فکر و نظر

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ڈوگرہ راج کے پاسبان کون ہیں؟

مسلم آبادی کو مزید احساس محرومی کا شکار کروانے کے لیے اب یہ باورکرایا جا رہا ہے کہ ریاست کے نجات دہندہ ڈوگرہ حکمران تھے۔ کشمیر کے دونوں اطراف شعوری طورپر کوشش کی جارہی ہے کہ مہاراجہ گلاب سنگھ اوران کے جانشین راجوں کو تاریخ کا ہیرو بناکر پیش کیاجائے۔

gulab-singh-jammu-kashmir

مہاراجہ گلاب سنگھ/فوٹو : سوشل میڈیا

کشمیر میں ’’ڈوگرہ راج کی واپسی‘‘ کے عنوان سے میرا پچھلا کالم کئی لوگوں کو گراں گزرا ، جس میں یہ جتانے کی کوشش کی گئی تھی، کہ ادھمپور سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیامان اور مرکزی وزیر جتیندرر سنگھ کو وزیر اعلیٰ بنانے کی قواعد شروع ہوچکی ہیں۔تاکہ کشمیر میں مسلم اکثریتی آبادی کو مزید نیچا دکھاکر احساس کمتری میں مبتلا کرایا جائے۔ حیر ت ہے کہ شدید رد عمل اور لعن و طعن کے پیغامات کشمیر یا جموں سے نہیں بلکہ پاکستان، پاکستانی زیر انتظام کشمیر اور یورپ میں مقیم چند افراد کی طرف سے ای میلز اور سوشل میڈیا کے ذریعے موصول ہورہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ کشمیر کے وزرات اعلیٰ کے عہدہ پر آخر جموں کا ہندو ڈوگرہ کیوں فائز نہیں ہوسکتا ہے؟ اور میں ڈوگرہ حکمرانوں کو ولن کے روپ میں کیوں پیش کرتا ہوں؟ ان کے مطابق چونکہ جموں میں ہندو ، لداخ میں بد ھ اکثریت میں ہیں، اس لئے ان کو بھی اسی طرح حکمرانی کا حق حاصل ہے، جس طرح وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کو! یہ کشمیر کی تاریخ کے تئیں ناواقفیت اور کم علمی کی ایک انتہا ہے۔ ایک عرصے تک یہ دلیل وزارت داخلہ کے تیار کردہ ایک میمو میں ہوتی تھی، جس میں یہ جتانا مقصود ہوتا تھا کہ آزادی کی تحریک محض وادی کے چند اضلاع تک محدود ہے اور دیگر طبقے یعنی گوجر، بکروال، شیعہ وغیرہ کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

ہندوستانی حکومت بھی اب اس دلیل سے تائب ہوچکی ہے۔ فوجی افسران یعنی جنرل عطا حسنین اور جنرل دیپندر سنگھ ہودا، جو کشمیر میں ڈیوٹیاں دے چکے ہیں، اس تھیوری کو رد کرچکے ہیں۔ دو سال قبل آرمی کی طرف سے منعقد ایک سیمینار میں جب کسی مقرر نے یہ رٹ لگائی، تو جنرل ہودا نے کہا کہ یہ تھیوری مسئلہ کا حل ڈھونڈنے کے بجائے الجھائے رکھنے کےلئے ترتیب دی گئی تھی ۔ ان کا کہنا تھا کہ گوجر، بکروال نیز کرگل و گریز جیسے علاقوں میں اگر عوامی احتجاج یا پتھر بازی نہیں ہوتی ہے تو اس کی واحد وجہ ان علاقوں میں فوج کا بھاری جماؤ ہے اور ان کے مطابق ان علاقوں میں بھی انہوں نے مقامی آبادی میں وادی کشمیر کے ساتھ انسیت اور آزادی کے جذبات محسوس کئے ہیں۔

2011کی مردم شماری کے مطابق گریز تحصیل کی آبادی 31800تھی، جبکہ اس علاقہ میں تعینات فوج اورنیم فوجی تنظیموں کی تعداد 28000ہے۔ جنرل حسنین، جو اوڑی میں بریگیڈ کمانڈ کرچکے ہیں کا کہنا تھا کہ عسکریت پسندو ں کو گائیڈ وغیرہ تو گوجر، بکروال علاقوں سے ہی مہیا ہوتے ہیں۔خیر جب میں نے جاننے کی کوشش کی کہ پاکستان اور اس کے زیر انتظام کشمیر میں ڈوگرہ حکمرانوں کے یہ پاسبان کون ہیں تو معلوم ہوا کہ طبقہ اپنے آپ کو قوم پرست کہلاتا ہے۔ ایسی قوم پرستی ،جو کشمیریو ں کی نسل کشی اور استعمار کی حمایتی ہو، سے تو شہید مقبول بٹ بھی دہلی کی تہاڑ جیل کی قبر میں تلملا رہے ہونگے۔

کشمیر کے قد آور قوم پرست لیڈر شیخ عبداللہ کی سیاسی شناخت ہی ڈوگرہ راج کے خلاف جدو جہد سے عبارت ہے۔ کشمیری کاشتکاروں کو زمینوں کے مالکانہ حقوق دلانا اور ڈوگرہ حکومت کا خاتمہ کروانا ہی ان کے ایسے کارنامہ ہیں، جن کی وجہ سے ان کی پارٹی نیشنل کانفرنس کو کشمیری قوم نے سنگین لغزشوں کے باوجود زندہ رکھا ہوا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ خود ساختہ قوم پرستوں کا یہ طبقہ بغض میں کشمیر کا ایک نیا بیانیہ تیار کر رہا ہے۔ تاریخی واقعات کے ساتھ کھلواڑ ایک قبیح عمل ہے۔ یہ سچ ہے کہ ان کو مفاہمت کی راہ میں روڑے نہیں بننے دیا جانا چاہے مگر ان کو صرف نظر کرنا کسی بھی قوم کو زیب نہیں دیتا۔

ڈوگرہ حکومت میں جو کچھ کشمیرمیں عوام کے ساتھ بیتی ہے، برطانوی فوجی افسران جارج جونس وائٹکر ہے وارڈ، رابرٹ تھراپ، مشنریوں ٹنڈل بسکو، آرتھر برنکمین اور سروے افسر والٹر لارنس نے تفصیلاً تحریر کی ہیں۔اس کے علاوہ کشمیری لیڈروں کی سوانحوں شیخ عبداللہ کی آتش چنار، چودھری غلام عباس کی کشمکش،سید میر قاسم کی داستان حیات اور مرزا محمد افضل بیگ کی خاک ارجمند اس عہد میں کشمیریوں کی کسمپرسی کی داستانوں سے بھری پڑی ہیں۔ اکثر واقعات پر تو اب تاریخ کی دبیز تہہ جم چکی ہے۔

کچھ عرصہ قبل جب میں نے لکھا تھا کہ دنیا کی پہلی منظم ٹریڈ یونین تحریک کا سہرا و لایت میں نہیں بلکہ کشمیر کے سر جاتا ہے تو کئی اسکالروں تک کو حیرانی ہوئی۔ مئی 1886ء شکاگو کی ہئے مارکیٹ میں مزدوروں کے خلاف تشدد کے واقعہ سے21برس قبل 29 اپریل 1865 کو سرینگر کی سڑکیں بد نصیب شال بننے والے کاریگروں کے خون سے لالہ زار ہوگئی تھیں۔کمیونزم کے ساتھ رغبت رکھنے والے بزرگ صحافی پران ناتھ جلالی کو کمیونسٹ لیڈروں سے گلہ تھاکہ وہ بھی اس دن کو یاد کرنے سے کتراتے ہیں، شاید اس لیے کہ وہاں ظلم و جبر کا شکار ہونے والوں کی اکثریت مسلمانوں کی تھی۔

