سرینگر اور ریاست کے کئی حصے پوری طرح سے بند رہے۔ پانچ اگست کو مرکزی حکومت کے ذریعے جموں و کشمیر کےخصوصی ریاست کا درجہ ختم کرنے کے 86ویں دن بھی کشمیرمیں معمولات زندگی درہم برہم رہی۔
نئی دہلی: کشمیر میں مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کےدرمیان جھڑپوں میں منگل کو کم سے کم چار افراد زخمی ہو گئے۔ سرینگر اور ریاست کےکچھ دیگر حصوں میں پوری طرح سے بند رہا۔ افسروں نے یہ جانکاری دی۔ یہ واقعات ایسے وقت میں ہوئی ہیں جب یورپی یونین کے 23 رکن پارلیامان کا ایک وفد جموں و کشمیرکی صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے یہاں پہنچا ہے۔ پولیس افسروں نے بتایا کہ مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان سرینگراور کشمیر کے کئی حصوں میں جھڑپیں ہوئیں، جن میں چار لوگ زخمی ہو گئے۔
پانچ اگست کو مرکزی حکومت کے ذریعے جموں و کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کے زیادہ تراہتمام ختم کرنے اور ریاست کو دو یونین ٹریٹری میں تقسیم کرنے کے بعدمنگل کو 86ویں دن بھی کشمیر میں معمولات زندگی درہم برہم رہی۔ افسروں نے بتایا کہ جھڑپوں کی وجہ سے بازار بند رہے، جبکہ نقل وحمل سڑک سےندارد رہے۔ حالانکہ، 10ویں کلاس کے لئے بورڈکا امتحان طےشدہ وقت کے مطابق ہی منعقد کیاجا رہا ہے۔ امتحان ہال کے باہر اپنے بچوں کا انتظار کر رہے ماں باپ فکرمند نظرآئے۔
اقبال پارک میں ایک امتحان ہال کے باہر انتظار کر رہے ارشد وانی نے کہا، ‘بچوں کے امتحان کے لئے حالات ابھی موافق نہیں ہیں۔ حکومت کو آج کا پیپر ملتوی کردینا چاہیے تھا۔’انہوں نے کہا کہ سماج کے لئے بچوں کی حفاظت سب سے اوپر ہونی چاہیے۔پچھلے تین مہینوں میں اسکول کھولنے کی انتظامیہ کی کوششوں کا کوئی اثرنہیں ہوا ہے، کیونکہ والدین نے تحفظ کے خدشہ کی وجہ سے بچوں کو گھر پر ہی رکھاہے۔
وادی میں لینڈلائن اور پوسٹ پیڈ موبائل فون خدمات بحال کی جا چکی ہیں، لیکن تمام انٹرنیٹ خدمات پانچ اگست کے بعد سے معطل ہی ہیں۔میں اسٹریم کے زیادہ تر علیحدگی پسند رہنماؤں کو احتیاط کے طور پر حراست میں لے لیا گیا ہے، جبکہ دو سابق وزیراعلیٰ-عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت کئی رہنماؤں کو یا تو حراست میں لیا گیا ہے یا نظربند کر دیا گیا ہے۔
سابق وزیراعلیٰ اورسرینگر سے لوک سبھا کے موجودہ رکن پارلیامان فاروق عبداللہ کو متنازعہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ قانون فاروق کےوالد اور نیشنل کانفرنس کے بانی شیخ عبداللہ نے 1978 میں نافذ کیا تھا جب وہ وزیراعلیٰ تھے۔
یورپی یونین کے رکن پارلیامان کا وفد کشمیر پہنچا
جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کے زیادہ تر اہتماموں کو ختم کرنے کے بعد ریاست کے تازہ حالات کا جائزہ لینے کے لئے یورپی یونین کے 23 رکنی پارلیامان کا ایک وفد منگل کو سرینگر پہنچ گیا۔ افسروں نے بتایا کہ دو روزہ دورے پر آئے ای یو رکن پارلیامان کو سرکاری افسران وادی کے حالات کے علاوہ جموں و کشمیر کے دیگر حصوں کی حالت کے بارے میں جانکاری دیںگے۔ یہ وفد سماج کے مختلف طبقوں سے بھی بات چیت کر سکتا ہے۔
افسروں نے بتایا کہ اس وفد میں بنیادی طور پر 27 رکن پارلیامان کو ہونا تھا، لیکن ان میں سے چار کشمیر نہیں آئے۔ بتایاجاتا ہے کہ یہ رکن پارلیامان اپنے اپنے ملک لوٹ گئے۔ جموں و کشمیر کو دو یونین ٹریٹری ریاستوں میں تقسیم کرنے کے بعد یہ پہلا غیر ملکی وفد کشمیرکے دورے پر آیا ہے۔اس بیچ شہر پوری طرح سے بند ہے اور وادی اور سرینگر کے الگ الگ حصوں میں مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان ہوئی جھڑپوں میں چار لوگ زخمی ہوئے ہیں۔
یورپی رکن پارلیامان کے ان ممبروں نے اپنے دو روزہ کشمیر دورے کے پہلے،سوموار کو وزیر اعظم نریندر مودی سے نئی دہلی میں ملاقات کی تھی۔ وزیر اعظم مودی نے ان کا استقبال کرنے کے ساتھ امید ظاہر کی کہ جموں و کشمیر سمیت ملک کے دیگر حصوں میں ان کا دورہ کامیاب رہےگا۔ پی ایم او نے ایک بیان جاری کرکے کہا، ‘ اس دورے سے وفد کو جموں، کشمیراور لداخ کی ثقافتی اور مذہبی تنوع کو بہتر طریقے سے سمجھنے میں مدد ملےگی۔اس کے ساتھ ہی وہ اس علاقے کی ترقی اور حکومت سے انتظامیہ سے متعلق ترجیحات کی صحیح حالت سےواقف ہوںگے۔ ‘
قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال نے مہمانوں کو دوپہر کی دعوت دی اور ان کو جموں و کشمیر کے حالات کی جانکاری دی تھی۔ کچھ ہفتہ پہلے امریکہ کے ایک سینیٹر کو کشمیر جانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
حکومت جموں و کشمیر کی اصل حالت چھپا رہی: پی ڈی پی
مرکزی حکومت کے ذریعے جموں و کشمیر کی اصل حالت کو ملک سے چھپانے کے اس ڈرامے میں پی ڈی پی حصہ نہیں لےگی۔ منگل کو ڈوبھال کے ذریعے منعقد دوپہر کے کھانےمیں شامل ہونے والے تمام ممبروں سے کنارہ کشی اختیارکرتے ہوئے پی ڈی پی نے یہ بیان دیا۔سوموار کو ڈوبھال 27 یورپی رکن پارلیامان سے دوپہرکے کھانے پر ملے تھے۔ یہ رکن پارلیامان منگل کو کشمیر پہنچ گئےہیں۔ اس انعقاد میں پیپل ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما اور سابق نائب وزیر اعلیٰ مظفرحسین بیگ اور کئی دیگر شامل تھے۔اس کے علاوہ پی ڈی پی کے سابق رہنما الطاف بخاری، جموں و کشمیر بلاک ترقیاتی کونسل کے کچھ ممبر اور ریئل کشمیر فٹ بال کلب کے معاون-مالک سندیپ چٹی نے بھی اس انعقاد میں حصہ لیا۔
آرٹیکل 370 ختم کرنے کےبعد یہ غیر ملکی وفد کا پہلا کشمیر دورہ ہے۔ اس دورے کو کشمیر پر پاکستان کے رویےکے خلاف حکومت کا ایک بڑا مصلحت اندیش قدم مانا جا رہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ زیادہ تر رکن پارلیامان اپنے ممالک کی رائٹ ونگ جماعتوں کے ہیں۔
پارٹی ترجمان اور سابق ایم ایل اے فردوس ٹاک نے بتایا کہ پارٹی نے سرکاری طور پر قومی سلامتی کے مشیرڈوبھال کے دوپہر کےکھانے میں شامل ہر ممبر سے دوری بنالی ہے۔ ٹاک نے کہا کہ یورپی وفد سے ملنا کسی بھی رہنما کا ذاتی قدم ہے۔
پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی سمیت ریاست کے کئی رہنما اور کارکن پانچ اگست کوریاست کا خصوصی درجہ ختم ہونے کے بعد سے ہی حراست میں ہیں۔ پی ڈی پی رہنما نے کہا، ‘پی ڈی پی کے پاس یہ ماننے کی ہر وجہ ہے کہ بی جےپی حکومت کسی عالمی دباؤ کی وجہ سے ہی جموں و کشمیر میں حالت نارمل دکھا رہی ہے۔لیکن پی ڈی پی کسی بیان بازی کا حصہ نہیں بنےگی۔ ‘انہوں نے کہا کہ پی ڈی پی حکومت ہند کے آرٹیکل 370 ختم کرنے کے قدم کی تنقید کرتی ہے۔
بی جے پی رہنما سبرامنیم سوامی نے ای یو وفد کے جموں و کشمیر دورے کی تنقید کی
بی جے پی رکن پارلیامان سبرامنیم سوامی نے یورپی یونین کے وفد کے جموں وکشمیر دورے کو لےکر مرکزی حکومت پر گزشتہ سوموار کو حملہ بولا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے ممبر ذاتی طور پر علاقے کا دورہ کریںگے اور دعویٰ کیا کہ یہ ہماری قومی پالیسی کے برعکس ہے۔ سوامی نے اس دورے کو ردکرنے کی مانگ کی۔ انہوں نے کہا، ‘ مجھے تعجب ہے کہ وزارت خارجہ نے یورپی یونین کے رکن پارلیامان کے ذاتی طور پر (یورپی یونین کے سرکاری وفد کے طور پر نہیں) جموں وکشمیرکے علاقے کا دورہ کرنے کے انتظام کئے ہیں۔ یہ ہمارے ملک کی پالیسی کے برعکس ہے۔ میں حکومت سے یہ دورہ رد کرنے کی اپیل کرتا ہوں کیونکہ یہ غیراخلاقی ہے۔ ‘
یورپی یونین کے رکن پارلیامان کے وفدکو جموں و کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت دینے کے مرکزی حکومت کے قدم کی کانگریس نے بھی تنقید کی ہے۔گزشتہ سوموار کوکانگریس نے الزام لگایا کہ ہندوستانی رہنماؤں کو وہاں جانے کی اجازت نہیں دینااور غیرملکی رہنماؤں کو اجازت دینا ملک کے قانون سازمجلس اور جمہوریت کی پوری طرح سےتوہین ہے۔واضح ہو کہ اس سے پہلے جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے کانگریس کےسینئر رہنما غلام نبی آزاد کو جموں و کشمیر کا دورہ کرنے سے منع کر دیاگیا تھا۔ ان کو ہوائی اڈے سے واپس بھیج دیا گیا تھا۔ اس کے بعد آزاد نے سپریم کورٹ سے جموں و کشمیر میں اپنی فیملی کے ممبروں اور رشتہ داروں سے ملنے کی اجازت بھی مانگی تھی۔
آزاد کا دورہ تب ممکن ہوا جب 16 ستمبر کو سپریم کورٹ نے ان کو وہاں جانے کی اجازت دی تھی۔ اس کے علاوہ گزشتہ اگست میں جموں و کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ دینےوالے آرٹیکل 370 کو مرکز کی مودی حکومت کے ذریعے ختم کرنے کے بعد وہاں کے حالات کا جائزہ لینےسرینگر پہنچے حزب مخالف کے رہنماؤں کوواپس دہلی بھیج دیا گیا تھا۔ آٹھ سیاسی جماعتوں کے 11 رکنی وفد جموں و کشمیر کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے سرینگر پہنچا تھا۔ ان کو وہیں سے واپس بھیج دیا گیا تھا۔ وفد میں آٹھ سیاسی جماعتوں-کانگریس ، سی پی آئی (ایم) ، سی پی آئی ،ڈی ایم کے ، این سی پی ، جے ڈی ایس ، آر جے ڈی اور ٹی ایم سی کے نمائندے شامل تھے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں