیا تھا ۔ تاہم، اپوزیشن ارکان پارلیامنٹ کی مخالفت کے باعث اس بل کو مشترکہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا۔ اس کمیٹی کا پہلا اجلاس 22 اگست کو ہوا تھا۔ اس کمیٹی کو پارلیامنٹ کے سرمائی اجلاس کے پہلے ہفتے کے آخر تک اپنی رپورٹ پیش کرنی تھی۔
پارلیامنٹ کا سرمائی اجلاس سوموار 25 نومبر سے شروع ہوگیا ہے جو 20 دسمبر تک جاری رہے گا۔
واضح ہو کہ اس 31 رکنی جوائنٹ پارلیامانی کمیٹی میں 13 ارکان اپوزیشن جماعتوں کے ہیں جن میں نو لوک سبھا اور چار راجیہ سبھا ممبران پارلیامنٹ شامل ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ اس بل میں وقف ٹریبونل کے بجائے تنازعات کے حل کے لیے ضلع کلکٹر کو اختیار دینے اور وقف بورڈ میں غیر مسلموں کو شامل کرنے جیسی دفعات شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وقف ایکٹ 1995 میں کچھ اور بنیادی تبدیلیاں بھی تجویز کی گئی ہیں جن پر اپوزیشن کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے۔
جن ارکان پارلیامنٹ نے اسپیکر کو لکھے اس خط پر دستخط کیے ہیں ان میں اے آئی ایم آئی ایم کے اسد الدین اویسی، ڈی ایم کے کے اے راجہ، سماج وادی پارٹی کے محب اللہ اور کانگریس کے محمد جاوید کے نام شامل ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ذرائع نے اخبار کو بتایا کہ وقف کمیٹی کے چیئرمین نے اپوزیشن ارکان کو سوالات اٹھانے، وضاحت طلب کرنے اور ترمیم کرنے کے لیے کافی وقت دینے کے بعد 5 دسمبر تک رپورٹ پیش کرنے کا شیڈول پہلے ہی تیار کر لیا ہے۔
غورطلب ہے کہ بی جے پی اس متنازعہ بل کو موجودہ پارلیامنٹ اجلاس میں ہی آگے بڑھانے کی خواہشمند ہے۔ تاہم، پارٹی کے ایک سینئر رہنما نے اخبار کو بتایا کہ اگر اسپیکر اپوزیشن کو مزید وقت دینا چاہتے ہیں تو وہ دے سکتے ہیں۔
بی جے پی لیڈروں کے مطابق اپوزیشن کے مطالبے کے مطابق پینل کی میعاد تین ماہ کے بجائے مزید کچھ دن تک بڑھائی جا سکتی ہے۔
خیال رہے کہ حال ہی میں سنیچر (23 نومبر) کو پارٹی ہیڈکوارٹر میں تقریر کرتے ہوئے پی ایم مودی نے کانگریس پر ‘اپیزمنٹ کی سیاست’ کا الزام لگایا تھا اور کہا تھا کہ پارٹی نے وقف بورڈ کے حوالے سے ایک قانون بنایا، جس کا آئین میں کوئی حق نہیں ہے۔
تاہم اپوزیشن وقف (ترمیمی) بل کو لے کر حکومت کو مسلسل نشانہ بنا رہی ہے۔ اس سے قبل اس معاملے پر تشکیل دی گئی پارلیامنٹ کی مشترکہ کمیٹی کے کچھ اپوزیشن اراکین نے کمیٹی کے چیئرمین اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما جگدمبیکا پال پر ‘من مانے طریقے سے کارروائی میں خلل ڈالنے’ کا الزام لگایا تھا۔ اس سلسلے میں لوک سبھا اسپیکر اوم برلا کو ایک خط بھی لکھا گیا تھا۔
حزب اختلاف کے ارکان پارلیامنٹ نے اپنے خط میں یہ بھی کہا تھا کہ اگر کمیٹی میں ان کے خیالات کو نظر انداز کیا گیا اور انہیں اپنے خیالات پیش کرنے کا مناسب موقع نہیں دیا گیا تو وہ کمیٹی سے اپنے نام واپس لینے پر مجبور ہو ں گے۔
Categories: خبریں