مسلم آبادی کو مزید احساس محرومی کا شکار کروانے کے لیے اب یہ باورکرایا جا رہا ہے کہ ریاست کے نجات دہندہ ڈوگرہ حکمران تھے۔ کشمیر کے دونوں اطراف شعوری طورپر کوشش کی جارہی ہے کہ مہاراجہ گلاب سنگھ اوران کے جانشین راجوں کو تاریخ کا ہیرو بناکر پیش کیاجائے۔ اس خطے کے ایک مقتدر لیڈر اور قلم کار کرشن دیو سیٹھی نے کچھ عرصہ قبل اس روش کے خلاف آوازاٹھائی تھی۔ یہ کوشش ڈاکٹرکرن سنگھ اور ان کے کاسہ لیس متواتر کرتے رہے ہیں تاکہ ان کے آباؤ اجداد کو ہیرو اور خود ان کو ان کا وارث قراردے کر اس خطہ میں جاگیر دارانہ نظریات کااحیانو کیا جائے۔

یہ بھی کوشش ہو رہی ہے کہ مہاراجہ گلاب سنگھ کے جنم دن (7 اکتوبر)کو بھی سرکاری تعطیل کرائی جائے۔ مہاراجہ رنبیر سنگھ کے بت نصب کرنے اور مہاراجہ ہری سنگھ کا جنم دن بھی منانے کی روش چل پڑی ہے۔سیٹھی صاحب کے بقول اس خاندان کے مہاراجوں میں سے صرف مہاراجہ پرتاپ سنگھ کو باقی رکھا گیا ہے۔ معلوم نہیں کن وجوہ کی بنا پر ان کو چھوڑ کر اس خاندان کے باقی سارے مہاراجوں کو ہیرو قرار دیا جارہا ہے۔ اور ماضی میں کشمیر کے مجاہد اول کہلانے والے مرحوم سردار عبدالقیوم بھی اس میں رنگ بھرنے میں پیش پیش رہے ہیں۔

سیٹھی صاحب کا کہنا ہے کہ راجہ گلاب سنگھ نے پہلے جموں کے عوام اور لاہورکے سکھ دربار سے بے وفائی کرکے جبر وتشدد کے ذریعے جموں و کشمیر کی ریاست میں اقتدار حاصل کیا اور ان کے لواحقین جانشین بن کر جاگیر دارانہ لوٹ کھسوٹ کرتے رہے۔ بھلا انہیں جموں کا ہیروکیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ جب مہاراجہ رنجیت سنگھ نے پیش قدمی کرکے جموں کو فتح کرنے کی کوشش کی تو جموں میں اس کی زبر دست مزاحمت ہوئی۔ جموں میں لاہور دربار کے خلاف زبر دست گوریلا لڑائی لڑی گئی، جس کی قیادت میاں ڈیڈو اوردوسرے کئی ڈوگرہ سرفروش کر رہے تھے۔

گلاب سنگھ نے ڈوگرہ سرفروشوں کو پیٹھ دکھ کر مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوج میں ملازمت اختیار کرکے ڈوگرہ مدافعتی جنگ سے دامن بچایا اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کا ایجنٹ بن کرمیاں ڈیڈو اوردوسرے کئی ڈوگرہ جیالوں کو قتل کیا۔ ڈوگرہ مدافعت کو کچلنے، مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سلطنت کو جموں میں وسعت دینے اورڈوگرہ سرفروشوں کو قتل کرنے کے عوض راجہ گلاب سنگھ کو جموں کی باج گزار ریاست عطا ہوئی۔ سکھ دربار کو خوش کرنے کے لئے میاں ڈیڈو کے علاوہ جسروٹہ، بلاور، بسوہلی،بھمبر، ٹکری،کرمچی،کشتواڑ، بھدرواہ، سراج، کوٹلی، راجوری، پونچھ ، میر پور اور دوسرے علاقوں کے راجگان کے سرقلم کیے گئے یا انہیں ملک بدرکیا گیا۔کھالوں میں بھوسہ بھر کردرختوں کے ساتھ لٹکایا گیا۔

لیکن مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد جب سکھ سلطنت کا زوال شروع ہوا اور انگریزوں نے پنجاب پر چڑھائی کی تو جموں کے یہ ہیرو لاہورکے دربار سے غداری کرکے انگریزوں سے مل گئے۔ اس خدمت خاص کے عوض اور 75 لاکھ روپے نانک شاہی کی رقم جو انگریزوں نے تاوان جنگ ڈالا تھا‘ کی ادائیگی کرکے ”بیع نامہ امرتسر‘‘ کے ذریعے کشمیر کا صوبہ راجہ گلاب سنگھ نے حاصل کیا۔ اس کے بعد جموں کے ”ہیروؤں‘‘ کے اس خانوادے نے جموں وکشمیر کے عوام کے ساتھ جو سلوک کیا وہ تاریخ میں رقم ہے۔ کرشن دیو سیٹھی کا کہنا ہے کہ جموں کے اصل ہیرو تو میاں ڈیڈو، کیسری سنگھ‘ پونچھ کے راجہ علی خان، سبز علی خان، شمس خان‘ بھمبرکے راجہ سلطان خان وغیرہ اَن گنت لوگ ہیں جنہوں اپنی آزادی کی حفاظت کے لئے جانیں قربان کردیں۔

اس کے علاوہ یہ قوم پرست جموں و کشمیر کی آبادیاتی ساخت کے بارے میں بھی غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ 2011 کی مرد م شماری کے مطابق لداخ میں بودھ 39فی صد اور مسلمان 46فی صد سے زیادہ ہیں۔ اس طرح یہ اعداد و شمار لداخ کے بودھ اکثریتی علاقہ ہونے کی تردید کرتے ہیں۔جموں ایک انتظامی ڈویژن ہے اسکے تین خطے ہیں، جموں۔توی، پیر پنچال اور چناب ویلی میں صرف جموں۔توی خطے میں ہندو اکثریت میں ہیں، دیگر مسلم اکثریتی علاقے ہیں۔ 1947 میں پورے جموں کے انتظامی خطے میں 69 فیصد مسلم آبادی تھی۔ جو اب 33.45 فیصدرہ گئی ہے ۔ یہ تاریخ کی بدترین نسل کشی ہے۔

جموں کشمیر کی جدید صحافت، انگریزی اخبار کشمیر ٹائمزکے بانی اور مورخ آنجہانی وید بھسین 1947ء کے واقعات اور جموں میں مسلمانوں کے قتل عام کے چشم دیدگواہ تھے۔وہ کہتے تھے ’’کہ سڑکوں پر کشت و خون کو روکنے کے لئے بلراج پوری اور اوم صراف کے ہمراہ میں مہاراجہ کے محل پہنچا۔ ہمیں جلد ہی وزیر اعظم مہرچند مہاجن کے روبرو لے جایا گیا۔ وہ الٹا ہمیں سمجھانے لگا کہ ہندو ہونے کے ناطے ہمیں اسمبلی اور دیگر اداروں میں مسلمانوں کے برابر نشستوں کا مطالبہ کرنا چاہیے کیونکہ اب جمہوری دورکا آغاز ہو چکا ہے اور عددی قوت کے بل پر ہی اقتدار پر قبضہ برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ اوم صراف نے جرأت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے پوچھا کہ یہ آخر کس طرح ممکن ہے، جموں و کشمیر تو ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے۔ اس پر مہاجن نے محل کی دیوار سے متصل کھائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، بالکل اس طرح۔ جب ہم نے بغور دیکھا تو چند مسلم گوجروں کی بے گور وکفن لاشیں نظر آئیں جو شاید صبح سویرے محل میں دودھ دینے آئے تھے‘‘۔

