یوم نکبہ: فلسطین-ہماری آنکھوں کے آگے گم ہوتے ہوئے ایک ملک کا نام ہے۔فلسطین کے زخم سے خون آہستہ آہستہ ٹپک رہا ہے۔ لیکن وہ ہماری روح کو نہیں چھوتا۔ ابھی جو لاکھوں فلسطینی جلاوطن ہیں، کیا ان کو اپنے ملک لوٹنے کا حق نہیں ہے؟ کیا ہم اسرائیل کے جھوٹ کو سچ مان لیںگے۔
لکھ لو
میں ایک عرب ہوں
میرے شناختی کارڈکا نمبر ہے 50000
میرے بچے:آٹھ
اور نواں گرمیوں کے بعد آ رہا ہے
……
کیا تم ناراض ہو؟
لکھ لو
میں ایک عرب ہوں
جس سے لوٹ لئے گئے اس کے آباواجداد کے باغات
اور وہ زمین
جس کو میں نے اور میرے سارے بچوں نے جوتا تھا
کچھ بھی نہیں بچا ہے میرے اور میرے بچوں کے لئے
سوائے پتھروں کے…
کیا تمہاری حکومت وہ بھی لے لےگی، جیسی رپورٹ سنی ہے؟
اس لئے پہلے صفحے میں سب سے پہلے لکھو
میں لوگوں سے نفرت نہیں کرتا
میں کسی پر حملہ نہیں کرتا
لیکن…اگر میں بھوکا رہوں
تو میں اپنے ظالم کا گوشت کھا جاتا ہوں
خبردار… خبردار میری بھوک سے
اور میرے غصے سے
محمود درویش کی یہ سطریں 1964 کی ان کی نظم شناختی کارڈ سے ماخوذ ہیں۔ 55 سال گزر جانے کے بعد بھی کیوں یہ نظم آج کے کسی فلسطینی کی چیخ بنی ہوئی ہے؟
15 مئی وہ تاریخ ہے جو اس نظم کو سمجھنے میں مدد کرتی ہے۔
فلسطین-ہماری آنکھوں کے آگے گم ہوتے ہوئے ایک ملک کا نام ہے۔ اس کو نہ تو جارڈن ندی کھا رہی ہے اور نہ ہی بحیرہ روم(Mediterranean Sea) نگل رہا ہے۔ اس کا گلا اس انسانی دنیا کی بےحسی اور اسرائیل کی بےرحمی گھونٹ رہی ہے۔
15مئی وہ تاریخ ہے جو ہم سب کو یاد رہنی چاہیے۔ اس لئے کہ ایک آبادی ہے جس کے دل پر یہ زخم کی طرح ہے۔ فلسطینی اس کو یوم آفت (یوم نکبہ)کے طور پر یاد رکھتے ہیں۔ یہ لفظ ہر زبان کی لغت میں داخل کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ یہ لفظ ہمیں خبردار رکھتا ہے کہ ایک آبادی کا بسنا دوسری آبادی کے اجڑنے کی وجہ نہ بنے، یہ ہمارا فرض تھا اور ہے لیکن ہم نے اس کو نبھایا نہیں ہے۔ نکبہ، یہ لفظ ہم سے کہتا ہے کہ ایک پوری آبادی نظربند یا قید ہو یا جلاوطن رہنے کو مجبور ہو تو یہ ہم سب کے لئے مشترکہ آفت ہونی چاہیے۔ افسوس! ایسا ہم محسوس نہیں کرتے۔
اسرائیل14مئی کو اپنا یوم آزادی مناتا ہے اور ایک دن بعد 15کو فلسطینی نکبہ کو یاد کرتے ہیں۔ کیونکہ جو اسرائیل کی آزادی تھی وہ ان پر آفت کی طرح ہی ٹوٹ پڑی تھی۔15 مئی،1948 کو عرب فلسطینیوں پر یہودی رہنماؤں کے صاف حکم پر یہودی ملیشیا کا جو حملہ شروع ہوا، وہ تقریباً 8مہینے تک چلتا رہا۔ دہشت گردی کے ہر طریقے کو اپنایا گیا۔ گاؤں اور شہروں پر بمباری، عورتوں کے ساتھ ریپ، قتل عام، دس سال سے زیادہ عمر کے لڑکوں یا مردوں کو لیبر کیمپوں میں بند رکھنا، اسرائیل نے فلسطینیوں کی نسلی صفائی کی مہم آج تک بند نہیں کی ہے۔
اسرائیلی مؤرخ ایلان پاپے کہتے ہیں کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ جو کیا اس کو نسلی صفایا کہا جانا چاہیے کیونکہ یہودیوں نے صاف صاف، تفصیلی منصوبہ بنایا اور اپنی ملیشیا کو ہدایت دی کہ کس طرح فلسطینی علاقوں کو یہودی اکثریتی بنانے کے لئے عرب فلسطینیوں سے ان کو خالی کیا جانا چاہیے۔ یہ سلسلہ آج بھی بند نہیں ہوا ہے۔
بین الاقوامی سمجھ ہے کہ نسلی صفایا وہ ہے جس میں ایک طبقہ، دوسرے کو مکمل یا جزوی طور پر کسی علاقے سے باہر کرے یا اس کو ختم کر دے۔ پاپے نے بتایا ہے کہ 1948 سے 1956 کے درمیان اور بھی فلسطینی باشندوں کو وطن بدر کیا گیا،1967 کی جنگ کے دوران غازہ پٹی اور مغربی کنارے سے زبردستی 300000 فلسطینیوں کو باہر کرنا، اور ایک منصوبہ بند سازش کے تحت مسیحی یروشلم سے تقریباً 200000 فلسطینیوں کو باہر کر دینا۔
جو فلسطینی اپنے علاقوں میں بچے رہ گئے ہیں، ان پر روز روز نئی تراکیب سے دائرہ تنگ کیا جا رہا ہے۔ غازہ پٹی کو کھلی جیل بھی نہیں کہا جا سکتا۔ اس کے چاروں طرف اونچی دیواریں کھڑی کر دی گئیں ہیں۔ اسرائیل نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ دنیا کے ووٹ کی پرواہ کئے بغیر بچے ہوئے علاقے پر بھی قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ غیر قانونی طریقے سے فلسطینی علاقوں میں یہودیوں کو بسایا جا رہا ہے۔
فلسطین کے زخم سے خون آہستہ آہستہ ٹپک رہا ہے۔ لیکن وہ ہماری روح کو نہیں چھوتا۔ ابھی جو لاکھوں فلسطینی جلاوطن ہیں، کیا ان کو اپنے ملک لوٹنے کا حق نہیں ہے؟ کیا ہم اسرائیل کے جھوٹ کو سچ مان لیںگے کہ جس جگہ اس نے اپنے پیر رکھے، وہ خالی زمین تھی؟ کیا ہم بھول جائیںگے کہ انگریزوں نے جب اس علاقے پر قبضہ کیا، اس وقت وہاں کی آبادی میں صرف 11 فیصد یہودی تھے اور باقی لاکھوں عرب تھے، مسلمان، اور عیسائی؟
نکبہ کو یاد رکھنا ضروری ہے۔ یورپ سے نکالے گئے یہودیوں نے فلسطینیوں کے ساتھ خود وہی کیا جو ان کے ساتھ کیا گیا تھا۔ یوروپ نے اپنی اخلاقی کمزوری اور جرم کو چھپانے کے لئے ایک نئے جرم کو جنم دیا۔ امریکہ اور باقی دنیا اب اس میں شریک ہے۔
اب حالات ایسے ہیں کہ اسرائیل کی اس زیادتی، جو اپنے آپ میں بہت ہلکا لفظ ہے، کے بارے میں چرچہ بھر کو یہودی مخالف نفرت کہہکر اس کو جرم بتا دیا جاتا ہے۔ اس طرح اب اسرائیل کی فلسطین مخالف نفرت کو جائز ٹھہرایا جا رہا ہے۔
جس طرح حال میں امریکہ میں فلسطین کے حق کی بات کرنے والی امریکی کانگریس کے ممبروں پر چاروں طرف سے حملہ کیا گیا ہے، اس سے یہ صاف ہو گیا ہے کہ اب فلسطین کی آزادی کی بات یا اسرائیل کے ظلم کو ہی یہودی مخالف کہہکر اس کو غیر مناسب ٹھہرایا جا رہا ہے۔ اب کوئی فلسطینیوں کے اپنے ملک کے حق کی بات بھی نہیں کر رہا۔ لیکن اس دھوکہ دھڑی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ سوال ہی نہیں ہے۔ ابھی بھی جو لاکھوں فلسطینی وطن بدر ہیں، ان کو اپنے ملک لوٹنے کا حق ہے۔
فلسطین میں حماس نامی تنظیم کے وجود کے بہانے سے یہ کہا جاتا ہے کہ چونکہ اسرائیلی ہمیشہ اس کے حملوں کے شکار ہیں، ان کو اپنی حفاظت کرنے کا حق ہے۔ لیکن دونوں کی طاقت میں کوئی برابری نہیں۔ حماس کے نام پر ہر فلسطینی کو ممکنہ یا چھپا دہشت گرد بتانا ایک بڑا جھوٹ یا دھوکہ ہے جس میں دنیا اسرائیل کا ساتھ دے رہی ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ حماس کے طریقے کو جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا لیکن اسرائیل جیسی طاقتور ریاست کے تشدد پر بات نہیں کرنا کہیں بڑا جرم ہے۔
یہ قطعی ممکن ہونا چاہیے کہ جارڈن ندی اور بحیرہ روم کے درمیان ایک ریاست ہو، جس میں یہودی، فلسطینی، مسلمان، عیسائی، تمام ایک ملک کی طرح رہ سکیں۔ لیکن اسرائیل نے خود کو پہلے یہودیوں کا ملک اعلان کرکے اپنا ارادہ صاف کر دیا ہے کہ اس کو کثیرمذہبی،کثیر ثقافتی ملک کے نظریہ میں یقین نہیں ہے۔ جس طرح دنیا کا ہر ملک اسرائیل کے ساتھ بغلگیرہونے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہا ہے، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ فلسطینیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ تشدد کے تئیں اس دنیا کی بے پروائی کا ثبوت ہے۔
پاپے کا یہ کہنا ٹھیک ہے کہ جب تک 15 مئی کے دن کو نسلی صفائی کی شروعات کے طور پر قبول نہیں کیا جائےگا، تشدد کے خاتمے کی بھی شروعات نہیں ہوگی۔ درویش کا غصہ نسل در نسل بڑھتا ہی جائےگا۔ اور یہ جتنا فلسطین کے لئے برا ہوگا، اس سے کم اسرائیل کے لئے نہیں۔
ہندوستان نے اپنی جد وجہد آزادی کے دنوں میں بھی بار بار فلسطینیوں کے حق کی وکالت کی تھی۔ بعد میں بھی وہ ان کا ہمدرد بنا رہا، لیکن پچھلے کچھ سالوں سے ہندوستان میں بھی اکثریت کے شدت پسند ہونے کے ساتھ اسرائیل کے تئیں کشش بڑھی ہے۔
(مضمون نگار دہلی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں)
Categories: فکر و نظر