خبریں

جامعہ اور اے ایم یو میں پولیس کارروائی کے خلاف ہارورڈ اور آکسفورڈ میں مظاہرہ

غیر ملکی یونیورسٹیوں کے طالبعلموں نے حکومت ہند کولکھے ایک خط میں کہا، یہ معاملہ کسی بھی جمہوری‎سماج کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔

شہریت ترمیم قانون کےخلاف مظاہرہ کرتے جامعہ کےطالبعلم(فوٹو : پی ٹی آئی)

شہریت ترمیم قانون کےخلاف مظاہرہ کرتے جامعہ کےطالبعلم(فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: ہارورڈ اور آکسفورڈ سمیت کئی مشہور تعلیمی اداروں کے طالبعلموں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پولیس کارروائی کے خلاف مظاہرہ کیا ہے۔ غیر ملکی یونیورسٹیوں کے احاطوں میں مظاہرہ کی رہنمائی وہاں کے ہندوستانی طالب علموں نے کی۔آکسفورڈ یونیورسٹی کے طالبعلموں، ریسرچ اسکالرز اور سابق طلباکی طرف سے جاری مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے، ‘ ہم جامعہ، اے ایم یو اور دیگرہندوستانی تعلیمی اداروں میں طالبعلموں پر کیے گئے تشدد کی مذمت کرتے ہیں۔ پولیس فورسز کا استعمال یونیورسٹی میں مظاہرہ کرنے کے اپنے بنیادی حقوق کا استعمال کر رہےطالب علموں کے خلاف کیا گیا ہے۔ ‘

ہارورڈ یونیورسٹی کے طالب علموں اورریسرچ اسکالرز نے حکومت ہندکو کھلا خط بھی لکھا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے، ‘ ہم مظاہرین خاص طورپرخواتین کے جوش کوتوڑنے پر مرکوز پولیس کی بربریت کی خبروں سے تشویش میں مبتلا ہیں اور فکرمند ہیں۔ یہ ذکر کرنامناسب ہے کہ یہ واقعہ مناسب رد عمل، عوامی تنظیم اور عدم اطمینان کے حقوق کی خلاف ورزی ہیں۔ ‘ہارورڈ کے علاوہ کولمبیا،یئیل، نیویارک یونیورسٹی،اسٹین فورڈ، جانس ہاپکنس، کارنیل، ایم آئی ٹی اور دیگر یونیورسٹیوں کے طالبعلموں نے بھی اس خط پر دستخط کیا ہے۔ طالبعلموں نے پولیس اور نیم فوجی دستوں کے ذریعےجبراً کیمپس میں گھس‌کر بچوں کو پیٹنے کی بھی سخت مذمت کی۔

انہوں نے کہا، ‘یہ معاملہ کسی بھی جمہوری‎سماج کی ضمیر کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔ ‘واضح ہو کہ حال ہی میں پارلیامن ٹ سے شہریت ترمیم بل منظور کیا گیا اور صدر جمہوریہ کی منظوری ملنے کے ساتھ ہی یہ بل اب قانون بن گیا ہے۔

اس قانون میں افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے مذہبی استحصال  کی وجہ سے ہندوستان آئے ہندو، سکھ، بدھ، جین، پارسی اور عیسائی کمیونٹی کے لوگوں کو ہندوستانی شہریت دینے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ شہریت ترمیم بل میں ان مسلمانوں کو شہریت دینے کے دائرے سے باہر رکھا گیا ہے جو ہندوستان میں پناہ لیناچاہتے ہیں۔اس طرح کے تعصب کی وجہ سے اس کی تنقید کی جا رہی ہے اور اس کو ہندوستان کی  مذہبی رواداری اور سیکولرازم کے  تانے-بانے کو بدلنے کی سمت میں ایک قدم کےطور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ابھی تک کسی کو ان کے مذہب کی بنیاد پر ہندوستانی شہریت دینے سے منع نہیں کیا گیا تھا۔

اس کو لےکر ملک کے الگ الگ حصوں اور تعلیمی اداروں میں احتجاجی مظاہرہ جاری ہے۔ سپریم کورٹ نے بدھ کو اس قانون پر روک لگانے سے انکارکر دیا۔ حالانکہ کورٹ نے تمام عرضی پر مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کر جنوری کے دوسرےہفتے تک جواب مانگا ہے۔

(غیرملکی یونیورسٹیوں کے طالب علموں کے ذریعے لکھے گئے مکمل خط کو پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں)