ایمرجنسی کوئی ناگہانی واقعہ نہیں بلکہ اقتدار کی بےانتہا مرکزیت، جابرانہ رویہ ، شخصیت پرستی اور چاپلوسی کے بڑھتے رجحان کا ہی نتیجہ تھا۔ آج پھر ویسا ہی نظارہ دکھ رہا ہے۔ سارے اہم فیصلے پارلیامانی کمیٹی تو کیا، مرکزی کابینہ کاؤنسل کی بھی عام رائے سے نہیں کئے جاتے، صرف اور صرف پی ایم او اور وزیر اعظم کی چلتی ہے۔
ہرسال کی طرح اس بار بھی 25 جون کو ایمرجنسی کی برسی منائی گئی۔ جمہوریت کے تحفظ کی قسمیں کھاتے ہوئے اس موقع پر 43 برس پرانے اس سیاہ اور شرمناک باب، ایک برا خواب یعنی اس منحوس وقت کو یاد کیا گیا، جب اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اپنے اقتدار کی سلامتی کے لئے ایمرجنسی نافذ کر پورے ملک کو قید خانے میں تبدیل کر دیا تھا۔حزب مخالف پارٹیوں کے تمام رہنما اور کارکن جیلوں میں ٹھونس دئے گئے تھے۔ سینسرشپ نافذ کر اخباروں کی آزادی کا گلا گھونٹ دیا گیا تھا۔ پارلیامنٹ ، عدلیہ، مجلس عاملہ وغیرہ تمام آئینی ادارے اندرا گاندھی کے باورچی خانہ میں تبدیل ہو چکے تھے، جس میں وہی پکتا تھا جو وہ اور ان کے بیٹے سنجے گاندھی چاہتے تھے۔
حکومت کے وزرا سمیت حکمراں جماعت کے تمام رہنماؤں کی حیثیت ماں بیٹے کے اردلیوں سے زیادہ نہیں رہ گئی تھی۔ آخرکار پورے 21 مہینے بعد جب انتخاب ہوئے تو عوام نے اپنے حق رائے دہی کے ذریعے تاناشاہی کے خلاف پرامن طریقے سے تاریخی بغاوت کی اور ملک کو ایمرجنسی کی بددعا سے آزادی ملی۔ بلاشبہ ایمرجنسی کی یاد ہمیشہ بنی رہنی چاہیے لیکن ایمرجنسی کو یاد رکھنا ہی کافی نہیں ہے۔ اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ اس بات کو لے کر محتاط رہا جائے کہ کوئی بھی حکومت ایمرجنسی کو کسی بھی شکل میں دوہرانے کی جرأت نہ کر پائے۔
سوال ہے کہ کیا ایمرجنسی کو دوہرانے کا خطرہ ابھی بھی بنا ہوا ہے اور ہندوستانی عوام اس خطرہ کے بارے میں باخبر ہے؟ تین سال پہلے ایمرجنسی کے چار دہائی پورے ہونے کے موقع پر اس پورے دور کو شدت سے یاد کرتے ہوئے بی جے پی کے سینئر رہنما اور ملک کے سابق نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی نے ملک میں پھر سے ایمرجنسی جیسے حالات پیدا ہونے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ حالانکہ اڈوانی اس سے پہلے بھی کئی مواقع پر ایمرجنسی کو لےکر اپنے خیال کا اظہار کرتے رہے تھے، مگر یہ پہلا موقع تھا جب ان کے خیالات سے ایمرجنسی کی مجرم کانگریس نہیں، بلکہ ان کی اپنی پارٹی بی جے پی اپنے کو حیران و پریشان محسوس کرتے ہوئے بغلیں جھانک رہی تھی۔
وہ بی جے پی جو کہ ایمرجنسی کو یاد کرنے اور اس کی یاد دلانے میں ہمیشہ آگے رہتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ایمرجنسی کے دوران معافی نامے لکھکر جیل سے چھوٹنے والوں میں سب سے زیادہ رہنما اور کارکن جن سنگھ (اب بی جے پی) اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ہی تھے۔ اڈوانی نے ایک انگریزی اخبار کو دئے انٹرویو میں ملک کو آگاہ کیا تھا کہ جمہوریت کو کچلنے میں اہل طاقتیں آج پہلے سے زیادہ طاقت ور ہے اور پورے اعتماد کے ساتھ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایمرجنسی جیسا واقعہ پھر دوہرایا نہیں جا سکتا۔
بقول اڈوانی، ‘ ہندوستان کا سیاسی نظام ابھی بھی ایمرجنسی کے سانحہ کے معنی پوری طرح سے سمجھ نہیں سکا ہے اور میں اس بات کے امکان سے انکار نہیں کرتا کہ مستقبل میں بھی اسی طرح سے ہنگامی صورتحال پیدا کر عوام کے حقوق کی پامالی کی جا سکتی ہے۔ آج میڈیا پہلے سے زیادہ محتاط ہے، لیکن کیا وہ جمہوریت کے تئیں پرعزم بھی ہے؟ کہا نہیں جا سکتا۔ سول سوسائٹی نے بھی جو امیدیں جگائی تھیں، ان کو وہ پوری نہیں کر سکی ہیں۔ جمہوریت کو ٹھیک طرح سے چلانے میں جن اداروں کا رول ہوتا ہے، آج ہندوستان میں ان میں سے صرف عدلیہ کو ہی دوسرے اداروں سے زیادہ ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ ‘
اڈوانی کا یہ بیان حالانکہ تین سال پرانا ہے لیکن اس کی اہمیت کہیں زیادہ آج محسوس ہو رہی ہے۔ حالانکہ اڈوانی نے اپنے اس پورے بیان میں ایمرجنسی کے خطرہ کے سیاق میں کسی پارٹی یا خاص آدمی کا نام نہیں لیا تھا مگر چونکہ اس وقت مرکز کے ساتھ ہی ملک کی زیادہ تر اہم ریاستوں میں بی جے پی یا اس کے اتحاد کی حکومتیں ہیں اور نریندر مودی اقتدار کے مرکز میں ہیں، لہذا ظاہر ہے کہ اڈوانی کے تبصرے کا بالواسطہ اشارہ مودی کی طرف ہی تھا۔
جدید ہندوستان کی سیاسی ترقی کے سفر میں طویل اور فعال کردار نبھا چکے ایک تجربےکار سیاست داں کے طور پر اڈوانی کے اس خدشہ کو اگر ہم اپنے سیاسی اور آئینی اداروں کی موجودہ شکل اور اس کو چلانے سے متعلق وسیع تناظر میں دیکھیں تو ہم پاتے ہیں کہ آج ملک ایمرجنسی سے بھی کہیں زیادہ برے دور سے گزر رہا ہے۔ اندرا گاندھی نے تو آئینی اہتماموں کا سہارا لےکر ملک پر ایمرجنسی تھوپی تھی، لیکن آج تو رسمی طور ایمرجنسی نافذ کئے بغیر ہی وہ سب کچھ بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ ہو رہا ہے جو ایمرجنسی کے دوران ہوا تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایمرجنسی کے دوران سب کچھ نظم وضبط کے نام پر ہوا تھا اور آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ ترقی اور راشٹر واد کے نام پر۔
جہاں تک سیاسی پارٹیوں کا سوال ہے، ملک میں اس وقت صحیح معنوں میں دو ہی آل انڈیا پارٹیاں ہیں؛ کانگریس اور بی جے پی۔ کانگریس کے کھاتے میں تو ایمرجنسی نافذ کرنے کا گناہ پہلے سے ہی درج ہے، جس کا اس کو آج بھی کوئی افسوس نہیں ہے۔ یہی نہیں، اس کی اندرونی سیاست میں آج بھی جمہوریت کو لے کر کوئی التجا دکھائی نہیں دیتی۔پوری پارٹی آج بھی ایک ہی فیملی کا طواف کرتی نظر آتی ہے۔ آزادی کے بعد لمبے عرصے تک ملک پر حکومت کرنے والی اس پارٹی کی آج حالت یہ ہے کہ اس کے پاس لوک سبھا میں سرکاری اپوزیشن کے درجے کی شرط پوری کرنے جتنے بھی ممبر نہیں ہیں۔ زیادہ تر ریاستوں میں بھی وہ نہ صرف اقتدار سے بےدخل ہو چکی ہے بلکہ اہم اپوزیشن کی حیثیت بھی کھو چکی ہے۔
دوسری طرف مرکز سمیت ملک کی تقریباً آدھی ریاستوں میں حکمراں بی جے پی کے اندر بھی حال کے سالوں میں ایسے رجحانات مضبوط ہوئے ہیں، جن کا جمہوری اقدار اور کسوٹیوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ حکومت اور پارٹی میں ساری طاقتیں ایک گروہ کی بھی نہیں بلکہ ایک ہی آدمی کے ارد گرد سمٹی ہوئی ہیں۔ ایمرجنسی کے دور میں اس وقت کے کانگریس صدر دیوکانت بروآنے چاپلوسی اور سیاسی بےحیائی کی ساری حدیں لانگھتے ہوئے ‘ اندرا از انڈیا-انڈیا از اندرا ‘ کا نعرہ پیش کیا تھا۔
آج بی جے پی میں تو امت شاہ، روی شنکر پرساد، شیوراج سنگھ چوہان، دیویندر فڈنویس وغیرہ سے لےکر نیچے کی سطح تک ایسے کئی رہنما ہیں جو نریندر مودی کو جب تب خدائی طاقت کا اوتار بتانے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے۔ ویسے اس سلسلے کی شروعات بطور مرکزی وزیر وینکیا نائیڈو نے کی تھی، جو اب نائب صدر بنائے جا چکے ہیں۔ مودی ملک اور بیرون ملک میں جہاں بھی جاتے ہیں، ان کے حامیوں کا جوشیلا گروپ مودی مودی کا شور مچاتا ہے اور کسی راک اسٹار کی طرح مودی اس پر خوش نظر آتے ہیں۔
لیکن بات نریندر مودی یا ان کی حکومت کی ہی نہیں ہے، بلکہ آزادی کے بعد ہندوستانی سیاست کا یہ بنیادی مسئلہ رہا ہے کہ وہ ہمیشہ سے شخصیت مرکوز رہی ہے۔ ہمارے یہاں اداروں، ان کی عقیدت اور خودمختاری کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی، جتنی اہمیت کرشمائی رہنماؤں کو دی جاتی ہے۔ نہرو سے لےکر نریندر مودی تک کی یہی کہانی ہے۔ اس سے نہ صرف نظام حکومت کے مختلف سامانوں ، جماعتی نظاموں، پارلیامنٹ ، انتظامیہ، پولیس، اور عدالتی اداروں کے اثرات کا تیزی سے زوال ہوا ہے بلکہ سیاسی مطلق العنانیت اور غیرضروری دخل اندازی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
یہ حالت صرف سیاسی پارٹیوں کی ہی نہیں ہے۔ آج ملک میں جمہوریت کے پہرےدار کہے جا سکنے والے ایسے ادارے بھی نظر نہیں آتے، جن کے جمہوری اقدار کو لےکر وابستگی شبہات سے پرے ہو۔ ایمرجنسی کے دوران جس طرح پرعزم عدلیہ کی وکالت کی جا رہی تھی، آج ویسی ہی آوازیں حکمراں جماعت سے نہیں بلکہ عدلیہ کی طرف سے بھی سنائی دے رہی ہیں ۔
یہی نہیں، کئی اہم معاملوں میں تو عدالتوں کے فیصلے بھی حکومت کی منشاء کے مطابق ہی رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ کے چار سینئرججوں نے تو بے مثال قدم اٹھاتے ہوئے عدلیہ کی اس صورت حال کو پریس کانفرنس کے ذریعے بھی بیان کیا تھا۔ انہوں نے صاف کہا تھا کہ ملک کے سپریم کورٹ میں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے اور ملک کی جمہوریت پر خطرہ منڈلا رہا ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا جیسے بڑے اور قابل اعتماد مالی ادارے کی نوٹ بندی کے بعد سے جو بربادی ہو رہی ہے، وہ جگ ظاہر ہے۔ حق اطلاعات کو غیرمؤثر بنانے کی کوشش زور شور سے جاری ہیں۔
انفارمیشن کمشنر اورChief Vigilance Commissioner جیسے عہدہ کافی وقت سے خالی پڑے ہیں۔ لوک پال قانون بنے تین سال سے زیادہ ہو چکے ہیں لیکن حکومت نے آج تک لوک پال تقرری کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی ہے۔ حال ہی میں کچھ اسمبلیوں اور مقامی بلدیاتی انتخابات کے دوران الیکٹرانک ووٹنگ مشین میں گڑبڑیوں کی سنگین شکایتں جس طرح سامنے آئی ہیں اس سے ہمارے الیکشن کمیشن اور ہمارے انتخابی نظام کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگے ہیں، جو کہ ہماری جمہوریت کے مستقبل کے لئے برا اشارہ ہے۔
نوکرشاہی کی عوام اور آئین کے تئیں کوئی جوابدہی نہیں رہ گئی ہے۔ کچھ استثنیٰ معاملوں کو چھوڑ دیں تو پوری نوکرشاہی حکمراں جماعت کی مشینری کی طرح کام کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ انتخاب کے ذریعے ملے عوام کے فیصلے کو دل بدل اور گورنروں کی مدد سے کیسے توڑا مروڑا جا رہا ہے، اس کی مثال گزشتہ دنوں ہم گووا اور منی پور میں دیکھ چکے ہیں۔ یہی نہیں، پارلیامنٹ اور قانون ساز مجلس کی برتری اور افادیت کو بھی ختم کرنے کی کوشش حکومتوں کی طرف سے جاری ہے۔ لوک سبھا صدر اور راجیہ سبھا کے صدر صرف پارلیامنٹ کے باہر ہی نہیں، بلکہ پارلیامنٹ کی کارروائی کے دوران بھی حکمراں جماعت کے رہنما کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔
گورنر جیسے آئینی عہدوں پر بیٹھے لوگ تو اور بھی زیادہ عجیب و غریب ہیں۔ وہ نہ صرف فرقہ وارانہ طور پر اشتعال انگیز بیان بازی کرتے ہیں بلکہ کئی مواقع پر غیر ضروری طور پر وزیر اعظم کے گن گان میں بھی جھجک نہیں محسوس کرتے۔ جس میڈیا کو ہمارے یہاں جمہوریت کے چوتھے ستون کی سی اہمیت دی گئی ہے، اس کی حالت بھی بےحد تشویش ناک ہے۔ آج کی صحافت ایمرجنسی کے بعد جیسی نہیں رہ گئی ہے۔ اس کی اہم وجہیں ہیں۔بڑے کارپوریٹ گھرانوں کا میڈیا شعبے میں داخل ہونا اور میڈیا ہاؤس میں زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی ہوڑ۔
اس منافع خوری کے رجحان نے ہی میڈیا ہاؤس کو تقریباً عوام مخالف اور حکومت کا پچھ لگو بنا دیا ہے۔ حکومت کی طرف سے میڈیا کو دو طرح سے سادھا جا رہا ہے۔ اس کے منھ میں اشتہار ٹھونسکر یا پھر سرکاری ایجنسیوں کے ذریعے اس کی گردن مروڑنے کا ڈر دکھاکر۔ اس سب کی وجہ سے سرکاری اور غیر سرکاری میڈیا کا فرق تقریباً ختم سا ہو گیا ہے۔
تجارتی وجہوں سے تو میڈیا کی جارحیت اور غیرجانبداری میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہی ہے، پیشہ ور اخلاقیات اور جمہوری اقدار اور شہری حقوق کے تئیں اس کی وابستگی بھی کم وبیش تباہ ہو چکی ہے۔ گزشتہ تین سالوں کے دوران ایک نیا اور خطرناک رجحان وجود میں آیا ہے ، وہ ہے حکومت اور حکمراں جماعت اور میڈیا کے ذریعے فوج کی بےحد ستائش۔ یہ صحیح ہے کہ ہمارے فوجی دستوں کو اکثر طرح طرح کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور ان کی عزّت ہونی چاہیے لیکن ان کو کسی بھی طرح کے سوالوں سے پرے مان لینا تو ایک طرح سے ملیٹرسٹ نیشنلزم کی سمت میں قدم بڑھانے جیسا ہے۔
