فکر و نظر

میں نے ایمرجنسی تو نہیں دیکھی ،لیکن …

ایک بات جو موجودہ حالات کو ایمرجنسی سے بھی زیادہ سنگین بناتی ہے وہ یہ کہ آج ملک کو تانا شاہی کے ساتھ ساتھ فسطائیت کا بھی سامنا ہے۔ فرقہ پرستی اپنے عروج پر ہے۔ مذہبی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف تشدد عام ہو گیا ہے۔ اس کے خلاف کوئی شنوائی نہیں ہے۔ مظلوم کو انصاف کی جگہ ذلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

Protest

دہلی میں سماجی کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے ایکٹیوسٹ/فوٹو: دی وائر

میں نے ایمرجنسی نہیں دیکھی ،وہ اس لئے کہ تب میں پیدا نہیں ہوا تھا۔شاید یہ کہنازیادہ مناسب ہو کہ میں اس کے بہت بعد پیدا ہوا ۔ ایمرجنسی نافذ کرنے والی حکومت کی سربراہ اندرا گاندھی کے قتل کے دو سال بعد،اورمیں نے جس سیاسی ماحول میں  ہوش سنبھالا اس میں ایمرجنسی کی یادوں کے علاوہ کچھ اورنہیں تھا۔ یہاں تک کہ وہ پارٹی بھی برسرِ اقتدار نہیں تھی جس نے ایمرجنسی نافذ کی تھی۔

اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ  ایمرجنسی سے میری واقفیت نہیں ہے۔وجہ وہی ہے کہ ہوش سنبھالنے کے بعد سے ہی میں ہر سال ایمرجنسی کی یاد میں منعقد ہونے والے جلسوں میں پابندی کے ساتھ شرکت کرتا رہا ہوں۔ اس علاوہ اس موضوع پر اردو، انگریزی اور ہندی زبان میں موجودتقریباً تمام کتابوں کا مطالعہ کیا ہے۔ ساتھ ہی میں اس تنظیم کا بھی لائف ٹائم ممبر ہوں جس کی بنیاد ایمرجنسی کے دوران اس کی مخالفت میں جئے پرکاش نارائن کی قیادت میں رکھی گئی تھی۔ میری مراد ہندوستان کی سب سے بڑی حقوق انسانی کی تنظیم پیپلز یونین آف سول لبرٹیز(PUCL) سے ہے۔

گویا بہت حد تک میری واقفیت ان باتوں سے ہے  کہ ایمرجنسی کے دوران کیا کچھ ہوا تھا، کیسے ہوا تھا اور کس نے کیا تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ ایمرجنسی کے دوران بولنے پر پابندی تھی، لکھنے پر پابندی تھی، سوال کرنے پر پابندی تھی۔ تمام بنیادی حقوق سلب کر لئے گئے تھے۔ اور جو بھی حکومت وقت کی ہاں میں ہاں نہیں ملا رہا تھا اس کے لئے صرف ایک جگہ تھی جیل۔ اس دوران ہزاروں نہیں لاکھوں افراد جیل میں ٹھوس دیے گئے تھے۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر میں آج یہ باتیں کیوں لکھ رہا ہوں۔ یا دوسرے لفظوں میں کہیں تو اس ‘صفائی نامہ’کی ضرورت کیوں آن پڑی؟ دراصل پچھلے کچھ دنوں میں یہ ہوا ہے کہ جب بھی کسی سے  کہیے کہ ملک کے حالات سنگین ہوتے جا رہے ہیں، ایمرجنسی جیسے حالات  ہیں، تو جواب  ہوتا ہے کہ ‘تم نے ایمرجنسی نہیں دیکھی ہے، میں نے دیکھی ہے اور ابھی ایسا کچھ نہیں ہوا ہے۔حالات برے ہیں لیکن  ان حالات کو ایمرجنسی یا Undeclared Emergency سے تعبیر کرنا جلد بازی ہوگی۔ لیکن جب میں ان حالات  کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں  تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں  موجودہ حالات ایمرجنسی کی طرح نہیں ہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ  سنگین ہیں۔ مجھے ایسا کیوں لگتا ہے اس کے چند ایک  وجوہات یہ ہیں :

  • جب ملک میں ایمرجنسی نافذ تھا تو لوگوں کے پاس ایک ‘جواز’ تھا کہ وہ حکومت کے خلاف نہیں بول سکتے ۔ شہریوں کے پاس حکومت کے خلاف بولنے، لکھنے اور مظاہرہ کرنے کا کوئی حق نہیں تھا۔اس لیے اگر وہ حکومت کی مخالفت کرتے  تو ان کے خلاف کارروائی طے شدہ تھی۔اس کے برعکس آج صورتحال یہ ہے کہ حکومت،اس کے نمائندے اور برسر اقتدار پارٹی کے کارندے یہ کہتے ہیں کہ ملک میں جمہوریت کا بول بالاہے ، ہر خاص و عام اپنی رائے رکھنے کے لئے آزاد ہے۔

لیکن  کیا حقیقت میں ایسا ہے؟ نہیں، بالکل نہیں،کوئی ایسا دن نہیں ہے، بلکہ کوئی ایسی ساعت  نہیں ہے جب یہ خبر سننے کو نہ ملتی ہو کہ فلاں جگہ، فلاں شخص کو گرفتار کر لیا گیا یا ان پرحملہ ہوا ۔ اور یہ حملے حکومت یا حکومت کے شہ پر ہو رہے ہیں۔ ایسی صورت میں لوگ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ملک میں ایمرجنسی جیسے حالات ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حالات کہیں زیادہ  سنگین ہیں۔ واقعہ  یہ ہے کہ آپ وہ بھی نہیں کہہ سکتے ہیں جو آپ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں۔ ایسے حالات تو ایمرجنسی کے دوران  نہیں تھے۔

ویڈیو: ایمرجنسی کے دوران دہلی میں عام شہریوں پر کیا بیتی تھی ؟

  • ایک بات ایمرجنسی کے دوران میڈیا گھرانوں اور صحافیوں کے رویہ کے تعلق سے بھی بہت مشہور ہے۔ کہتے ہیں کہ حکومت نے ان سے جھکنے کو کہا تھا لیکن وہ رینگنے لگے۔ آج میڈیا سے ظاہری طور پر ایسا کچھ نہیں کہا گیا ہے پر ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح میڈیا گھرانے اور صحافی برادری حکومت کا بھونپو بنا ہوا ہے۔ اور جو لوگ ایسا نہیں کر رہے ہیں انہیں اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑ رہا ہے۔ ساتھ ہی یہ بات بھی قابل غور ہے کہ پہلے میڈیا حکومت کی نگرانی کرتی تھی اور آج حکومت میڈیا کی نگرانی کر رہی ہے۔ ملک بھر میں صحافیوں پر لگاتار حملہ کی خبر بھی آرہی ہے۔
  • ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ موجودہ حکومت میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہیں جن کو یہ فخر ہے کہ انہوں ایمرجنسی کے خلاف لڑائی لڑی تھی، جیل گئے تھے اور اذیتیں اٹھائی تھیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ یہی  لوگ ملک میں جمہوری قدروں کی پامالی کے لئے ذمہ دار ہیں۔یہ اس لحاظ سے زیادہ خطرناک ہے کہ آدمی اگر ‘انجانے’ میں  کچھ کرے تو ایک بات لیکن جانتے بوجھتے ایسا کرے تو معاملہ اور بھی گمبھیر ہو جاتا ہے۔قابلِ ذکر بات یہ بھی ہے کہ ایمرجنسی کے دوران گرفتار کئے لوگوں کو سیاسی قیدی (Political Prisoners)کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ لیکن آج جب سماجی اور سیاسی کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے تو انہیں مجرم کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
  • ایمرجنسی کی زیادتیوں کے بارے میں بہت سی باتیں کہی اور لکھی جا سکتی ہیں۔لیکن ایک بات جو موجودہ حالات کو ایمرجنسی سے بھی زیادہ سنگین بناتی ہے وہ یہ کہ آج ملک کو تانا شاہی کے ساتھ ساتھ فسطائیت کا بھی سامنا ہے۔ فرقہ پرستی اپنے عروج پر ہے۔ مذہبی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف تشدد عام ہو گیا ہے۔ اس کے خلاف کوئی شنوائی نہیں ہے۔ مظلوم کو انصاف کی جگہ ذلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان  سب کے باوجود حکومت وقت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے،بلکہ کئی معاملات میں تو ظالم کے ساتھ کھڑی نظر آ رہی ہے۔اور جو لوگ اس کے خلاف آواز اٹھارہے ہیں ان پر حملے ہو رہے ہیں۔
  • ایک اور اہم بات ایمرجنسی کے دوران تمام پابندیوں کے باوجود لوگ بڑی تعداد میں سڑک پر اتر آئے تھے۔ پر آج یہ صورت حال نہیں ہے۔ لوگوں میں اس قدر ڈر اور خوف کا ماحول ہے کہ لوگ مظاہرہ کرنے میں احتیاط برت رہے ہیں۔ ایسا اس لئے بھی ہے کہ وہ شاید یہ محسوس کر رہے ہیں  کہ  ملک بھرمیں  لوگوں کو ٹارگیٹ کیا جا رہا ہے۔

اب آپ ہی بتائیے کیا یہ ایمرجنسی سے سنگین حالات نہیں ہیں؟