کرناٹک الیکشن کے وقت وہاں کے میڈیا میں ریاست کی حزب اقتدار اور مرکز ی حزب اقتدار کے درمیان کیسا توازن ہے، اس کا تجزیہ روز ہونا چاہئے تھا۔ الیکشن کمیشن کب سیکھےگا کہ میڈیا کوریج اور بیانات پر کارروائی کرنے اور نظر رکھنے کا کام الیکشن کے دوران ہونا چاہئے نہ کہ الیکشن ختم ہو جانے کے تین سال بعد۔
کوئی بھی الیکشن ہو، ٹی وی کا کوریج اپنے کردار میں سطحی ہی ہوگا۔ اس کی فطرت ہی ہے رہنماؤں کے پیچھے بھاگنا۔ چینل اب اپنی طرف سے فیکٹس کی جانچ نہیں کرتے، اس کی جگہ ڈیبیٹ کے نام پر دو ترجمان کو بلاتے ہیں اور جس کو جو بولنا ہوتا ہے بولنے دیتے ہیں۔ توازن کے نام پر نیوز غائب ہو جاتی ہے۔ نہ تو کوئی چینل خود سے راہل گاندھی یا ان کی ریاستی حکومت کے دیے گئے فیکٹس کی جانچ کرتا ہے اور نہ ہی کوئی خود سے وزیر اعظم یا ان کی پارٹی کے اشتہاروں میں دیے گئے فیکٹ کی جانچ کرتا ہے۔ چینل صرف پلیٹ فارم بنکر رہ گئے ہیں۔ پیسہ دو اور استعمال کرو۔
گزشتہ کئی سال سے چلا آ رہا یہ فارمیٹ اب اپنی انتہا پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹی وی کے ذریعے الیکشن کو مینج کرنا آسان ہے۔ رپورٹرصرف بیانوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ بھاگنے والے رپورٹر بھی نہیں ہیں۔ کوئی لڈو کی فوٹو ٹوئٹ کر رہا ہے تو کوئی مچھلی اچار کی۔ اینکر تقریروں کو ہی لےکر کرکٹ کی طرح کمینٹری کر رہے ہیں، مودی آ گئے اور اب وہ دیںگے چھکا۔ عوام ٹی وی کو نہ سمجھ پانے کی وجہ سے ا س کے خطرے کو سمجھ نہیں رہے ہیں۔ ان کو ابھی بھی لگتا ہے کہ نیوز چینلوں میں سب کے لئے برابر کا اسپیس ہے۔ مگر آپ خود دیکھ لیجئے کہ کیسے الیکشن آتے ہی چینلوں کی چال بدل جاتی ہے۔ پہلے بھی ویسی رہتی ہے مگر الیکشن کے وقت خطرناک ہو جاتی ہے۔
کرناٹک الیکشن کے وقت وہاں کے چینلوں اور اخباروں میں ریاست کے حزب اقتدار اور مرکز کے حزب اقتدار کے درمیان کیسا توازن ہے، اس کا تجزیہ تو روز ہونا چاہئے تھا۔ کنڑ چینلوں میں کس پارٹی کے اشتہارات زیادہ ہیں، کس پارٹی کے کم ہیں، دونوں میں کتنا فرق ہے، یہ سب کوئی بعد میں پڑھکر کیا کرےگا، اس کو تو الیکشن کے ساتھ ہی کیا جانا چاہئے۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ کنڑ چینلوں میں بی جے پی کے کتنے اشتہارات چل رہے ہیں اور کانگریس کے کتنے؟ کس کی ریلیاں دن میں کتنی بار دکھائی جا رہی ہیں؟ کیا وزیر اعظم مودی، کانگریس رہنما راہل گاندھی کی ریلی، سدھارمیا کی ریلی، یدورپا کی ریلی کے کوریج میں کوئی توازن ہے؟
اب یہ کھیل بہت تیاری سے کھیلا جانے لگا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ کس رہنما کے بیان کو لےکر ڈیبیٹ ہو رہا ہے، ڈیبیٹ کس اینگل سے کئے جا رہے ہیں، اس کی طرف سے چینلوں میں بیٹنگ ہو رہی ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ کسی نے بھی الیکشن کے دوران ان باتوں کا مطالعہ کرکے روز عوام کے سامنے رکھنے کی کوشش نہیں کی۔ الیکشن ریلیاں اب ٹی وی کے لئے ہوتی ہیں۔ ٹی وی پر آنے کے لئے پارٹیاں طرح طرح کے پروگرام خود بنا رہی ہیں۔
اس طرح سے ایڈ ی ٹیڈ بناتی ہیں جیسے ان کے پاس پورا کا پورا چینل ہی ہو یا پھر وہ ایڈٹ کر کے یو ٹیوب یا چینلوں پر ڈالتی ہیں جس سے لگتا ہے کہ سب کچھ لائیو چل رہا ہے۔ ان پروگراموں کو سمجھنے، ان پر لکھنے کے لئے نہ تو کسی کے پاس ٹیم ہے نہ ہی صلاحیت۔ جمہوریت میں اور خاص کر الیکشن میں اگر تمام جماعتوں کو برابری سے اسپیس نہیں ملا، رقم کے دم پر کسی ایک کا ہی پلڑا بھاری رہا تو یہ اچھا نہیں ہے۔
بہت آسانی سے میڈیا کسی کے بیان کو غائب کر دے رہا ہے، کسی کے بیان کو ابھار رہا ہے۔ ان سب پر سیاسی جماعتوں کو بھی فوراً کمنٹری کرنی چاہئے اور میڈیا پر نظر رکھنے والے گروہوں پر بھی۔ یدورپا جی نے کہا ہے کہ اگر کوئی ووٹ نہ دینے جا رہا ہو تو اس کے ہاتھ پاؤں باندھ دو اور بی جے پی کے امیدوار کے حق میں ووٹ ڈلواؤ۔ ہمارا الیکشن کمیشن بھی سست ہو گیا ہے۔ وہ الیکشن میں پیراملٹری فورسز اتار کر ملیشیا چھٹی منانے چلا جاتا ہے کیا۔ وہ کب سیکھےگا کہ میڈیا کوریج اور ایسے بیانوں پر کارروائی کرنے اور نظر رکھنے کا کام الیکشن کے دوران ہی ہونا چاہئے نہ کہ الیکشن ختم ہو جانے کے تین سال بعد۔
(رویش کمار کا یہ تبصرہ فیس بک پیج سے لیا گیا ہے)
Categories: فکر و نظر