بقول وید جی، مہاجن ریاست کی آبادی کا فرقہ وارانہ پروفائل تبدیل کرنے پر مصر تھا۔شیخ محمد عبداللہ نے اپنی سوانح حیات ‘آتش چنار‘ میں لکھا ہے کہ جب کشمیر ی مسلمان اس دورِ پر آشوب میں پنڈتوں کی حفاظت کے لئے جان کی بازی لگا رہے تھے، مہاراجہ ہر ی سنگھ جموں میں آگ بھڑکا رہا تھا۔ سرینگر سے بھاگ کر جب سفر کی تکان اتارنے کے لئے شاہراہ کے کنارے وہ رام بن کے قریب ایک ریسٹ ہاؤس میں پہنچا، تو شومئی قسمت، چائے پیش کرنے والا بیرا مسلمان تھا اور اس کے سر پر رومی ٹوپی تھی۔ اس کو دیکھتے ہی مہاراجہ کے منہ کا مزہ بگڑ گیا اور اس نے چائے پینے سے انکار کردیا۔

جموں میں مسلمانوں کا صفایا کرنے کے بعد مہاراجہ اور مہارانی تارا دیوی کی نظریں وادی چناب پر لگی ہوئی تھیں، مگر کرنل عدالت خان اور اس کی ملیشیا نے بہادری اور دانشمندی سے وہاں آگ کے شعلے بجھا دیے۔اس وقت تک جواہر لال نہرو کی ایما پر شیخ عبداللہ کو انتظامیہ کا سربراہ مقرر کیا جا چکا تھا، مگر اس کی رٹ کشمیر وادی تک ہی محدود تھی۔ اس نے مہاراجہ کے اعزہ و اقارب اور چند سکھ خاندان جو سرینگر میں رہ گئے تھے کو جموں پہنچانے کے لئے جنوبی کشمیر کے بائیس ٹانگہ بانوں کو آمادہ کیا، مگر یہ نیکی ان کے لئے وبال جان بن گئی۔ واپسی پر نگروٹہ کے مقام پرہندو انتہاپسند ٹولی نے ان کے ٹانگے چھین لیے اور پھر انہیں بے دردی سے قتل کر ڈالا۔

جموں خطہ کے موجودہ حالات وکوائف پر نظر ڈالی جائے تو اس بات کا خدشہ محسوس ہوتا ہے کہ یہاں نومبر1947ء کا واقعہ پھر سے دہرایا جا سکتا ہے، جیسا کہ بی جے پی کے رکن چودھری لال سنگھ نے ایک مسلم وفد کو 47ء یاد کرنے کا مشور ہ دیا تھا۔ اس خطہ کے دو مسلم اکثریتی علاقے ہندو فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں۔ پچھلے کئی برسوں سے ایک منصوبہ بند طریقے سے راجوڑی‘ کشتواڑ‘ بھدر واہ کے د یہاتی علاقوں میں فرقہ جاتی منافرت کا ماحول پیدا کرایا جا رہا ہے۔ راشٹریہ سیوک سنگھ کے مقتدر رہنما اندریش کمار تو تقریباً اس خطے میں ڈیرہ ڈالے رہتے ہیں، جن سے سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ کیس کے سلسلے میں پوچھ گچھ بھی ہوچکی ہے۔

عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے نام پر دو دہائی قبل اس ایریا میں ہندو دیہاتیوں کو ویلج ڈیفینس کمیٹی کا نام دیکر مسلح کیا گیا تھا۔ اب عسکریت پسند تو نہیں رہے، مگر یہ مسلح افراد اب آئے دن دیہاتوں میں مسلم خاندانوں کو تنگ کر رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ منصوبہ بند سازش کے تحت مسلم آبادی کو شہری علاقوں کی طرف دھکیلنے کی کارروائی ہو رہی ہے تاکہ آئندہ کسی وقت 47ء کو دہرا کر اس آبادی کو وادی کشمیر کی طرف ہجرت پر مجبور کیا جاسکے اور جموں خطے کو پوری طرح مسلمانوں سے پاک و صاف کرایا جائے۔ان قوم پرست حضرات سے گذارش ہے کہ حالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے مفاہمت اور مسئلہ کو حل کروانے کی کوئی سبیل نکالیں نہ کہ بغض میں کشمیریوں کی تاریک راتوں کو مزید لمبی کرنے میں معاونت کا کردار اداکریں۔