ایمرجنسی کوئی ناگہانی واقعہ نہیں بلکہ اقتدار کی بےانتہا مرکزیت، جابرانہ رویہ ، شخصیت پرستی اور چاپلوسی کے بڑھتے رجحان کا ہی نتیجہ تھا۔ آج پھر ویسا ہی نظارہ دکھ رہا ہے۔ سارے اہم فیصلے پارلیامانی کمیٹی تو کیا، مرکزی کابینہ کاؤنسل کی بھی عام رائے سے نہیں کئے جاتے، صرف اور صرف پی ایم او اور وزیر اعظم کی چلتی ہے۔اس رجحان کی طرف اپوزیشن کے لیڈر اور غیر جانبدار سیاسی تجزیہ کار ہی نہیں، بلکہ حکمراں جماعت سے جڑے کچھ سینئر رہنما بھی وقتاًفوقتاً اشارہ کرتے رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں سابق مرکزی وزیر یشونت سنہا اور ارون شوری کے کئی بیانات کو یاد کیا جا سکتا ہے۔ یہ دونوں رہنما صاف طور پر کہہ چکے ہیں کہ موجودہ حکومت کو ڈھائی لوگ چلا رہے ہیں۔
ایمرجنسی کے دوران سنجے گاندھی اور ان کی چوکڑی کا رول حکومت کو چلانے میں غیر آئینی مداخلت کی مثال تھی، تو آج وہی رول راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نبھا رہا ہے۔ پارلیامنٹ کو غیر متعلقہ بنا دینے کی کوششیں جاری ہیں۔ عدلیہ کے احکام کی حکومتوں کی طرف سے کھلےعام خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ اختلاف کی آوازوں کو خاموش کرا دینے یا شور میں ڈبو دینے کی کوششیں صاف نظر آ رہی ہیں۔ ایمرجنسی کے دوران اور اس سے پہلے حکومت کی مخالفت میں بولنے والے کو امریکہ یا سی آئی اے کا ایجنٹ قرار دے دیا جاتا تھا تو اب حالت یہ ہے کہ حکومت سے عدم اتفاق رکھنے والے ہر شخص کو پاکستان پرست یا ملک مخالف قرار دے دیا جاتا ہے۔
ایمرجنسی میں اندرا گاندھی کے بیس نکاتی اور سنجے گاندھی کے پانچ نکاتی پروگراموں کا شور تھا تو آج ترقی اور ثقافتی راشٹرواد کے پردے میں ہندتووا ایجنڈے پر عمل کیا جا رہا ہے۔ اس ایجنڈے کے تحت دلتوں، آدیواسیوں اور اقلیتوں کا طرح طرح سے استحصال ہو رہا ہے۔ کل ملاکر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایمرجنسی کے بعد سے ابتک جمہوری نظام تو چلا آ رہا ہے، لیکن جمہوری اداروں، روایتوں اور اقداروں کی تیزی سے کمی ہو رہی ہے۔
البتہ ملک میں جمہوری شعور ضرور فروغ پا رہا ہے۔ عوام زیادہ بولڈ ہو رہی ہے اور وہ رہنماؤں سے زیادہ جوابدہی کی توقع بھی رکھتی ہے۔ لیکن یہ بھی دھیان رکھا جانا چاہیے کہ جمہوری اقدار اور شہری حقوق کا اغوا ہر بار باقاعدہ اعلان کرکے ہی کیا جائے، یہ ضروری نہیں۔ وہ جمہوری پردے اور قاعدے قانون کی آڑ میں بھی ہو سکتا ہے۔ موجودہ حکمراں طبقہ اسی سمت میں تیزی سے آگے بڑھتا دکھ رہا ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں۔ )
Categories: فکر و نظر