بجنور کے ایس پی سنجیو تیاگی کا کہنا ہے کہ سلیمان کے بدن سے ایک کارتوس ملا ہے۔ بیلسٹک رپورٹ سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ گولی کانسٹبل موہت کمار کی پستول سے چلائی گئی تھی۔
نئی دہلی: اتر پردیش میں شہریت قانون کے خلاف ہو رہے احتجاج اور مظاہرےکے دوران مارے گئے محمد سلیمان کے معاملے میں بجنور کے سینئر پولیس حکام نے قبول کیا ہے کہ اس کی موت پولیس کے ذریعے اپنی دفاع میں چلائی گئی گولی سے ہوئی۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، پولیس حکام کا کہنا ہے کہ 20 سال کے سلیمان کی موت کانسٹبل موہت کمار کے ذریعے اپنی دفاع میں چلائی گئی گولی سے ہوئی تھی۔
بجنور کے ایس پی سنجیو تیاگی نے کہا، ‘سلیمان کے بدن سے ایک کارتوس ملا ہے۔ بیلسٹک رپورٹ سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ گولی کانسٹبل موہت کمار کی پستول سے چلائی گئی تھی۔ موہت کمار کے پیٹ سے جو گولی ملی ہے، اس کو کسی دیسی کٹے سے چلایا گیا تھا۔’سلیمان گریجویشن کےآخری سال کے اسٹوڈنٹ تھے اور نوئیڈا میں اپنےماموں انور عثمان کے یہاں رہ کر یوپی ایس سی کی تیاری کرتے تھے۔ بخار ہونے کی وجہ سے وہ اپنے گھر نہتور آئے ہوئے تھے۔
موہت کمار بجنور پولیس کے اسپیشل آپریشن گروپ (ایس اوجی)سے وابستہ ہیں۔گزشتہ جمعہ کو سکیورٹی وجوہات سے انہیں نہٹور علاقے میں تعینات کیا گیا تھا۔فی الحال بجنور کے ایک نجی ہاسپٹل میں ان کا علاج چل رہا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان کی حالت نازک تھی۔گزشتہ جمعہ کو ہوئے تشدد میں کم سے کم 26 لوگ زخمی ہوئے ہیں جس میں 20 پولیس والے ہیں۔ جہاں سلیمان اور 21 سالہ ایک دوسرے فرد انس کی موت ہو گئی۔
وہیں موہت کمار کے ساتھ تین دوسرے پولیس والے گولیوں سے زخمی ہو گئے، جس میں نہٹور پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او راجیش سنگھ سولنکی بھی شامل تھے۔جمعہ کو ہوئے تشدد کے معاملے میں نہٹور پولیس اسٹیشن نے 35 نامزد کے ساتھ کئی دوسرے نامعلوم لوگوں کے خلاف تین ایف آئی آر درج کی ہے۔بجنور پولیس کی انٹرنل جانچ رپورٹ کے مطابق، ‘مظاہرہ کے دوران بھیڑ نے ایک سب انسپکٹر آشیش کی سرکاری پستول چھین لی تھی۔ اس کو دیکھتے ہی کانسٹبل موہت کمار سمیت کچھ پولیس والے بھیڑ کے پیچھے دوڑے۔’
بجنور کے ایس پی سنجیو تیاگی نے کہا، ‘جب موہت سلیمان کے پاس پہنچے تب اس نے اپنے دیسی کٹے سے ان پر گولی چلا دی۔ ایک گولی موہت کے پیٹ میں لگی۔ اس کے جواب میں موہت نے بھی اپنے سرکاری پستول سے گولی چلائی جو سلیمان کے پیٹ میں لگی۔’حالانکہ، پولیس کو سلیمان کے پاس سے کوئی ہتھیار نہیں ملا اور نہ ہی وہ پولیس آشیش کی سرکاری پستول ڈھونڈ پائی۔
اطلاع کی تصدیق کے لیے پولیس نے موقع پر موجود دوسرےپولیس والوں اور مقامی لوگوں کا بیان درج کیا۔ تیاگی نے کہا کہ بنیادی جانچ سے پتہ چلا ہے کہ موہت نے اپنی دفاع میں میں سلیمان کو گولی ماری تھی۔ اس معاملے پر جانچ ابھی بھی جاری ہے۔حالاں کہ سلیمان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ وہ نمازپڑھنے کے بعد مسجد سے واپس آ رہے تھے اور اسی دوران پولیس نے انہیں اٹھا لیا۔ وہ انہیں مدرسہ کے پاس والی سڑک پر لے گئے اور گولی مار دی۔
یہ بھی پڑھیں:شہریت قانون: یہ ہیں احتجاج اور مظاہرہ کے دوران ملک بھر میں مارے گئے 25 لوگ
اہل خانہ کا کہنا ہے کہ جب وہ موقع پر پہنچے تب انہیں لاش کو نہیں لینے دیا گیا۔ پولیس سیدھے پوسٹ مارٹم کے لیے بجنور لے گئی۔ انہوں نے کہا، جب گھروالے بجنور پہنچے تب انہیں واپس بھیج دیا گیا اور اگلی صبح 11 بجے بلایا گیا۔سلیمان کے کے بڑے بھائی شعیب ملک نے کہا کہ انہوں نے سوموار کو ایس پی سنجیو تیاگی اور انسپکٹر جنرل مرادآباد رینج کے رمت شرما کو شکایت درج کرائی کہ ان کے بھائی کے قتل کی ایف آئی آر درج کی جائے۔ پولیس نے کہا کہ انہیں ابھی شکایت نہیں ملی ہے۔
تیاگی نے کہا، ‘اگر سلیمان کے گھر والے شکایت درج کراتے ہیں تو ہم قانونی طور پر اس معاملے کی جانچ کریں گے۔’اس تشدد میں 20 سال کے انس کی موت پر اس کے گھروالوں نے کہا کہ وہ اپنے سات مہینے کے بیٹے کے لیے دودھ لانے گھر سے نکلا تھا کہ تبھی کچھ ہی میٹر کی دوری سے پولیس نے اس پر گولی چلا دی۔
وہ مقامی تقریبات میں کافی اور جوس بنانے کا کام کرتا تھا۔ارشد حسین کے بھائی رسالت حسین کے مطابق، ان کے بھتیجے انس کو دوپہرتقریباً3.30 بجے گھر کے سامنے گولی ماری گئی۔انہوں نے کہا، ‘جس گلی میں انس کو گولی ماری گئی، وہاں کوئی مظاہرہ بھی نہیں ہوا تھا۔’
انہوں نے کہا کہ پولیس ان سے جبراً یہ لکھوانا چاہتی تھی کہ انس مظاہرے میں شامل تھا۔
حالاں کہ ، ایس پی(دیہی)وشوجیت شریواستو نے منگل کو بتایا کہ ایک دوسرے شر پسند عناصر انس کی موت بھیڑ کے ذریعے چلائی گئی گولی سے ہوئی ہے، اس کا پولیس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔واضح ہو کہ ریاست کے ڈی جی پی اوم پرکاش سنگھ سمیت تمام اعلیٰ حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ کسی کی بھی موت پولیس کی گولی سے نہیں ہوئی ہے۔
پولیس کے مطابق، ریاست میں جن مقامات پر بھیڑ اور پولیس کے بیچ تشدد کی وارداتیں ہوئیں وہاں کھوج بین میں ممنوعہ بور کے 700 سے زیادہ کھوکھے برآمد ہوئے ہیں۔ اس سے واضح ہے کہ گولیاں مظاہرین نے چلائی تھیں۔ایس پی سنجیو تیاگی نے بتایا کہ 20 دسمبر کو جمعہ کی نمازکے بعد بھیڑ سڑکوں پر اتر آئی تھی۔ ان میں چھوٹے بچہ آگے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں بھیڑ مشتعل ہو گئی اور پتھراؤ اور آگ زنی کرنے لگی۔
انہوں نےکہا کہ ضلع میں اب حالات نارمل ہیں۔کل32 معاملے درج کرکے215 ملزم جیل بھیجے گئے ہیں۔ تشدد کے تین اہم سازشی پر پچیس پچیس ہزار روپے کا انعام رکھاگیا ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں