ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے راجستھان سرکار سے اس بل کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
نئی دہلی :یں آج سزا کے عمل میں ترمیمی بل پیش کرنے پر برسرا قتدار پارٹی اور اپوزیشن کے درمیان تیکھی تکرار اور اپوزیشن کے بائیکاٹ کے بعدایوان کی کارروائی کل صبح 11 بجے تک ملتوی کر دی گئی۔
واضح ہو کہ راجستھان حکومت پچھلے مہینے سزا کے عمل میں ترمیم شدہ بل لے کر آئی تھی ۔جس کی پرزور مخالفت سماجی اور سیاسی شعبوں میں جاری ہے۔آج صبح ایوان کی کارروائی شروع ہوتے ہی اسپیکر کیلاش میگھوال چیئر پر آئے اور سیکرٹری کو اطلاعات پڑھنے کی ہدایت دی۔ تب کانگریس کے رمیش مینا نے سزا کے عمل میں ترمیمی بل کو کالا قانون قرار دینے کا الزام لگایا کہ یہ آناً فاناً میں لایا جا رہا ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت شفافیت نہیں چاہتی۔ شور شرابےکے دوران ہی مسٹر کٹاریا نےاس متنازعہ بل کو پیش کیا۔ کانگریس کے ارکان کے علاوہ بی جے پی کے گھنشیام تیواری اور آزاد امیدوار مانك چند سرانا نے زور دار احتجاج کیا۔اپوزیشن کے ڈپٹی لیڈر گووند سنگھ ڈوٹاسرا نے کہا کہ حکومت آرڈیننس لانے کی منشا بتائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بل ذرائع ابلاغ کی آواز کودبانے کیلئےلا جا رہا ہے۔
اسی بیچ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر ایم پی گھنشیام تیواری نے اپنی پارٹی کی سرکار کی جانب سے پبلک سرونٹ کے خلاف مقدمے کے لیے سرکارکی منظوری کے لیے لائے گئے بل کی مخالفت کرتے ہوئے اس پر دوبارہ غور کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔انہوں نے سرکار کو ایک خط لکھ کر کہا ہے کہ اگر بل لایا گیا تو جس طرح میں نے ایمرجنسی کی مخالفت کی تھی اسی طرح راجستھان میں جمہوریت کا گلا گھونٹنے والے اس بل کی بھی مخالفت کروں گا۔دوسری طرف د ی ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے راجستھان سرکار سے اس بل کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے، جو پبلک سرونٹ ،ججوں اور مجسٹریٹ کے خلاف الزامات پر اس کی منظوری کے بغیر رپورٹنگ سے میڈیا کو روکتا ہے۔
انڈین ایکسپریس کی ایک خبر کے مطابق قانون دانوں نے بھی اس بل پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اظہار رائے اور میڈیاکی آزادی پر قد غن لگانے کی کوشش ہے۔سابق وزیر قانون اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل شانتی بھوشن نے کہا ہے کہ اس بل کو جلد از جلد خارج کیا جانا چاہیے ۔قانون داں اور سابق اٹرنی جنرل سولی سہراب جی نے اس بل کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔لا کمیشن آف انڈیا کے سربراہ اور دلی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اے پی شاہ نے اس بل کو سپریم کورٹ کی گائیڈ لائن کے خلاف بتایا ہے۔
ویڈیو: راجستھان آرڈی ننس پر سینئر صحافی ارمیلیش کا تبصرہ
دریں اثنا کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی نے آج اس آرڈی ننس کے لئے راجستھان کی وسندھرا راجے حکومت پر سخت نکتہ چینی کی جس میں صحافیوں اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد کے خلاف قانونی کارروائی اور سزا کی بات کہی گئی ہے، جو بدعنوانی میں ملوث سرکاری ملازمین کے نام شائع کریں گے۔آرڈی ننس کے مطابق جو بھی شخص منظوری دیے جانے سے قبل ججوں ، مجسٹریٹ اور سرکاری ملازمین وغیرہ کے نام تصاویر اور دیگر تفصیلات کے چھاپنے، شائع کرنے یا منظر عام پر لانے پر عائد پابندیوں کی خلاف ورزی کرتا ہوا پایا گیا اسے دو سال کی قید اور جرمانہ ہوگا۔مسٹر گاندھی نے ٹوئٹر پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ’’وزیراعلی سے ہم دست بستہ یہ عرض کرتے ہیں کہ ہم اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں۔ یہ 2017 ہے، 1817 نہیں۔‘‘مسٹر گاندھی نے اپنے ٹوئٹر پر ریاستی حکومت کے آرڈی ننس سے متعلق ایک رپورٹ بھی ڈالی ہے۔
سینئر صحافی رویش کمار نے اس سلسلے میں فیس بک پر لکھا ہے کہ بل یا قانون کا کیا مطلب ہے کہ جب تک ایف آئی آر نہیں ہوگی تب تک پریس میں رپورٹ نہیں کر سکتے ہیں اور ایسے کسی معاملے میں نام لیا تو دو سال کی سزا ہو سکتی ہے۔ ایک شہری کے طور پر آپ سوچیے، اس کے بعد آپ کا کیا کردار رہ جاتا ہے؟انکے مطابق یہ پریس سے زیادہ شہریوں کے حقوق پر حملہ ہے۔ پریس تو اپنی آزادی گنواکر ایڈجسٹ ہو ہی چکا ہے۔ مالکان اور مدیر کی موج ہے۔ عوام ماری جا رہی ہے۔ وہ کراہ رہی ہے مگر میڈیا میں آواز نہیں ہے۔انہوں نے مزید لکھا ہے کہ یہی بل اگر حزب اختلاف کی کوئی حکومت لاتی تب بھکت لوگ کیا کہتے، تب بی جے پی کے ہی ترجمان کس طرح کے بیان دے رہے ہوتے؟
رویش آگے لکھتے ہیں اگر اسی طرح سے اپنی آزادی گنواتے رہنی ہے تو میں آپ کے بھلے کے لئے ایک تدبیر بتاتا ہوں۔ آپ اخبار خریدنا اور چینل دیکھنا بند کر دیجئے۔ میں سات سال سے چینل نہیں دیکھتا۔ بالکل نہ کے برابر دیکھتا ہوں۔ ایسا کرنے سے آپ مہینے کے ہزار روپیے بچت کریںگے۔میڈیا کا بڑا حصہ کباڑ ہو چکا ہے، برائے مہربانی آپ اپنی خاموشی کا کچرا ڈالکر اس کباڑ کو پہاڑ میں مت بدلئیے۔
(خبر رساں ایجنسی یواین آئی اردو اوربھاشا کے ان پٹ کے ساتھ۔)